ایک شہری پینڈو کو چند منظر اپنے کیمرے میں قید کرنے کی تمنا تھی لیکن کیمرہ خود بڑے بکسے میں قید تھا۔ سوچا کوئی نئیں ۔۔۔ واپسی بھی تو اسی راستے سے آنا ہے پھر بنا لوں گی تصویر ۔۔ واپسی میں تو ایمرجنسی نافذ ہوچکی تھی۔ یعنی یہ نہ تھی ہمارے قسمت ۔۔ پھر بھی ان میں سے چند منظر ہیں جو میں نے ڈائری میں قلمبند کر لیے تھے، اگر آپ سب بھی دیکھ سکیں میرے تحریر کے لینس سے ۔ ۔ ۔
- گندم کے لش گرین کھیت میں ہنستا مسکراتا، خوشی سے رقص کرتا ہوا اور اپنی انفرادیت پر نازاں اکلوتا سرسوں کا بوٹا جو گندم کے بُوٹے بوُٹے بوٹوں کو جھک کر دیکھتا تھا اورپھر سر اٹھا کر کہتا تھا کہ میں کوئی تم ہوں ، میں تو میں ہوں، تم میں سے ہے کوئی میرے جیسا۔ میں سب سے الگ میں سب سے جدا ، میرے جیسا کوئی نہ
-آوے سےنکلی ہوئی نویں نکور گلاب رنگ اینٹیں، جیسے کسی[پرانی قسم کی :P ] دلہن کی طرح شرماتی لجاتی اور گلابی ہوتی ہوں اور ان اینٹوں کے بالکل برابر میں سرسوں کا کھیت، جیسے دونوں کہہ رہے ہوں کہ ڈائیورسٹی از دی رئیل بیوٹی۔
- چند درویش اور غیردرویش درخت ، کوئی ہاتھ اٹھائے جیسے دعا مانگتا ہو، کوئی شکوہ کناں، کوئی شاداں و فرحاں، راضی بہ رضا، کوئی عالم وجد میں رقصاں، کوئی رو رو کر فریاد کرتا ہوا۔ ہر درخت کی ایک الگ شخصیت، ایک الگ شناخت، ایک الگ کیفیت۔
-چنیوٹ کے آس پاس میلوں پھیلے میدانوں میں اچانک سے جیسےزمین سے اگی ہوئی یا آسمان سے اتری ہوئی کچھ چٹانی پہاڑیاں، ایک منی ٹرینگو ٹاور جن کی کوئی وجہ تسمیہ ابھی تک سمجھ میں نہیں آئی۔
-اس سے کچھ آگے میلوں پر مبنی کرشر جو چٹانی پتھروں کو مختلف سائز اور نمبر کے کرش سے لے کر ریت بنانے کے نام پر انکی انا اور خود سری کو نرمی و عاجزی سے تبدیل کرتے تھے اور اس عمل کے دوران اٹھنے والی دھول نے پورے علاقے کے منظروں کو خواب آلود سرمئی دھند کے پردے میں محجوب کیا ہوا تھا۔
شام ڈھلے پرندے جوکھیتوں پر سے ڈھلتے سورج کے پس منظر میں اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔
اورشاید یہ اچھا ہی ہے کہ تصویریں کیمرے میں نہیں ہیں کیونکہ
دل کے آئینے میں ہیں تصاویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لیں