Friday, March 18, 2016

بچے ہمارے عہد کے

ہم اپنے بچپن کو یاد کریں تو ہم نے اورنگی ٹاون میں ہی ہوش سنبھالا تھا۔ اس زمانے میں اورنگی ٹاون خاصا کھلا ڈلا ہوتا تھا اور ویرانے میں ایک دو جھونپڑی نما گھر ہوتے تھے جہاں سے حبیب بنک ٹاور براہ راست مشاہدہ کیا جاسکتا تھا، اور اگر نانا نانی یا کوئی بھی مہمان ہمارے گھر آتا تھا تو وہ ایک کلومیٹر دور بس اسٹاپ پر بس سے اترتے ہی نظر آنے لگتا تھا ۔ 

ہمارا محلہ ایک بہت بڑے آنگن پر مشتمل تھا جس میں ذرا فاصلوں سے دو چار جھونپڑیاں [ممی ڈیڈی بچوں کے لیے چٹائی کی بنی ہوئی ہٹس] ہوتی تھیں ۔۔ ایک ہماری، ایک ہمارے سامنے حسینہ باجی جو بلوچ تھیں مطلب ابھی بھی ہیں اللہ انہیں صحت و حیاتی دے، ایک برابر میں سلمی باجی اور صابر بھائی کی، ان کے سامنے خانصاحب کی جو بنگلہ دیش سے ہجرت کئے ہوئے پٹھان تھے۔ ہمارے پیچھے ایک جھگی حنیفہ باجی کی ، وہ بھی بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے آئی ہوئی بہاری فیملی تھی۔ 

ہم سے ہٹ کر تھوڑی دور کچھ پنجابی خاندان رہائش پذیر تھے، ان کے بعد کچھ مزید خاندان جو بہاری تھے۔ اور پیچھے والی گلی میں کونے پر [اگر اس میدان میں گلی کو مارک کیا جاسکتا ہو] دادا کا پلاٹ تھا جس پر انکی ایک جھگی ہوتی تھی جو صرف جون جولائی کی چھٹیوں میں آباد ہوتی تھی جب وہ بہاولپور سے کراچی آتے تھے۔ ان سےمزید آگے ہماری گلی والے خانصاحب کے سسرالی خاندان کی جھگی یا جھونپڑی ہوتی تھی جس میں نانا ، نانی، اوربڑے نانا [نانا کے بڑے بھائی] ہوتے تھے۔ یہ دراصل خانصاحب کے بچوں کے نانا نانی تھے لیکن سارے محلے کے بچے انہیں نانا نانی کہتے تھے۔

اور ہماری مشہور عالم شاہراہ اورنگی پر جو اس وقت ویرانے میں ایک پگڈنڈی کو بھی شرماتی تھی ایک عدد کھاتی یعنی ترکھان، ایک عدد درزی، ایک عدد چائے کا ہوٹل، ایک عددزندہ پیر جمع حکیم صاحب اور ایک عدد اور صاحب جو پانی کی ٹینکی چلاتے تھے یعنی نورا صاحب کی رہائش تھی۔ 

پورا سیکٹر گیارہ بلکہ کافی سارہ سیکٹر بارہ یہاں تک کہ سکٹر چار، پانچ اور آٹھ کی حدود شروع ہونےتک  اور بعض اوقات ان سیکٹرز کے کافی  اندر تک "ہمارا محلہ" تھا ، ہماری راجدھانی تھا ۔ ہم ساری گلی کے بچے اسکول کی عمر سے پہلے اور پھر اسکول کی عمر میں اسکول کے اوقات کے بعد ان ساری گلیوں  میں چھپن چھپائی، اونچ نیچ، چور سپاہی اور نہ جانے کیا کیا گیمز کھیلتے رہتے۔ ایک گیم ہوتا تھا جس میں کوئلے یا چاک سے مختلف جگہوں پر پوشیدہ لکیریں کھینچنی ہوتی تھیں  جو مخالف پارٹی کو ڈھونڈنی ہوتی تھیں ۔۔ پھراینڈ میں  ان کی چھپائی ہوئی لکیروں اور اپنی چھپائی ہوئی ان لکیروں کو گنا جاتا تھا جو ہر دو مخالف پارٹی تلاش کرنے اور مارک کرنے سے رہ گئی ہو۔ اور جس کی غیر مارک شدہ لکیریں کم ہوتی تھی، وہ پارٹی جیت جاتی تھی۔

