Sunday, June 26, 2016

کیا ریاست کسی کو کافر قرار دے سکتی ہے؟


قادیان کے جھوٹے نبی کی حمایت میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے مگر سوال اٹھانے والوں نے جھوٹے نبی کے بجائے سچے نبی ﷺ سے محبت کی ہوتی، سیرت طیبہ کا کچھ مطالعہ اور مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست کا جھوٹے مدعیان اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ سلوک ملاحظہ کیا ہوتا، اس باب میں خلفائے راشدین کے اسوہ کی کچھ خبر ہوتی، اور ما بعد کی مسلم ریاستوں اور حکمرانوں کا طرزعمل معلوم ہوتا تو اس سوال کی نوبت پیش نہ آتی۔ مگر اب سوال ہوا ہے تو آئیے تاریخ سے اس کا جواب حاصل کرتے ہیں۔


یہ ذوالحمار اسود عنسی ہے، یمن کا باشندہ۔ چرب زبانی اور کہانت کے زور پر اور گدھے کے ساتھ شعبدہ بازی دکھا کر لوگوں کو بے وقوف بناتا ہے، اور کچھ عرصے میں انھیں گرویدہ پا کر نہ صرف نبوت کا دعویٰ کر ڈالتا ہے، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر حاکم صنعا کو شہید کرکے دارالحکومت پر قبضہ کر لیتا ہے۔ آنحضور ﷺ کو خبر ہوتی ہے، حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنھم کو اس ملعون مدعی نبوت کی سرکوبی کے لیے متعین فرمایا جاتا ہے۔ چنانچہ حکمت سے یہ معلون قتل ہوتا ہے، پیروکاروں کی بڑی تعداد ماری جاتی ہے۔ رحلت سے ایک رات پہلے بذریعہ وحی الٰہی آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ' آج رات اسود عنسی مارا گیا، ایک مردِ مبارک نے اسے مارا ہے، نام اس کا فیروز ہے۔ پھر فرماتے ہیں ''فاز فیروز'' فیروز کامیاب ہوگیا۔ سبحان اللہ کیا خوش قسمت انسان ہے کہ آقائے نامدار کامیابی کا اعلان فرما رہے ہیں

اور یہ مسیلمہ کذاب ہے۔ ہو بہو مرزا قادیان جیسا۔ آپ ﷺ کی نبوت پر ایمان لاتا مگر اپنی جھوٹی نبوت کا دعوی بھی ساتھ کرتا۔ یہاں تک کہ اذان میں " اشھد ان محمدا رسول الله" پکارا جاتا تو وہ اس کی گواہی دیتا۔ اس کے پیروکار کلمہ اسلام پڑھتے، قرآن پر ایمان لاتے، اذان اور اقامت بھی یہی، اور مساجد بھی بناتے اور قلبہ رو ہو کر نمازیں بھی پڑھتے۔ مگر بالاجماع صحابه کرام رضوان الله تعالی علیهم اجمعین نے اس جھوٹے نبی اور اس پر ایمان لانے والوں کو کافر سمجھا۔ اور جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کی سرکوبی کے لیے لشکر روانہ فرمایا تو کسی ایک نے بھی جنگ سے انکار نہیں کیا کہ یہ لوگ اہل قبلہ ہیں، نماز، روزه، حج، زکوة ادا کرتے ہیں،ان کو کیسے کافر سمجھ لیا جائے؟ (جیسا کہ آج کل قادیان کے وکلا کہہ رہے رہیں) اس بدبخت نے آپ ﷺ کی خدمت میں ایک خط بھیجا کہ میں رسالت میں تمہارا شریک کیا گیا ہوں۔ آدھی زمین ہماری ہے اور آدھی قریش کی، مگر قریش ایسی قوم ہے جو ظلم کرتی ہے۔ اس کذاب کے ساتھ حتمی معرکے میں سیف اللہ جناب سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سپہ سالار ہیں۔ کذاب کا لشکر 40 ہزار جبکہ مسلمانوں کا لشکر 24 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ معرکے میں 21 ہزار اور بعض روایات کے مطابق 28 ہزار منکرین ختم نبوت جہنم واصل ہوتے ہیں ۔ جبکہ 1200 صحابہ کرام و تابعین شہادت کے مرتبے سے سرفراز ہوتے ہیں، 700 ان میں سے حفاظ ہیں۔ مسیلمہ کذاب حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچتا ہے، وہی وحشی جنھوں نے حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا۔
مرض الموت میں آنحضور ﷺ نے ایک خواب دیکھا کہ آپ ﷺ کے دونوں ہاتھوں میں کنگن ہیں۔ آپ ﷺ کو ان سے نفرت سی محسوس ہوئی، پھونک ماری تو دونوں اُڑ گئے، اس کی تعبیر آپ ﷺنے یہ فرمائی کہ ان کنگنوں سے یہ دونوں جھوٹے مدعیان نبوت (مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی) مراد ہیں اور دونوں عنقریب میرے ہی جانثاروں کے ہاتھوں انجام بد تک پہنچیں گے ( بعد میں یہ پیشن گوئی اسی طرح حرف بہ حرف صادق ہوئی)۔

اور یہ مشہور قبیلہ طے کا طلیحہ اسدی ہے، اس نے بھی دیکھا دیکھی میں نبوت کا جھوٹا دعوی کر دیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کی سرکوبی کےلیے بھی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں لشکر بھیجا جس نے اس کذاب کو شکست سے دوچار کیا۔اور یہ مختار بن عبید ثقفی بھی نبوت کا مدعی ہے جسے حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کے انجام سے دوچار فرمایا۔

