Tuesday, June 14, 2016

مسئلہ قادیانیت پر نئی بحث

مسئلہ قادیانیت پرحمزہ علی عباسی کے حوالے سے چھڑی بحث پر محمد عامر ہاشم خاکوانی کی ایک پرمغز تحریر

حصہ اول:

کل حمزہ علی عباسی کی ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی ، جس میں انہوں نے قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کے حوالے سے چند سوالات اٹھائے اور ایک نکتے پر بار بار اصرار کیا کہ ریاست کو کس طرح کسی کو کافر قرار دینے کا حق حاصل ہوسکتا ہے؟ 

آج کل ٹی وی پر وہ رمضان نشریات کر رہے ہیں، ساتھ دو تین علما بھی بٹھاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک پروگرام میں انہیں غالباً خیال آیا کہ لگے ہاتھوں یہ آئینی مسئلہ بھی ’’نمٹا‘‘ دیا جائے۔ انہوں نے اپنے مہمان علما سے سوال پوچھا کہ ریاست کسی کو کافر کس طرح قرار دے سکتی ہے ؟ ساتھ ہی انہوں  نے وضاحت بھی کی کہ میں نے جب قادیانیوں کے ساتھ زیادتی والا ایشو اٹھایا تو لوگ مجھے قادیانی کہنے لگے ہیں، حالانکہ میں سنی مسلمان ہو۔

 جو ویڈیو میں نے دیکھی، اس میں ان کے مہمانوں میں ایک معروف سکالر ڈاکٹر خالد ظہیر تھے۔ ڈاکٹر صاحب جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے فکر کے پیروکار ہیں، غامدی سکول آٖف تھاٹ میں انہیں خاصی اہمیت حاصل ہے۔ ان کے جواب پر مجھے سخت مایوسی ہوئی ، ڈاکٹر خالد نے کہا کہ میرے نزدیک تو کسی کو کافر قرار دیا جا سکتا ہی نہیں۔ ان کا اشارہ غامدی صاحب کی اس رائے کی طرف تھا، جس کی رو سے صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کسی کو کافر قرار دے سکتے تھے، ان کے بعد اب کسی کو زیادہ سے زیادہ غیر مسلم کہا جا سکتا ہے ۔ ڈاکٹر خالد ظہیر کو واضح کرنا چاہیے تھا کہ میرے نزدیک کسی کو اب کافر نہیں کہا جا سکتا ، البتہ وہ غیر مسلم ہوسکتا ہے۔ میرے خیال میں تو انہیں ریاست کے اختیار کی حمایت کرنا چاہیے تھی کہ ان کا سکول آف تھاٹ کسی فرد یا گروہ کو اس قسم کا حق دینے کا شدید مخالف ہے۔ خیر ڈاکٹر خالد ظہیر کے جواب سے حمزہ عباسی یہ سمجھے کہ انہوں نے ان کی حمایت کر دی ہے کہ ریاست کو یہ حق حاصل نہیں۔ دوسرے عالم دین جو دیکھنے سے اہل تشیع لگ رہے تھے، وہ اس سوال پر پہلے گڑبڑا گئے اور پھر انہوں نے کہا کہ نہیں یہ حق صرف علما دین کو حاصل ہے ، تیسرے مولوی صاحب نے جوش سے کہا کہ میں جواب دیتا ہوں، انہوں نے کہا کہ یہ حق توعلما دین کو ہے ،مگر نافذ اسے ریاست کرے گی، اپنی بات سمجھانے میں یہ بھی ناکام رہے۔

 حمزہ علی عباسی غالباًان جوابات سے اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ان کا سوال مضبوط ہے اور مولوی صاحبان نے ان کی تائید کر دی ۔ ایک عزم سے انہوں نے فرمایا کہ مجھے چینل نے اس پر بات کرنے سے روکا ہے، آخری روزے کو البتہ میں اس پر بات کروں گا۔ ایک بات البتہ انہوں نے دہرائی کہ یہ علمی بحث ہے، کوئی سیاسی بحث نہیں۔ شائد انہیں یہ خدشہ دامن گیر تھا کہ اس بحث کو سیاسی بنا دیا جائے گا، حالانکہ قادیانی ایشو سیاسی تھا نہ ہے، یہ ہمیشہ سے دینی ایشو ہی تھا، ہے اور رہے گا۔