اس وقت نہ بجلی تھی، نہ پانی نہ گیس، سر شام ہی اندھیرا ہوجاتا تھا اور حسب توفیق گیدڑ اور لومڑیاں بھی بولتے تھے یا نظر بھی آجاتے تھے ۔ ایسے میں ہم اس گیم کے چکر میں دور دور تک جا کر مارکنگ کیا کرتے اور کھیل کھیل میں اندھیرا ہونے لگتا تو گھر واپسی کا خیال آتا ، واپسی پر ڈانٹ سے لے کر مار تک حسب تاخیر مرمت ہوتی۔ اگلے دن پھر تیار و کامران۔

ہم سارے بچے "پورے محلے"  کے بچے تھے، اور پورے محلے کے لوگ ہمارے بزرگ ۔ ہم کہیں "بے راہ رو" کسی کو مل جاتے تو ہماری سرکوبی اس کا فرض ہوتا تھا۔ ہم بھی احترام سے ڈانٹ کھا لیتے کہ یہیں ان کو بھگت لو، گھر شکایت کی تو مار بھی پڑنی۔  اس ڈانٹ کے علاوہ ہمیں کسی سے کوئی خوف نہیں ہوتا تھا۔ خانصاحب کا کتا اکثر ہماری سیکورٹی پر معمور ہوتا تھا اور ہم سب کو اسکول چھوڑنے ایک خاص مقام تک جاتا اور پھر وہاں کھڑا ہوکر دیکھتا رہتا کہ ہم اسکول کے اندر چلے گئے ، اس کے بعد واپس گھر چلا جاتا۔

محلے کا ہر گھر ہمارا گھر تھا، پہلے تو کسی بھی "گھر"  میں دروازہ ہی نہ ہوتا تھا، بہت ترقی ہوئی تو دروازے تو لگ گئے پر کنڈی نہ لگ سکی ۔ کسی کا بھی دروازہ لاک نہ ہوتا تھا ، ہم جب چاہتے دندناتے ہوئے کسی بھی گھر میں جاسکتے تھے، پہروں گڑیا کی شادی کر سکتے تھے، لڑ بھڑ سکتے تھے، ایک دوسرے کے بال نوچ سکتے تھے۔ کوئی پابندی نہ تھی ، بس بعد میں مار ضرور پڑتی تھی امیوں سے۔ وہ تو روز کی بات تھی۔

جب ہم اپنے بچپن کا موازنہ اپنے بچوں کے بچپن سے کرتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے، افسوس بہت چھوٹا لفظ ہے اس کیفیت کے لیے جیسا بچپن ہمارے بچے گزار رہے ہیں ۔ ہمارے بچوں کو گھر سے باہر گلی میں یا مٹی میں کھیلنے کی اجازت نہیں ، کسی پڑوسی کے گھر جاکر اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں ، سوائے اسکے کہ ہم کسی کام سے پڑوس میں گئے ہوں اور وہ ہمارے ہمراہ ہوں۔ بچے سگے ماموں یا چاچا کے ساتھ ہوں اور تھوڑی دیر ہوجائے ہمارا ہی نہیں بھاوج کا بھی دل دھڑکنا شروع ہوجاتا ہے۔ بلکہ وہ تو آنسو بھی بہانے پر تیار ہوجاتی ہیں ۔ سامنے والی حسینہ باجی جن کے بچے ہمارے آنگن اور ہم انکے آنگن میں کھیل کر بڑے ہوئے ہیں ، ہم ان کے بیٹے کو بھی فاطمہ تو چھوڑیں، حسن کو بھی چیز دلانے لے جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ اسکول دادا لے کر جاتے ہیں اور پاپا واپس لے کر آتے ہیں ، ہمیں کسی وین ڈرائیور پر اعتبار نہیں ، کسی دکاندار پر، کسی محلے والے پر، کسی رشتہ دار پر کوئی اعتبار نہیں ۔ 

ہم کیسی دنیا اپنے بچوں کے لیے چھوڑ کر جائیں گے۔