Sunday, June 26, 2016

قادیانیت اور ریاست: آصف محمود

پہلی قسط 

قادیانیت ایک بار پھر زیر بحث ہے۔اس کے نومولود خیر خواہ اس کا مقدمہ پیش کررہے ہیں 

کوشش کی جارہی ہے کہ اس فتنے کو اسلام کا ایک فرقہ ثابت کر دیا جائے یا اس باب میں خلط مبحث سے اتنی گرد اڑا دی جائے کہ ممکن حد تک ذہنوں کو منتشر کر دیا جائے۔وقت کا انتخاب بھی ان حضرات نے خوب کیا ہے۔معاشرہ انتہا پسندی سے بے زار ہو چکا ہے ، مذہبی طبقہ بھی اس وقت دفاعی پوزیشن میں ہے اور نوجوان بالعموم مذہبی مباحث میں الجھنے سے گریز کرتے ہیں۔حضرات نے سوچا ہو گا معاشرے کی نظریاتی شناخت پراولین ضرب لگانے کے لیے اس سے اچھا وقت نہیں مل سکتا۔لیکن وہ اندازے کی غلطی کا شکار ہو گئے۔ چنانچہ اب اہل جبہ و دستار کی جانب سے نہیں ،ان نوجوانوں کی جانب سے ردعمل آ رہا ہے جنہیں اہل مدرسہ نہیں بلکہ تہذیب کا فرزند کہا جاتا ہے۔یوں سمجھیے : مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان لبرل نے ۔


یہ گرد ابھی مزید اڑے گی۔یہ طوفان تھمنے والا نہیں۔معاشرے کے مزاج کو وقفے وقفے سے پرکھا جاتا رہے گا کہ اس میں مزاحمت کی کتنی سکت موجود ہے ۔بہت سا خلط مبحث بھی ہو گا اور یہی اس گروہ کا اصل ہتھیار ہو گا(اس کی وضاحت میں اگلی سطور میں کر دوں گا )۔اس لیے ہمیں شعوری طور پر بہت واضح پوزیشن لینا ہو گی۔

سب سے پہلا سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو غیر مسلم قرار دے ڈالے؟ہر وہ فرد جو پاکستان کی آ ئینی مبادیات سے واقف ہے بخوبی جان سکتا ہے کہ علم کی دنیا میں اس سوال کا کوئی اعتبار نہیں۔اگر کوئی فرد یہ سوال اٹھاتا ہے تواس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اول: اسے آئینی مبادیات کے بارے میں آ گہی نہیں اور اس نے دستور پاکستان کا مطالعہ نہیں کر رکھا۔دوم:وہ فکری طورپر دیانت سے کام نہیں لے رہا۔یہ فیصلہ ہم متعلقہ حضرات پر چھوڑتے ہیں کہ جہالت یا بد دیانتی میں سے وہ کس عارضے کا شکار ہیں اور بڑھتے ہیں اس سوال کی طرف کہ کیا ریاست کسی کو غیر مسلم قرار دے سکتی ہے۔

یہ سوال ایک سیکولر ریاست میں تو معنویت رکھتا ہے لیکن پاکستانی ریاست سے یہ سوال پوچھنے سے پہلے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم نے بطور شہری اس ریاست کو کن چیزوں کا پابند بنایا ہے اور کون کون سے فرائض اس کے ذمے لگا رکھے ہیں۔دستور پاکستان کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ہم پاکستان کے شہری تمام کائنات پر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ایک ایسا نظام وضع کرنا چاہتے ہیں جس میں مسلمان اس قابل ہو سکیں کہ انفرادی اور اجتماعی زندگیاں قرآن و سنت میں دیے گئے اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں اس لیے ہم پاکستانی عوام خود کو یہ آئین دے رہے ہیں۔اس آئین کے آرٹیکل2میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا ریاستی مذہب اسلام ہو گا۔اب جب ریاست کا آپ نے ایک مذہب بنا دیا اور اس کو کہہ دیا کہ تمہارا مذہب اسلام ہو گاتو کیا ریاست کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس مذہب کے بارے میں جعلی اور جھوٹے دعوے کا ابطال کرے ۔

آپ نے دستور کے باب 2 میں پالیسی کے اصول وضع کرتے ہوئے آرٹیکل 31میں ریاست کو پابند کر دیا کہ وہ تمام اقدامات اٹھائے گی جن سے پاکستان کے شہری اس قابل ہو سکیں کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق گزار سکیں ۔یہی نہیں آپ نے ریاست کو اس بات کا بھی پابند کیا کہ وہ تمام سہولیات فراہم کرے گی جن کے ذریعے لوگ قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی کے معنی جان اور سمجھ سکیں۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ آرٹیکل 29 میں انتہائی وضاحت کے ساتھ آپ نے یہ بھی کہہ دیا کہ ریاست اور ا س کے تمام ادارے ان اقدامات کو یقینی بنانے کے پابند ہوں گے ۔ اسی طرح آرٹیکل 41 میں ریاست کو پابند کیا گیا ہے کہ اس کا صدر صرف ایسا شخص ہو سکتا ہے جو مسلمان ہو۔یہی شرط وزیر اعظم کے لیے بھی رکھی گئی ہے۔تو جناب جب ریاست نے یہ سب اسلام کی روشنی میں کرنا ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی کو دین کی مبادیات کی نفی کرتا دیکھے لیکن اس پر خاموش رہے اور اسے غیر مسلم قرار نہ دے۔یہ بالکل ریاست کا حق تھا اور ریاست نے استعمال کیا۔