یہ اس ویڈیو کی تفصیل ہے،جس نے نہ دیکھی ہو، ان کے لئے عرض کر دی۔ 

حمزہ علی عباسی ٹی وی کے معروف اداکار ہیں،فلموں میں بھی وہ کام کرتے رہتے ہیں۔ اپنی اداکاری پر انہیں ایوارڈ بھی مل چکے ہیں، دیکھنے میں وجیہہ آدمی ہیں، خوش لباسی بھی ان کا خاصہ ہے۔ مجموعی تاثر ان کا برا نہیں۔ ٹوئٹر پر وہ بہت فعال رہتے ہیں۔ اکثر مواقع پر ان کا مضبوط نیشنلسٹ سٹینڈ ہوتا ہے۔ کئی مواقع پر ان کا نقطہ نظر لبرلز ، سیکولرز کے لئے بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ عام طور پر ان کے خیالات ماڈریٹ ،مگر رائیٹ آف سنٹر محسوس ہوتے ہیں، کہیں کہیں پر وہ بنیاد پرست بھی لگتے ہیں۔ ڈی پی والے معاملے پر ان کے ٹوئٹس عاصمہ جہانگیر،ماروی سرمد اینڈ کمپنی کو شدید ناگوار لگے۔ وہ مغرب کو چیلنج بھی کرتے ہیں اور اکثر مواقع پر ان کا پاکستانی نیشنلسٹ مسلمان کا موقف ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی طرف ان کا سافٹ کارنر ہے، شائدا نہیں کلچرل سیکرٹری ٹائپ کوئی عہدہ بھی دیا گیا ہے۔ 

اس ویڈیو سے پہلے اسی رمضان میں چند منٹ ان کا ایک پروگرام دیکھا تو اس میں وہ مغربی قدروں پر تنقید کرتے پائے گئے، پہلے انہوں نے سیکولرازم کا نام لیا، پھر کہا کہ نہیں یہ دراصل ویسٹرن نقطہ نظر ہے، ویسٹ والے چاہتے ہیں کہ ہماری اخلاقیات اور ہماری قدروں پر پوری دنیا چلے وغیرہ وغیرہ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی عمومی شہرت ایسی نہیں کہ وہ مذہبی شعار کا مذاق اڑاتے یا ملحدین کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو مذہب اور اہل مذہب کا تمسخر اڑانا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ قادیانی والے معاملے میں ان کی مس ہینڈلنگ کی وجہ میرے نزدیک ان کی اس خاص حوالے سے کم معلومات ہونا ہے۔

حمزہ علی عباسی والے کے سوال اور اس ایشو پر اپنا نقطہ نظر اگلی پوسٹ میں لکھتا ہوں تاکہ یہ زیادہ طویل نہ ہوجائے۔ بعد میں کسی کو اگر اکٹھا کرنا ہو تو انہیں اکھٹا کر سکتا ہے۔

----------------------------------

حصہ دوئم:حمزہ عباسی کا سوال اور اس کے مضمرات


اس ایشو پر بات کرنے کا حق تو اہل علم کو ہے، اس کے علمی پہلوئوں پر وہی بات کر سکتے ہیں۔ ہم تو اپنی طالب علمانہ معروضات ہی پیش کر رہے ہیں۔ 

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کا معاملہ اور ریاست کو یہ حق حاصل تھا یا نہیں ، یہ سب یہ رمضان نشریات کا ایشو ہی نہیں۔ رمضان میں سحری اور افطار کے وقت موضوع گفتگو رمضان سے متعلق یا تذکیہ نفس کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ کسی متنازع موضوع کو چھیڑنے کی کوئی منطق ہے نہ جواز۔ 

حمزہ علی عباسی جیسا کہ اپنی پہلی پوسٹ میں بیان کیا کہ بظاہر معقول آدمی ہیں، اوسط سے بہتر درجے کے وہ اداکار ہیں، شائستہ لب ولہجے میں بات کرتے اور کسی گیم شو ٹائپ پروگرام کے اینکر ہوسکتے ہیں، مگر کسی دینی پروگرام کے لئے ان میں وہ اہلیت موجود نہیں جو کہ درکار ہے ۔ جب کوئی اینکر صاحب مطالعہ نہ ہو، دینی تعلیم اس نے حاصل کی ہو نہ ہی دینی کتب سے شغف رہا ہو تو وہ اپنا زیادہ انحصار مہمان علما پر کرتا اورسادہ سوالات پوچھنے پر اکتفا کرتا ہے جو عام طور سے اس کی پروڈکشن ٹیم نے بنا کر دئیے ہوتے ہیں۔ 

