جس کی عزت کا کوٹہ پورا ہوجاتا ہے
اسے ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں ایک نئی سیاسی پارٹی بنانے کا خیال آجاتا ہے۔
پاکستان کی حالیہ سیاست سے چند مثالیں
عمران خان اچھا خاصا کھلاڑی تھا۔ سارے ملک کی آنکھوں کا تارہ، سب سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ شوکت خانم ہسپتال نے اسکی عزت و محبت میں چار چاند لگا دئیے۔ پھر اللہ جانے کس نے اسے اکسایا کہ یہی وقت ہے اس عزت و محبت کو سیاست میں کیش کرلو۔ سیاست میں بس آپ کی کمی ہے، نا آپ سے پہلے کوئی تھا نہ آپ کے بعد ہونا۔ بس جی آگیا سیاست میں ذلیل و خوار ہونے۔ ہوا کیا جو 16 کروڑ لوگوں کا ہیرو تھا اور جسے آج 20 کروڑ لوگوں کا ہیرو ہونا چاہیے تھا آج وہ چند فیصد لوگوں کا رہنما رہ گیا اور باقی اسکا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے اور جنہوں نے اسے اس "سیاہ ست" میں دھکا دیا تھا وہ اس کے بعد نئے شکار کی تلاش میں آگے نکل گئے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے ملک کا ایک قابل فخر نام۔ انہیں قوم نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے گم نام سائنسدانوں نے ان کا قد کم کرنے کی کوشش میں اپنا کچھ نام بنانے کی کوشش کی ۔۔ کہ بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا۔ انہیں بھی کچھ لوگوں نے سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کی اور ایک عدد سیاسی پارٹی بنوائی گئی۔ لیکن اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ پرویز مشرف نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے جرم میں انہیں نظر بند کر کے ان کا سیاسی کیرئیر وہیں ختم کردیا ،مطلب سیاست میں مزید ذلیل ہونے سے بچا لیا۔ ورنہ پاکستان میں ایک اور ٹانگہ پارٹی کا اضافہ ہی ہونا تھا ۔ شاید اب بھی ہو پر نظر نہیں آتی۔
خود مشرف صاحب ایک دہائی کے قریب ملک کے چیف ایگزیکٹو اور صدر رہنے کے بعد ریٹائرڈ ہوکر عزت سے بیرون ملک لکچرز دے رہے تھے، ڈالر کما رہے تھے اور طبلہ بجا رہے تھے۔ راوی کیا جہلم اور چناب بھی چین ہی چین لکھتے تھے۔ پھر یار لوگوں نے سمجھایا کہ تسی ایک سیاسی پارٹی بنا لو۔ بس جی ملک و قوم کے مفاد میں ایک سیاسی پارٹی بنا لی اور ملک بچانے یعنی الیکشن میں حصہ لینےوطن عزیز چلے آئے۔ بس پھر کیا تھا عدالت نے دھر لیا جس سے بچاو کے لیے انہیں کہنا پڑا کہ ہمیں تو کب سے علالت نے دھر لیا ہوا ہے۔ پھر کیسا الیکشن، کہاں کا الیکشن اور تب سے "قید میں ہے بلبل، صیاد منہ چڑائے"
بندہ پُچھے کسی ملک کا چیف ایگزیکٹیو ہونے کے بعد مزید کونسا عہدہ باقی رہ گیا تھا جس پر پروموشن ہونے سے رہ گئی تھی۔ پر عزت کا کوٹہ پورا ہوجائے تو ذلت ایسے ہی "سیاہ ست" میں کھینچ لیتی ہے۔
عدالت سے یاد آیا کہ چودھری افتخار حسین بھی دودھ کا دھلا ہوا تو نہیں تھا ، پر ایک ڈکٹیٹر کے آگے ڈٹ جانے اور پھر عوامی مسائل پر سرکاری اداروں اور سیاستدانوں کی مسلسل کلاس لینے پر عوام نے اسے دلوں میں بٹھا لیا، عزت دی، سر آنکھوں پر بٹھایا۔ پھر کنگ میکرز نے اسے بھی یہی رائے دی کہ یہ عزت سیاست میں ٹرانسلیٹ کر لو ، یہی وقت ہے۔ اور آج کوئی اس کا نام بھی نہیں لیتا۔ مزید ذلت اگلے الیکشن میں اسکا انتظار کر رہی ہے۔
اور اب مصطفیٰ کمال کو ملک و قوم کا غم لگ گیا۔ اسکو بھی اس کی اوقات کا بہت جلد پتا لگ جانا۔ اسکو یہ نہیں پتا کہ اچھی مینیجمنٹ اسکلز اور سیاست دو مختلف صلاحیتیں ہیں ۔۔ اور یہ کہ سیڑھی چڑھانے والے ہی سیڑھی کھینچ لیتے ہیں جیسے عمران خان کی سیڑھی بھرے دھرنے میں کھینچ لی تھی یار لوگوں نے
باٹم لائن: جس کی عزت عوام کی نظروں میں دو کوڑی کی کرنی ہوتی ہے اسے ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں ایک نئی سیاسی پارٹی بنانے پر لگا دیا جاتا ہے۔