Friday, February 5, 2016

مشتہرین کو لاحق کچھ غلط قسم کی خوش فہمیاں

لاجواب  اور دانے دارچائے  کے کانٹے دار میچ میں ایوری ڈے نے فل ٹاس مارا اور وکٹ اڑانے کی بھرپور کوشش کی ۔ درمیان میں ایک ترکھان کمپنی نے اپنی فیلڈ بلکہ پچ کی شو ماری کہ آو ناں ہماری میز پر ذرا خشبو لگا کے۔ کچھ لوگوں نے چائے میں ہاتھ کا ذائقہ ملانے پر اصرار کیا تو کسی نے ذائقے کا معیار خان صیب کی چائے سے پیش کیا۔ اس سے پہلے بھی مہنگےواشنگ پاوڈر اورکم قیمت میں معیاری واشنگ پاوڈر کے درمیان ایک دھلائی  کولڈ وار برسوں سے جاری ہے۔







من حیث القوم ہم اپنی خصوصیات کو پروموٹ کرنے کے بجائے دوسروں کی خامیوں کو پروموٹ کرکے خود کو دودھ سے دھلا ثابت کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ سیاستدانوں، سیاسی پارٹیوں، گزشتہ سے پیوستہ حکومتوں سے لے کر  موبائل فون کمپنیوں سے ہوتے ہوئے واشنگ پاوڈر اور چائے کی پتی تک ہم کہتے ہیں کہ ہم بہترین نہیں لیکن ہم فلاں فلاں سے بہتر ہیں ۔ خیر اس موضوع کو ایک الگ بلاگ درکار ہے۔

اس وقت ہمارا موضوع مشتہرین کو لاحق کچھ شدید قسم کی غلط خوش فہمیاں ہیں ۔ جیسے لپٹن اور ٹپال کو یہ غلط فہمی  لاحق ہے کہ لوگ اشتہار میں موجود ہیرو یا ہیروئن کو دیکھ کر چائے خریدتے ہیں ۔ اسی طرح ترنگ کو یہ خوش فہمی ہے کہ وہ اپنے اشتہار میں جتنے زیادہ اداکاروں کو نچوائیں گے ان کی سیل اتنے گنا بڑھ جائے گی۔ 

ایک گھی کمپنی کو بھی ایسی ہی غلط فہمی ہے کہ جتنے زیادہ لوگ "وجد" میں ہونگے گھی کی سیل اتنی ہی بڑھے گی۔ انہیں یہ خبر نہیں کہ ان کے اشتہارات کی "اوقات" یعنی ٹائمنگ صارفین میں ان کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر رہی ہے۔ یعنی روزہ افطار کرنے سے محظ چند سیکنڈز پہلے جن روزہ دار دعا اور اذکار میں مشغول ہوتے ہیں، کان پھاڑ دینے والے انداز میں کئی درجن افراد ٹی وی اسکرین پر ناچنے لگیں تو کس قدر ناگوار گزرتا ہے کہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ہم نے تو عہد کیا ہوا ہے کہ اگر روئے زمین پر آخری گھی کا ڈبہ ان کے برانڈ کا ہوگا تو ہم بغیر گھی کے سالن ابال ابال کر کھالیں گے پر انکے گھی کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے۔

لان کے برانڈز مینوفیکچرز کو یہ غلط فہمی ہے کہ لان کے سوٹ مرد حضرات خریدتے یا پہنتے ہیں۔ جس قسم کے اشتہارات بنائے جاتے ہیں، اور خواتین جس طرح کے ملبوسات پہن کر جن توبہ شکن زاویوں سے ان میں جلوہ افروز ہوتی ہیں وہ ان سے خواتین کو تو رجھانے سے رہیں۔ ویسے بھی ہر خاتون دوسری خاتون سے جو ان سے حسن  میں دوچار نمبر زیادہ ہوں ویسے ہی خار کھاتی ہے۔

موبائل فون کمپنیوں کو بھی نت نئی غلط یا خوش فہمیاں لاحق ہوتی رہتی ہیں جن کا والہانہ اظہار وہ قومی اخبارات کے فرنٹ پیجز پر کرتی رہتی ہیں۔ اس قسم کے اشتہارات دیکھ کر دل پشوری کرنے والے طبقے کے لوگ اس قیمت کے موبائل فون افورڈ نہی کرسکتے اور جس طبقے کے افورڈ کرسکتے ہیں وہ کم از کم کسی خاتون کے توبہ شکن جلووں سے متاثر ہوکر موبائل فون خریدنے کا فیصلہ نہیں کرتے۔ موبائل فون برانڈز کو بھی ایسی ہی غلط فہمیاں ہیں۔

ہمیں تو یاد نہیں کہ ہم نے کبھی چائے یا دودھ اس بنیاد پر خریدا ہو کہ اس برانڈ میں کون سا ایکٹریا ہیرو آتا ہے یا کون سے گھی کے اشتہار میں کتنے افراد ناچ رہے تھے۔ نا ہی کسی بھارتی اداکارہ کی پہنی ہوئی لان ہماری شاپنگ پر اثر انداز ہوسکی۔ اسی طرح موبائل فون کی خریداری  پر بھی کسی ہیرو نے کوئی اثر نہیں ڈالا۔ افسوس

پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق پاکستان میں آمدنی کے لحاظ سے پانچ طبقات ہیں: امیر ترین، امیر، متوسط طبقہ، غریب اور غریب ترین۔ پاکستان کی آبادی کی اکثریت [تقریبا تین چوتھائی] دیہات میں رہتی ہے۔ اور شہروں کی آبادی بھی ساری امیرترین یا امیر آبادی نہیں ہے، زیادہ تر متوسط اور نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے خاندان ہیں ۔ جن کا خریداری کا فیصلہ خواہ وہ اشیائے صرف ہوں، اشیائے ضرورت یا اشیائے آسائشات و تعیشات کا دارو مدار بہت سارے دیگر فیکٹرز کے ساتھ ساتھ افورڈیبلیٹی پر ہوتا ہے۔ ان کی پہلی ترجیح کم سے کم قیمت میں زیادہ سے زیادہ مقدار یا زیادہ سے زیادہ کوالٹی ہوتی ہے۔ مقدار پر سمجھوتہ کم ہی ہوتا ہے، کوالٹی پر اکثر ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر مہنگے برانڈز کی دو یا تین نمبر مصنوعات سے بازار بھرے پڑے ہیں۔ مگر مشتہرین جو چند فیصد اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں، اشیائے صرف اور اورانکے اشتہار بھی اسی طبقے کے لیے بناتے اور بیچتے ہیں۔