حمزہ علی عباسی کی شخصیت میں ہلکا سا وہ تاثر موجود ہے، جسے انگریزی میں میگلومینیا اور اردو میں خبط عظمت کہا جاتا ہے، اوور ایمبیشس اپروچ کہہ لیں۔ انہیں رمضان نشریات میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا ایشو چھیڑنا ہی نہیں چاہیے تھا، یہ رمضان کا ایشو ہے ہی نہیں۔ پھر اگر چھیڑ بیٹھے توضروری تھا کہ وہ اس حوالے سے کچھ ہوم ورک ، بنیادی سی ریسرچ تو کر لیتے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا، کسی بھی پڑھے لکھے شخص سے، کسی سینئر صحافی سے بات کر لیتے ، وہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے فیصلے کے پس منظر سے آگاہ کر دیتا۔ قومی اسمبلی کی وہ کارروائی کتابی شکل مین شائع ہوچکی ہے ۔ ای بک اور پی ڈی ایف میں میسر ہے، گوگل سے تھوڑی سی سرچ کر کے نکالی جا سکتی ہے۔ کچھ تیاری اگر وہ پہلے سے کر لیتے تو انہیں معاملے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی اور ممکن ہے اتنا سادہ سوال انہیں نہ کرنا پڑتا۔ 

تیسری یہ بات ہے کہ اس قسم کی بحثیں ٹی وی پر یوں، پبلک کے سامنے نہیں کی جا سکتیں، کرنی بھی نہیں چاہیں۔ بعض مباحث علمی محافل میں طے کئے جاتے ہیں، عوامی سطح پر بات اگر ہو تو بہت سوچ سمجھ کر، نپے تلے انداز میں ، پہلے سے ریکارڈ کر کے اسے احتیاط سے ایڈٹ کر کے چلانا چاہیے، نہ کہ لائیو شو میں یہ بم پھوڑ دیا جائے ۔ 

چوتھا یہ کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا ایشو عوامی حوالے سے بہت اہم ، جذباتی اور حساس ہے۔ پاکستانی عوام نے اس مقصد کے لئے لمبی چوڑی قربانیاں دی ہیں، تین چار عشرے لگ گئے اس آئینی ترمیم کو منظورکرانے میں۔ پچاس کے عشرے میں ایک بہت بڑی اور بھرپور تحریک چلی، بعد میں بھی یہ مطالبہ چلتا رہا، آخر بھٹو صاحب کے دور میں ایک اور تحریک چلی اور پھر یہ فیصلہ ہوا کہ اس پر عوام کے منتخب فورم پارلیمنٹ میں بحث ہوگی۔ ایک طرح سے یہ ان کیمرہ سیشن تھے، سوچا یہ گیا کہ غیر جذباتی انداز ہو کر اس کے مختلف پہلوئوں پر بات کی جائے اور پھر مشاورت کے ساتھ اس مسئلے کوہمیشہ کے لئے سیٹل کر دیا جائے ۔ پارلیمنٹ میں دینی جماعتوں کے نمائندے اور مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی ، پروفیسر غفور احمد جیسی قدآور شخصیات موجود تھیں، دیگر جماعتوں میں بھی پڑھے لکھے، ماہرین قانون موجود تھے، جو کارروائی میں بھی شریک ہوتے رہے ۔ اتنے لمبے چوڑے پراسیس کے بعد جا کر وہ آئینی ترمیم کی گئی۔ 

اس ترمیم کے حوالے سے اور خاص طور سے قانون توہین رسالت پر پچھلے دو عشروں میں مختلف حوالوں سے بات ہوتی رہی ہے۔ کئی باقاعدہ قسم کی تحریکیں اس پر چلتی رہیں ، ہر بار ان کی سرپرستی مغربی لابیز کرتی رہیں، بعض اوقات تو مغربی ممالک کی حکومتیں باقاعدہ یا غیر رسمی طور سے اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ ہر بار جب یہ ایشو اٹھتا، عوامی حلقوں میں خوف اور اضطراب کی لہر دوڑ جاتی کہ کہیں عالمی دبائو پر ہماری کمزور حکومتیں آئینی ترمیم نہ کر ڈالیں۔ دینی حلقے متحرک ہوتے، علما اپنا کردار ادا کرتے، پرجوش نوجوان سڑکوں پر آتے اور پھر کہیں جا کر معاملہ ٹلتا۔ جب اچانک ہی بیٹھے بٹھائے ایک اداکار نما اینکر اس معاملے کو چند منٹوں میں نمٹانے کا سوچے اورصاف نظر آئے کہ اس کی رائے پہلے سے طے شدہ ہے، وہ صرف اپنے مہمانوں سے اس پر مہر تصدیق ثبت کرانا چاہتا ہے۔ ایسی صورت حال خواہ مخواہ کا نیا عوامی طوفان اٹھانے کے مترادف ہے ۔ پنجابی سلینگ کے مطابق اڑتا تیر بغل میں لینا۔ 

