ہم ہر وقت کسی نہ کسی دھاگے سے بندھے رہتے ہیں اور بندھے رہنا چاہتے بھی ہیں، چاہے جہاں بھی ہوں ۔ کسی نہ کسی کو ہمارے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس وقت کہاں ہیں ، کیا کر رہے ہیں ۔ ایک مرکز کہیں نہ کہیں ہوتا ہے جس کے گرد ہم گھوم رہے ہوتے ہیں۔ کبھی دور کبھی پاس ، پر ہمیشہ منسلک ۔ ہم ہمیشہ معلوم رہنا چاہتے ہیں ، کسی نہ کسی کے علم میں رہنا چاہتے ہیں ۔ خواہ اپنے ہی علم میں کیوں نہ ہوں۔
کسی سفر میں ہوں ، کسی نگر میں ہوں ۔ سب سے پہلے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم ہیں کہاں۔ خواہ وہاں نہ موبائل ہو نہ وائی فائی ، لیکن ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس وقت کہاں ہیں ۔ کسی نہ کسی حوالے میں رہنا چاہتے ہیں ، گویا ہم جہاں موجود ہیں وہاں ہماری موجودگی کافی نہیں ، جب تک کہ اس جگہ کا ، اس اسٹیشن کا نام معلوم نہ ہو ۔
ہم جہاں بھی ہوں وہاں سے اس دھاگے کا ایک سرا گھر سے منسلک رہتا ہے، گھر والے جانتے ہیں کہ آج یہ فیری میڈوز میں ہونگے، کل چل پڑیں گے، پرسوں کہاں پہنچیں گے اور اسکے بعد کہاں ہونگے۔ ہمیں بھی یہ احساس رہتا ہے کہ گو کہ ہم نے تین دن سے گھر پر کسی سے بات نہیں کی ہے پر اس زمین پر ایک کونا ہے جہاں کوئی نہ کوئی ہے جس نے دھاگے کا دوسرا سرا تھاما ہوا ہے۔ اور جیسے ہی ہم لائن پر آتے ہیں سب سے پہلے اس دھاگے کو ہلاتے ہیں کہ ہم ہیں۔
جیسے فیری میڈوز ٹریک پر ایک مخصوص مقام پر دھاگے کا سرا ہاتھ میں پکڑے موبائل میں سگنلز کی صورت اتر آتا ہے اور ہر شخص دوسرے سرے سے رابطہ میں آجاتا ہے۔جیسے استولا جاتے ہوئے دھاگے کا ایک سرا اورمارہ کے ساحل سے باندھ کر چلے تھے ۔ ہم گم ہوکر بھی گم نہیں ہوتے۔ اگر ایک مخصوص وقت کے بعد اس دھاگے کے اگلے سرے پر ہماری موجودگی کا احساس نہ ہوپائے تو پھر وہی ہوتا ہے جو خرم اینڈ کمپنی کے ساتھ پچھلے سال ہوچکا ہے۔
کبھی ہم کسی ریلوے اسٹیشن سے، کسی ائیر پورٹ سے یا کسی بندرگاہ سے ایک اور دھاگا پکڑ کر آگے چل دیتے ہیں، خیریت کا دھاگہ۔ یہ دھاگا جب تک ہمارے ہاتھ میں رہتا ہےخیر رہتی ہے اکثر تو یہ دھاگہ بخیریت اگلے اسٹیشن یا ائیر پورٹ تک دراز رہتا ہے، لیکن کبھی کبھی یہ دھاگا توڑ کر کسی انجانی لیکن جانی پہچانی منزل کو گامزن بھی ہوجاتے ہیں۔
دور جدید میں دھاگوں کی نئی قسم موبائل فون، وائی فائی اور سوشل میڈیا کی شکل میں ہمیں ہروقت ہر ایک کے ساتھ منسلک رکھتی ہے، ہمیں گم نہیں ہونے دیتی ۔ہمارے بیشتر احباب جانتے ہیں کہ ہم کدھر پائے جاتے ہیں ، ہم خود بھی تو شو مارنے میں کم نہیں ہوتے کہ ہم کہاں ہیں ، دھڑادھڑ چیک ان کئے جاتے ہیں ۔
ایسا ہی ایک دھاگہ ہے جس کا ایک سرا اس کے ہاتھ میں ہے جس نے دوسرا سرا ہمارے ہاتھ میں دے کر ہمیں آزاد چھوڑ دیا ہے کہ جاو تم جہاں بھی جاو ، جہاں بھی رہو ، میں تم سے باخبر ہوں، اور تم کو لوٹ کر میرے پاس ہی آنا ہے، یہ وہ دھاگا ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی فکر نہیں کہ ہم کہاں ہیں، منزل سے کتنے دور یا قریب۔ اکثر تو ہمیں یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ اگلے سرے پر کوئی ہے بھی اور یہ وہ دھاگہ ہے کہ جب تک وہ چاہے دراز رہے گا، اور جب وہ چاہے گا اپنی طرف کھینچ لے گا۔ ہم سب سے دھاگہ توڑ سکتے ہیں پر اس سے نہیں ، ہر گزرتا پل یہ ڈور ہمیں اس کے قریب ، قریب اور قریب کرتا جاتا ہے ۔ ۔ ۔
دائروں کے بارے میں جاننے کے لیے دھاگے کا سرا یہاں ہے