ریاست کے حق پر سوال نہیں اٹھ سکتا۔یہ حق موجود تھا۔ہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ ریاست نے یہ حق کس طرح استعمال کیا۔کیا انصاف کے تقاضے پورے ہوئے اور فریق ثانی کو بات کہنے کا موقع دیا گیا ؟ریکارڈ سے رجوع کریں تو ان سوالات کا جواب اثبات میں ملتا ہے۔

یہ معاملہ قومی اسمبلی کے سامنے آیا تو کھڑے کھڑے فیصلہ نہیں ہو گیا بلکہ کمیٹی نے دو ماہ میں 28 اجلاس منعقد کیے جو 96 نشستوں پر محیط تھے۔قادیانیوں کے سربراہ مرزا ناصر کو مکمل موقع دیا گیا کہ وہ قومی اسمبلی میں کمیٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کرے۔پانچ اگست سے گیارہ اگست اور پھر بیس سے چوبیس اگست یعنی کل گیارہ روز مرزا ناصر قادیانی پر جرح ہوئی۔جرح کا دورانیہ 42 گھنٹے تھا ۔مرزا کو مکمل آزادی تھی کہ شرکاء میں اپنا لٹریچر تقسیم کرے۔ایسا بھی نہ تھاکہ یہ قرار داد چند مذہبی رہنماؤں کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔بلکہ اس میں چودھری ظہور الہی، صاحبزادہ احمد رضا قصوری،نوابزادہ ذاکر قریشی،سردار شیر باز مزاری،حاجی علی احمد تالپور،عبد الحمید جتوئی،رئیس عطا محمد خان مری،سردار مولا بخش سومرو،مخدوم نور محمد،سردار شوکت حیات خان، راؤ خورشید علی خان، میجر جنرل جمالدار،خواجہ جمال محمد گوریجہ جیسی شخصیات بھی شامل تھیں اور ان کے دستخط موجود ہیں۔

اٹارنی جنرل نے جو بھی سوال پوچھا باقاعدہ حوالہ دے کر پوچھا۔دوران سماعت اٹارنی جنرل کے دلائل کے ہاتھوں مجبور ہو کر مرزا ناصر نے تسلیم کیا کہ ریاست کسی کو غیر مسلم قرار دے سکتی مگر ان پر مدبرانہ طور پر عمل ہونا چاہیے۔اس جرح کے دوران ایسے نازک مقامات بھی آ ئے جب اٹارنی جنرل نے قادیانیوں کے عقائد دلائل کے ساتھ کھول کھول کر بیان کیے اور مرزا ناصر سے تردید نہ ہو سکی۔ انہی کے پیش نظر اس کارروائی کو عوام سے پوشیدہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اور سپیکر قومی اسمبلی کو کہنا پڑا کہ اگر ہم اس کارروائی کو خفیہ نہ رکھیں اور یہ عوام تک پہنچ جائے تو قادیانیوں کے لیے یہاں رہنا ناممکن ہو جائے۔

اس کارروائی کے دوران مرزا ناصر نے تسلیم کیا کہ ان کے نزدیک ہر وہ شخص کافر ہے جو مرزا غلام احمد کی نبوت کو نہیں مانتا۔اٹارنی جنرل نے پوچھا کیا مرزا کی نبوت کا منکر کافر ہے۔جواب آیا: ’’ منکر کو کیسے کہیں کہ وہ مانتا ہے ‘‘۔

مرزا نے بات گھمانے کی کوشش کی تو اٹارنی جنرل نے بہ صرار سوال کیا کیا مرزا کا منکر کافر ہے۔جواب آ یا: ’’ جی کافر ۔گنہ گار اور قابل مواخذہ ‘‘۔

اٹارنی جنرل نے کلمتہ الٖٖفصل کا حوالہ دے کر سوال کیا کہ کیا آپ کا یہی عقیدہ ہے کہ بھلے کوئی حضرت محمد ﷺ کو مانتا ہو لیکن مرزا کو نہیں مانتا تو کافر ہے۔جواب آ یا جی ہاں کافر ہے۔

اٹارنی جنرل نے مرزا محمود کی انوار خلافت کا حوالہ دے کر پوچھا کیا یہی آپ کا عقیدہ ہے کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز نہیں ۔ جواب آ یا جی ہاں۔