پانچواں ایشو چینل کا رویہ ہے۔ آج ٹی وی چینل نے اپنی نشریات اور اشتہارات کا بزنس بچانے کے لئے حمزہ کو کہہ دیا کہ آخری روزے میں اس پر بات کرنا تاکہ اس پر شور اٹھے تو ہم کہہ دیں گے کہ اب رمضان ختم ہوگیا تو حمزہ عباسی سے مزید پروگرام نہیں کرایا جائے گا۔ یہ وہ انتہائی گھٹیا سوچ ہے ہے جو ہمارے چینلز کی عمومی سوچ کو ظاہر کرتی ہے۔

 ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسے روکا جاتا اور کہا جاتا کہ بھائی تمہیں رمضان کی نشریات کے لئے لایا گیا، خواہ مخواہ دانشور بننے کی کوشش نہ کرو اور سیدھا سادا پروگرام کرو۔ یہ آئینی مسئلہ ہے ، تمہاری عقل وفہم سے بالاتر۔ اگر اس مسئلے پر واقعی سنجیدہ سوال ہیں تمہارے ذہن میں تو پرائیویٹلی اس پر بات کرو اہل علم سے ، ڈسکشن کرو ان سے ۔ ایک بار تفصیلی یہ معاملہ سمجھ لو، پھر کوئی بات کرنا۔ ابھی تو اس ایشو کی الف ب بھی نہیں پتہ۔ یہ کہنے کے بجائے اسے رمضان کے آخری روزے پر تفصیلی بات کرنے کا ٹاسک دے دیا گیا۔ 

----------------------------------

حصہ سوئم: کیا ریاست کسی گروہ کو غیر مسلم قرار دے سکتی ہے ؟


ایک بار پھر معذرت کے اس کا جواب علما کرام ہی زیادہ بہتر انداز میں دے سکتے ہیں۔ میرے جواب کو میری ذاتی تفہیم اور سوچ کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے ، اسے ایک اخبارنویس کی رائے ہی سمجھا جائے۔ 

میرے نزدیک اس معاملے کو دو زاویوں سے دیکھنا ضروری ہے:

پہلا یہ کہ جس گروہ کو غیر مسلم قرار دیا گیا، کیا وہ واقعی غیر مسلم ہے یا اس رائے پر اختلاف موجود ہے ؟

دوسرا یہ کہ ایسی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ کسی گروہ کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے باقاعدہ تحریک چلائی گئی ؟ 

اس پس منظر کو سمجھے بغیر ریاست کے اس اقدام کی وجہ سمجھ نہیں آ سکتی۔ 

اب پہلے سوال کو لیتے ہیں۔ اسلام میں توحید کے بعد رسالت کا نمبر آتا ہے۔ اس کی اسلام میں مرکزی حیثیت ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ کو اللہ کا رسول ماننا اور آخری رسول ماننا بہت ضروری ہے۔ قرآن واحادیث سے اس کی انتہائی مضبوط اور ٹھوس دلائل ملتی ہیں اور وہ اس قدر کلئیر ہیں کہ صدیوں سے امت مسلمہ اس پر متفق رہی۔

 برادر شمس الدین امجد نے اس پر تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جن جھوٹے نبیوں نے نبوت کا دعویٰ کیا، ان سے اسلامی ریاست نے کس طرح نمٹا،ان کو قتل کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ یہ پوسٹ میری وال پر موجود ہے، جو چاہیے تفصیل سے اسے پڑھ لے۔ اس کے بعد بھی بنو امیہ، بنو عباس اور ان کے بعد بھی جب کبھی کوئی جھوٹا نبی کھڑا ہوا، اسے باطل قرار دیا گیا اس کے ماننے والوں کو غیر مسلم سمجھا گیا۔ اس میں مکمل اتفاق رائے رہا ہے امت مسلمہ کے تمام مسالک اور فرقوں میں ۔ یہ ایک لحاظ سے غیر متنازع رائے ہے امت کی۔ 