یہ آنحضور ﷺ اور صحابہ کرام کا طرز عمل ہے، جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کے پیروکار نہ صرف کافر بلکہ واجب القتل تھے اور ان کے خلاف جنگ کی گئی، اور شکست سے دوچار کرکے ان کا خاتمہ کر دیا گیا۔ خلیفہ اول سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جھوٹے مدعیان نبوت کی سرکوبی کےلیے مجموعی طور پر 11 لشکر ترتیب دیے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! اگر ابوبکر آپ ﷺ کے بعد خلیفہ نہ بنائے جاتے تو روئے زمین پر اللہ کی عبادت نہ کی جاتی۔

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے دور حکومت کے بعد بھی جب کبھی کسی فاترالعقل نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تو مسلم حکومتوں نے خارج از اسلام قرار دے کر ان سے جنگ کی، اور گرفتار کرکے سزائے موت دی۔ حتیٰ کہ بعض عرصے تک عبرت کے لیے سولی پر لٹکا کر رکھے گئے۔ ان جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کے انجام کی تفصیل یہ ہے۔
حارث کذاب دمشقی عبد الملک مروان کے حکم پر ہلاک کیا گیا۔ مغیرہ بن سعید عجلی اور بیان بن سمعان تمیمی، دونوں کو امیر عراق خالد بن عبد اﷲ قسری نے زندہ جلا کر راکھ کر دیا۔ بہا فرید نیشا پوری کا سر ابو مسلم خراسانی نے قلم کیا۔ اسحاق اخرس مغربی ابو جعفر منصور کی فوج سے شکست کھا کر ہلاک ہوا۔ استاد سیس خراسانی کو ابوجعفر منصور کے حکم پر خازم بن خزیمہ نے شکست دی اور گرفتار کر کے گردن اڑا دی۔ ابوعیسیٰ بن اسحاق یعقوب اصفہانی بھی انھی ابوجعفر منصور کے حکم پر قتل کیا گیا۔ علی بن محمد خارجی، خلیفہ معتمد کے زمانے میں موفق نے اس کی فوج کو شکست دے کر اس کا سر کاٹ کر نیزوں پر چڑھایا۔ بابک بن عبد اﷲ ، خلیفہ معتصم کے حکم پر اس کا ایک ایک عضو کاٹ کر الگ کرکے ہلاک کر دیا گیا۔ علی بن فضل یمنی کو بغداد کے لوگوں نے زہر دے کر ہلاک کر دیا۔ علی بن محمد عبدالرحیم کو المعتمد علی اللہ، ابوسعد حسن بن سیرام کو المعتضد باللہ اور محمد بن علی شمغانی کو راضی باللہ کے حکم پر قتل کیا گیا۔ عبد العزیز باسندی کو لشکر اسلامی نے محاصرہ کر کے شکست دی اور سر کاٹ کر خلیفہ المسلمین کو بھجوا دیا۔ حامیم مجلسی قبیلہ معمودہ سے احواز کے مقام پر ایک لڑائی میں مارا گیا۔ ابو منصور عسبی برغواطی کو بلکین بن زہری سے جنگ میں شکست ہوئی اور ہلاک ہوا۔ اصغر تغلبی کو حاکم نصر الدولہ بن مروان نے دستہ بھیج کر گرفتار کروایا اور جیل میں ڈال دیا جہاں یہ ہلاک ہوا۔ احمد بن قسی نے کو حاکم عبد المومن نے گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا جہاں یہ ہلاک ہوا۔ عبد العزیز طرابلسی کو حاکم طرابلس کے حکم پر ایک لشکر نے گرفتار کر کے قتل کر دیا۔

مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست، خلفائے راشدین کے دور اور مابعد کی مسلم تاریخ میں کبھی کسی حکومت کو اشکال نہیں رہا کہ اس نے جھوٹے مدعیان نبوت اور اس کے پیروکاروں کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے، مرزا قادیان کی خوش قسمتی کہہ لیجیے کہ اس نے برطانوی دور میں جنم لیا۔ اگر اس وقت برصغیر میں مغل حکومت کر رہے ہوتے یا کوئی اور مسلمان حکمران ہوتا تو اس کا انجام اپنے پیشرئووں سے مختلف نہ ہوتا۔ مرزا قادیان کے غم میں گھلنے والوں کو خوش ہونا چاہیے کہ پاکستانی ریاست نے آئینی راستہ اختیار کرکے ایک لحاظ سے اس اقلیت کو تحفظ فراہم کیا ہے، اور انھیں اپنے معاملات کی انجام دہی میں آزادی ہے باوجودیکہ کہ وہ پاکستان کا آئین اور قانون ماننے کےلیے تیار نہیں ہیں۔ مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی یاد آتے ہیں، فرماتے تھے ”ردة ولا ابا بکرلہا“ کہ ارتداد نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے، مگر افسوس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی ابوبکرصدیق نہیں ہے۔

------------------------------------

یہ مضمون ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آگہی کی نیت سے شایع کیا گیا ہے۔ 

قادیانیت کے حوالے سے محمد عامر ہاشم خاکوانی کی ایک اور تحریر پڑھیے۔ 

قادیانیت پر قاری حنیف ڈار کے خیالات جانیے۔