اٹارنی جنرل نے پھر پوچھا ،یعنی احمدیوں کے علاوہ سب کافرجواب آیا جی ہاں دائرہ اسلام سے خارج۔

سوال پوچھا گیا کیا آپ غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھتے ہیں ۔جواب آ یا نہیں۔ سوال ہوا کیا غیر احمدی بچے کا جنازہ بھی نہیں پڑھتے۔جواب آ یا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کیا یہ درست ہے کہ انوار خلافت میںآپ کے والد نے صفحہ 93 پر لکھا ہے کہ لوگ پوچھتے ہیں غیر احمدیوں کے بچے کی نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھی جا سکتی تو میں کہتا ہوں پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا۔مرزا ناصر نے اس کی تائید کی

۔سوال کیا گیا قائد اعظم کی نماز جنازہ قادیانی وزیر نے کیوں نہ پڑھی۔جواب آیا قائد اعظم کے سامنے بدایونی نے ہمارے خلاف فتوی دیا اور وہ خاموش رہے۔اٹارنی جنرل نے کہا ہم قائد اعظم کو مسلمان سمجھتے ہیں۔جواب آ یا آ پ سمجھتے ہوں گے۔

سوال ہوا تم نے کبھی کسی امام کے پیچھے کسی غیر احمدی کا جنازی پڑھا۔جواب آیا معلوم نہیں۔

سوال ہوا کیا مرزا بشیر نے کہا کہ غیر احمدیوں سے رشتہ حرام ہے۔جواب آ یا جی ہاں۔

سوال ہوا نائجیریا میں آپ نے کلمہ لکھا ہوا ہے جس میں محمد کی جگہ احمد لکھا ہے ۔جواب آیا غلط فہمی ہوئی ہے۔

سوال ہوا اگر اسمبلی یہ کہہ دے کہ قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو آپ کو اعتراض نہ ہو گا۔جواب آ یا نہ ہو گامگر یہ وضاحت کر دیں کہ ہم دائرہ اسلام سے خارج ہو کر بھی ملت اسلامیہ کا حصہ ہوں گے۔

سوال ہوا کسی کو آپ نے کافر کہا اور کسی نے آپ کو کافر کہاکیا اسمبلی غور کر سکتی ہے کہ آپ کی بات درست ہے کہ نہیں۔جواب آیا کر سکتی ہے۔

سوال ہوا روحانی خزائن اور اربعین نے مرزا نے لکھا ہے کہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی میں شریعت والا نبی ہوں ۔جواب آیا جی وہ تو میں نے دیکھا ہے۔سوال ہوا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد کی فضیلت ( نعوذ باللہ )حضرت محمد ﷺ سے بڑھ کر ہے اس فضیلت کے اشعار مرزا کو سنائے گئے اس نے کہا جزاک اللہ۔جواب آیا ثبوت کیا ہے۔غلام غوث ہزاروی صاحب نے البدر کا شمارہ پیش کر دیا۔مرزا ناصر خاموش ہو گیا۔

سوال ہوا جس نے مرزا کو دیکھا نہیں نام نہیں سنا۔اگر وہ مرزا کو نبی نہ مانے تو کیا وہ بھی کافر۔جواب آیا محدود معنوں میں وہ بھی کافر۔

اٹارنی جنرل نے کہا مرزا نے روحانی خزائن میں صفحہ ایک سو تین ج تیرہ میں لکھا کہ میں خود خدا ہوں۔جواب آ یا یہ تو کشف ہے۔

سوال ہوا سارے غیر احمدی جن پر اتمام حجت ہو چکا ہے کافر ہیں۔جواب آیا کہہ تو دیا ہے اور کتنی دفعہ کہلوائیں گے۔

مرزا نے دوران سماعت دعوی کیا چودہ سو سالوں میں سینکڑوں انبیاء آ ئے۔اٹارنی جنرل نے کہا وہ کون کون سے تو جواب آیا مجھے کیا معلوم۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ مرز ا محمود انوار خلافت میں صفحہ 62 پر لکھتے ہیں’’ میری گردن کے دونوں طرف تلوار رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم یہ کہو کہ آنحضرت کے بعد کوئی نبی نہیں آ ئے گا تو میں اسے کہوں گا تو جھوٹا ہے کذاب ہے۔آپ کے بعد نبی آ سکتے ہیں اور ضرور آ سکتے ہیں‘‘ تو مرزا ناصر نے کہا حوالے درست ہیں یہ امکان کی بات ہے۔  ( جاری ہے )

------------------------------

تحریر: آصف محمود

یہ مضمون مسئلہ قادیانیت پر آگہی و معلومات کی نیت سے شئیر کیا گیا ہے۔

قادیانیت پر محمد عامر ہاشم خاکوانی کی تحریر پڑھیے۔

قادیانیت پر قاری حنیف ڈار کے خیالات جانئے۔