قادیانیوں نے مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کو اپنا نبی قرار دیا ، ایک خاص منطق سے انہوں نے یہ عجیب وغریب دلیل نکالی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس لحاظ سے خاتم النبین ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی باہر سے دوسرا نبی نہیں آئے گا، مگر مرزا صاحب ظل نبی ہیں، مثل نبی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ قادیانی حضرات کی اس منطق کو علما کرام نے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔علما کی تحریک پر عام آدمی بھی اس حوالے سے یکسو ہوگیا۔ پاکستان کے تمام مسالک شیعہ ، سنی، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث وغیرہ سب اس حوالے سے مکمل طور پر متفق اور یکسو تھے اور ہیں کہ قادیانی کافر یا غیر مسلم ہیں ۔ 

اب آتے ہیں دوسرے مسئلے کی جانب، قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے پر عوامی سطح پر کبھی کوئی شک یا اختلاف نہیں تھا۔ ہر کوئی انہیں کافر یا غیر مسلم سمجھتا تھا، مگر قادیانی حضرات کی تکنیک یہ تھی کہ وہ دوسروں سے انٹرایکشن میں شروع میں خود کو قادیانی کہنے سے گریز کرتے اور وہ باتیں کرتے جن پر عام مسلمان یقین رکھتا ہے ۔ جب اپنے تقویٰ ، اخلاق کا سکہ جما لیتے پھر، مختلف حیلے بہانے، منطق فتنہ انگیز کا سہارا لیتے ہوئے انہیں قادیانیت کی جانب مائل کرتے اوررفتہ رفتہ قادیانی بنا لیتے ۔ جب یہ پریکٹس بہت زیادہ ہونے لگی، ہر جگہ سے اس قسم کی شکایات پیدا ہوئیں تو علما کرام اور دینی حلقے اس پر مضطرب ہوئے ۔ یہ رائے مستحکم ہوئی کہ ریاستی سطح پر انہیں غیر مسلم قرار دلوایا جائے اور ان پر اپنے آپ کو مسلمان کہنے سے روکا جائے، انہیں اس دھوکہ دہی ، چالاکی سے روکا جائے ۔ یوں یہ تحریک چلائی گئی کہ آئین میں ترمیم کر کے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے ۔ 

اس حوالے سے یہ اہم نکتہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں کئی گروہ ایسے ہیں جن کے عقائد معروف عقائد سے مختلف ہیں اور انہیں غیر مسلم کہا جا سکتا ہے، مگر چونکہ وہ اپنے آپ کو عام مسلمانوں سے الگ رکھتے ہیں، خاموشی سے اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں، کبھی خود کو مسلمان قرار دے کر اور حیلہ کے ذریعے عام مسلمان کو گمراہ کرنے کی کوششیں نہیں کر رہے تو کسی بھی دینی یا قومی جماعت نے انہیں غیر مسلم قرار دینے کے لئے آئینی ترمیم کا مطالبہ نہیں کیا۔ مثال کے طور پر بلوچستان کے بعض علاقوں تربت وغیرہ میں ذکری ہیں۔ وہ خود کو الگ تھلگ رکھے ہوئے ہیں تو کوئی ان کو آئوٹ آٖف دا وے جا کر تنگ نہیں کر رہا۔ اسی طرح بہائی ہیں، جنہیں ایرانی شیعہ بھی غیر مسلم سمجھتے ہیں، پاکستان میں وہ رہ رہے ہیں، کسی نے انہیں تنگ کیا نہ ہی ان کے لئے آئینی ترمیم کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح بوہری، اسماعیلیوں وغیرہ کے حوالے سے کچھ لوگوں کے تحفظات موجود ہیں، اثنا عشریہ شیعہ بھی ان کے لئے تحفظات رکھتے ہیں، مگر کبھی کسی نے اسے تحریک کا نام نہیں دیا، کیونکہ یہ سب گروہ نہایت پرامن طریقے سے رہتے اور عام مسلمان آبادی کے ایمان وعقائد کے لئے خطرہ نہیں بنتے۔ 

قادیانیوں کے لئے یہ مطالبہ اس لئے کیا گیا کہ وہ دوسری اقلیتیوں کی طرح اپنے انداز میں اپنی عبادت کرنے اور زندگی گزارنے کے بجائے منافقت ، جھوٹ اور حیلہ کا پردہ اوڑھ کر گمراہی پھیلا رہے تھے ۔ حالانکہ دنیا بھر میں ہر اقلیت الگ رہنے کو پسند کرتی ہے، اس کا مطالبہ صرف یہی ہوتا ہے کہ ان کے عقائد میں ریاست مداخلت نہ کرے اور انہیں اپنی پسند سے عبادات وغیرہ کرنے دے۔ یہ مطالبہ معقول ہے۔ قادیانی حضرات مگرسماج کے لئے خطرہ بن چکے تھے اور نقص امن کا ایشو بھی کھڑا ہوگیا تھا کہ قادیانی حضرات کی تبلیغ کے نتیجے میں اشتعال پیدا ہو رہا تھا ، مختلف جگہوں پر عوامی تصادم کے واقعات رپورٹ ہو رہے تھے اور ایک مستقل ٹینشن سماج کے لئے پیدا ہوچکی تھی۔ 

تیسرا سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کیا کیا جاتا؟

اس کے دو جوابات ہیں۔ ایک تو یہ کہ معاملے کو جوں کا توں رکھا جاتا، دینی گروہوں، علما ، دینی جماعتوں کو اپنے طور پر یہ معاملہ سیٹل کرنے دیا جاتا۔ ایسی صورت میں روز مارکٹائی  ، قتل وغارت کے واقعات ہوتے ، لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لیتے اور جبراً اس گروہ کو روکنے کی کوشش کرتے جو ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتا اور مسلمانوں میں نقب لگا کر لوگوں کومال دولت اور دوسری ’’ترغیبات‘‘ کی مدد سے ورغلاتا، سب سے بڑھ کر خود کو مسلمان ظاہر کر کے اندر گھس کرکم پڑھے لکھے، سادہ لوح دیہاتی اور شہری لوگوں کو گمراہ کررہا ہے ۔

دوسری آپشن یہ تھی کہ ریاست اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے اور علما کرام سے رائے لے کر، اور تفصیلی بحث کے لئے معاملہ پارلیمنٹ میں لے جائے ، وہاں کسی خوف ،جبر کے بغیر کئی دنوں تک کارروائی چلے، اس گروہ کی قیادت کو تفصیل بلکہ نہایت تفصیل کے ساتھ اپنا موقف بیان کرنے کا موقعہ ملے۔ انہیں یہ حق حاصل ہو کہ وہ اپنی لفاظی ، دلائل سے اراکین پارلیمنٹ پر اثر انداز ہو سکٰیں اور پھر مشاورت کے ساتھ عوام کے منتخب فورم کی حیثیت سے ریاستی نظم ونسق برقرار رکھنے کے لئے کوئی ایک فیصلہ سنایا جائے۔ 

بھٹو صاحب ایک ذہین شخص تھے، لبرل ،سیکولر ویلیوز پر وہ عمل پیرا رہتے ،مگر عوام کی نبض پر ان کی انگلیاں تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ شروع میں بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لایا جائے ، وہاں قادیانی قیادت ان مولویوں کو لاجواب کر دے گی اور یوں یہ معاملہ ازخود دم توڑ دے گی۔ قادیانی لیڈر مرزا ناصرالدین اور ان کے ہم نوائوں کا یہی دعویٰ تھا کہ جہاں کہیں ہمیں بات کرنے کا موقعہ ملے گا، ہم مولویوں کے چراغ گل کر دیں گے۔ پھر پارلیمنٹ میں معاملہ گیا ، گیارہ روز کی کارروائی کے بعد ہی پارلیمنٹ نے اتفاق رائے کے ساتھ آئینی ترمیم منظور کی۔

 کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب قادیانیوں کی عام مسلمانوں کے بارے میں رائے سن کر ہکا بکا رہ گئے، جب مرزا ناصر الدین نے بتایا کہ جو کوئ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانے گا، وہ کافر، اس کی اولاد کافر، میاں بیوی کے نکاح حرام ، اولاد حرامی وغیرہ۔ یہ سن کر بھٹو صاحب کے کان سرخ ہوگئے۔ انہیں سمجھ آگئی کہ قادیانیوں کا عام مسلمانوں سے کوئی سمبندھ اور رشتہ نہیں۔ اس وقت یہ سوال اٹھا کہ صرف مرزا کو نبی ماننے والوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے یا لاہوری گروپ جو مرزا کو مجتہد اور مسیح موعود مانتا ہے، انہیں بھی غیر مسلم قرار دیا جائے، پھر یہی فیصلہ ہوا کہ سب کے ساتھ ایک سا سلوک کیا جائے ۔ 

میرے خیال میں تو معاملہ بہت آسان اور سادہ ہے۔ اقبال نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق حاصل ہے ، وہ اس حق کو علما کی رائے کے مطابق استعمال کرے۔ قادیانیوں والے معاملے میں یہی کیا گیا۔ منطقی طور پر نہایت درست اور صائب فیصلہ ۔ 

جب یہ فیصلہ ہونا تھا تو قادیانی اور ان کے ہم نوا بعض حضرات نے یہ دلیل استعمال کی کہ آج قادیانیوں کو غیر مسلم کہا جا رہا ہے، کل کو شیعہ حضرات کے ساتھ ایسا ہوگا، بعد میں بریلویوں کا نمبر آئے گا۔ الحمداللہ اس وقت شیعہ اور بریلوی علما اس پروپیگنڈے میں نہ آئے اور اتحاد برقرار رکھا۔ آج چالیس سال ہوچکے ہیں اس ترمیم کو۔ ایک بھی بڑی دینی جماعت یا قومی سیاسی جماعت نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ شیعہ کو کافر کہا جائے یا بریلوی کو یا کسی اور کو۔ اس طرح سے یہ سوال خود اپنی موت مر گیا۔ یہ دلیل اگر تھی تو اپنے ہی ہاتھ سے اس نے خود کشی کر لی۔ وقت نے اسے باطل قرار دے دیا۔


---------------------------------

پسِ نوشت: قادیانیوں کے حوالے سےحکیم الامت علامہ اقبال کی رائے


مرزا غلام احمد قادیانی کا نبوت کا دعویٰ بتدریج ہوا۔ ان کی شہرت ایک مشہور مناظر کی تھی، اس لئے عام طور سے لوگ ان کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے، جب ان کی تحریروں میں مجتہد، مسیح موعود اور پھر نبوت کے دعوے جھلکنے لگے تو اہل علم ہوشیار ہونے لگے، مگر اس وقت چونکہ کتابوں کی طباعت سست تھی، تیزی سے اطلاعات منتقل نہیں ہوسکتی تھیں، اس لئے کئی نامی گرامی شخصیات کو قادیانیت کے بارے میں جلد آگہی نہ ہوسکی۔ 

شروع میں علامہ اقبال کی رائے بین بین تھی، انہیں لگا کہ شائد مرزا صاحب کی بعض فقہی آرا ہی دوسروں سے مختلف ہیں، اس لئے انہوں نے ایک آدھ جگہ پر نرم سی بات بھی کی ان کے بارے میں ۔ جب اقبال پر آشکار ہوا توان جیسا عاشق رسول صل اللہ علیہ وسلم ایک جھوٹے نبوت کے دعوے دار کو کس طرح برداشت کر سکتا تھا، انہوں نے نہایت مضبوط اور قطعی لہجے میں مرزائیت کے باطل ہونے کا اعلان کیا اور مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی قرار دیا۔ بلکہ اقبال نے انہیں اسلام اور ہندوستان کا غدار قرار دیا۔ 

اس پر پنڈت نہرو نے اقبال کے نام خط لکھا، جس میں کہا کہ یہ تو مولویوں کا ایشو ہے، آپ جیسا سمجھدار، پڑھا لکھا شخص کس طرح ایسی سخت بات کر سکتا ہے قادیانی حضرات کے بارے میں ، اس پر نظر ثانی کریں۔ اقبال نے جوابی خط میں تین کمال کی باتیں کہیں۔ پہلے تو یہ لکھا کہ آپ لوگ یعنی ہندو، نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی تفہیم کر ہی نہیں سکتے ، اندازہ بھی نہیں آپ لوگوں کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقام ہے۔ دوسرا رسالت اسلام کا مرکزی عقیدہ ہے، جو ختم نبوت کا قائل نہیں، وہ کافر ہے ۔ تیسری بات سے اقبال کی دانش ، دوراندیشی کا اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا اقبال کو اقبال کیوں کہتی اور مانتی ہے۔ 

علامہ پنڈت نہرو کو لکھتے ہیں کہ معاملہ آج کا نہیں، آج تو ہم لوگ مرزائیت کے حوالے سے دھوکا نہیں کھائیں گے، معاملہ مستقبل کا ہے۔ اگر آج اسے یعنی قادیانی گروہ کو دوسرے مسلمانوں سے الگ نہ کیا گیا تو پچاس سال بعد بہت لوگ دھوکا کھا سکتے ہیں۔ افریقہ کے کسی ملک میں کوئی غیر مسلم اپنی دانست میں مسلمان ہوا ہوگا ، مگر وہ قادیانی حضرات کے ہتھے چڑھ جائے گا اور پھر وہ بدنصیب آخری سانسوں تک اس شکنجے میں رہے گا۔ اس لئے قادیانیوں کے حوالے سے قطعی اور حتمی رائے رکھنا، اس کا اعلان کرنا انہتائی ضروری ہے تاکہ مستقبل کو محفوظ کیا جا سکے ۔ 

اپنی یاداشت کی بنا پر یہ فقرے لکھے ہیں، ظاہر ہے مفہوم وہی ہے، الفاظ نہیں۔ اقبال کے خطوط شائع ہوچکے ہیں، ممکن ہو تو کوئی بھائی اس کا عکس پوسٹ کر دے ۔ یہ خطوط اقبال اکیڈمی نے شائع کئے ہیں۔ 

یہاں پر ضروری ہے کہ دو مثالیں دے دی جائیں۔ ایک امریکہ میں کالے امریکییوں کی تنظیم نیشن آف اسلام ۔ شروع میں محمد علی نے اسلام قبول کیا، عالی جاہ محمد کی تبلیغ کے نتیجے میں۔ اپنی طرف سے وہ مسلمان ہوا، مگر عالی جاہ محمد نے ایک طرح سے خود کو نبی کے درجے میں رکھا ہوا تھا۔ بعد میں اس کا بیٹا وارث محمد نے حج کیا تو اسے اصل عقائد کا اندازہ ہوا، اس نے بعد میں جا کر اسلام کی حقیقی تبلیغ کی ، شہباز مالکم ایکس بھی اس کی وجہ سے مسلمان ہوا اور محمد علی نے بھی اپنے عقائد درست کئے اور بعد میں حج بھی کیا۔ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی اپنی دانست میں تو مسلمان ہوا، مگر وہ کسی باطل گروہ کے ہتھے چڑھ کر بدستور گمراہی میں ڈوبا رہا۔ 

دوسری مثال۔ ہمارے دوست اورمعروف سماجی کارکن آئی سرجن، پروفیسر ڈاکٹر انتظاربٹ فری آئی کیمپ لگانے برکینا فاسو گئے ۔ اس افریقی ملک کے داراالحکومت میں ایک جگہ انہیں خاصا بڑا شاندار اسلامی مرکز اور مسجد نظر آئی۔ خوشی سے وہ وہاں گئے، منتظم سے ملاقات ہوئی، معلوم ہوا کہ اچھا خاصا کام ہو رہا ہےمرکز کے تحت۔ درس قرآن، تعلیم وتربیت، ٹھیک ٹھاک چیریٹی کام ، جس کے نتیجے میں متعدد مقامی لوگ مسلمان ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تفصیل معلوم کر رہے تھے تو انہیں شک سا ہوا کہ منتظم کئی باتیں گول مول بتا رہا ہے۔ تھوڑا مزید کریدا تو معلوم ہوا کہ وہ جماعت احمدیہ کا دعوتی وتبلیغی مرکز تھا۔

یورپ سے دولت مند احمدی حضرات افریقہ کے چھوٹے چھوٹے غریب ممالک میں ایسے مراکز قائم کرتے ہیں جہاں مسلمان کم ہیں اور مقامی لوگوں کوقادیانیوں کا علم نہیں۔ وہاں پر ان کی کوششوں سے نجانے کتنے لوگ قادیانی بن چکے ہیں۔ ہمیں یہاں بیٹھے قطعی اندازہ نہیں کہ کس قدر منظم انداز میں یہ سب کام ہو رہا ہے۔

اقبال کی پیش گوئی ذہن میں آتی ہے۔ اس عبقری کو علم تھا کہ اگر قادیانیوں کو واضح طور سے مسلمان امت سے الگ نہ کیا گیا تو یہ نہایت خطرناک ثابت ہوگا۔ اگر آئینی ترمیم نہ ہوئی ہوتی تو یہ برکینا فاسو والا معاملہ ہمارے ملک میں جگہ جگہ نظر آتا اور ہم سب دانت پیسنے اور خون کے گھونٹ پینے کے سوا کچھ نہ کر پاتے۔ حمزہ علی عباسی جیسے سادہ لوح لوگوں کو قطعی اندازہ نہیں کہ یہ کتنا بڑا کام ریاست پاکستان نے کر دیا ہے۔ آج مغربی قوتیں اپنی کوششوں کے باوجود بے بس ہیں ، وہ چاہنے کے باوجود قادیانیوں کو مسلم امہ کا حصہ نہیں بنا پا رہیں۔

---------------------------

یہ مضمون مسئلہ قادیانیت پر آگہی و معلومات کی نیت سے شئیر کیا گیا ہے۔

مزید معلومات کے لیے مولانا مودودی کی کتاب "مسئلہ قادیانیت" تجویز کی جاتی ہے۔