پرانے لاہور میں ایک نوجوان ایک لڑکی کو پسند کرتا تھا، کبھی کبھی کسی گلی کوچے ، چھت یا چھجے پر ملاقات بھی ہوجاتی تھی۔ پھر قسمت اور رزق اس نوجوان کو یورپ لے گئی، خوب دولت کمائی وہیں شادی اور بچے ہوگئے۔ پیچھے لڑکی کی بھی شادی ہوگئی۔
برسوں بعد اپنے بچوں کے ساتھ واپس لاہور آگیا کیونکہ بچیاں جوان ہورہی تھیں۔ پرانے محلے میں واپس جاکر اس نے اپنی پرانی محبت پھر سے یاد کرنے کی کوشش کی ، ہر گلی کونے دیوار کو چھو کر دیکھا۔ لیکن وہ یہ دیکھ کر دکھ میں مبتلا ہوگیا کہ جن چھتوں اور چھجوں پر وہ ملا کرتے تھے انہیں توڑ کر نیا بنا دیا گیا ہے، وہ اب اسکی مرحوم محبت کی یاد گار نہیں رہے۔ پرائے پرائے سے ہیں۔
کچھ عرصے بعد اس نے ان مکانوں کو خرید کر پھر سے پرانی شکل میں لانا چاہا۔ توڑ پھوڑ شروع ہوئی۔ ایک دن شام کو کام کی پروگریس دیکھنے گیا۔ تو ہلکے اندھیرے میں ایک سایہ سا مکان سے نکل کر بھاگا۔ اس نے پکڑ لیا تو دیکھا کہ ایک نوجوان ہے جو روتا ہوا بھاگ رہا تھا۔ اس سے حالات معلوم کیے تو پتا لگا کہ اس مکان میں جو خاندان رہتا تھا اور جو اب وہاں سے کوچ کر گیا ہے، ان کی کسی لڑکی کو وہ پسند کرتا تھا اور اب وہاں وہ ان ٹوٹے ہوئے کونوں کھدروں میں اپنی محبت کی یادگاروں کے ساتھ اسے یاد کر رہا تھا کہ پکڑا گیا۔
وہ بندہ جس نے مکان خرید کر اسےپھر سے پرانی شکل دینی چاہی تھی اس نے وہیں کام روک دیا کہ یہ نیا اسڑکچر اب کسی اور کی محبت کی یاد گار ہے۔ اور اسے کوئی حق نہیں کہ وہ کسی اور سے وہی خوشی چھین لے جو خود اس سے چھن گئی ہے۔
ہماری بھابھی امی کے انتقال کے بعد گھر اور کچن سنبھال رہی ہے، اچھے خاصے مزےدار اور مشکل مشکل کھانے بنانے لگی ہے۔ کچھ کھانے تھے جو صرف امی کی اسپیشلٹی تھے۔ پائے، کڑھی، کوفتے، قورمہ اور عید کی سویاں۔ اب یہ سب بھابھی بناتی ہےاور بہت مزے دار بناتی ہے۔
امی کے ہوتے ہم نے تو کبھی کچن میں جھانکنے کی زحمت ہی نہیں کی تھی۔ عید پر سویاں پک جانے کے بعد اٹھتے تھے، سیکھنے کا کبھی خیال ہی نہیں آیا۔ امی تھیں ناں یوم حشر تک سویاں پکانے کے لیے۔ لیکن یوم حشر غیر متوقع طور پر جلدی آگیا۔
امی کے بعد پہلی عید پر بھابھی نے پہلی بار سویاں بنانے کی ٹرائی کی۔ کچھ زیادہ ہوگیا۔ نیکسٹ ٹائم کچھ کم ہوگیا، اگلی بار کچھ دم زیادہ لگ گیا،پھر سویاں زیادہ بھونی گئیں۔ سارے تجربات سے گزر کر اب کچھ کچھ شکل ویسی ہونے لگی ہے، خوشبو اور ذائقہ بھی، لیکن ۔ ۔ ۔
یہی کوفتوں کے ساتھ ہوا۔ امی ہر سال پہلی سحری کے لیے کوفتے بناتی تھیں۔ امی کے بعد دوسال تک کوفتے سرے سے پکے ہی نہیں ۔ پھر اس سال بھابھی نے ہی ہمت کی اور پہلی سحری کے لیے کوفتے بنائے اوراب تو وہ کوفتہ ایکسپرٹ ہوگئی ہے۔
اس کے بنائے کھانے ہم بلا کسی اعتراض کے کھا لیتے ہیں کیونکہ وہ پکے ہی اچھے ہوتے ہیں۔ لیکن زبان جن ذائقوں کی بچپن سے عادی ہوتی ہے، وہ ہر کھانے میں وہی ذائقہ ڈھونڈتی ہے۔ پھر ہم یہ سوچ کر خود کو تسلی دے لیتے ہیں کہ ہر ایک کی زندگی میں "امی کے ہاتھ" کے ذائقہ کا ایک دور ہوتا ہے۔ جتنا نصیب میں تھا وہ انجوائے کر لیا اور وہ دوبارہ نہیں مل سکتا۔ اب یہ "کسی اور "کی امی کے ہاتھ کا ذائقہ ڈیولپ ہورہا ہے۔ اب فاطمہ اور حسن کی باری ہے کہ وہ اپنی "امی کے ہاتھ" کا ذائقہ انجوائے کریں۔
پی ایس : تو اگر آپ کی امی حیات ہیں اور امی کے ہاتھ کا ذائقہ آپ کو میسر ہے تو اس کی قدر کریں۔ہر کھانے پر نکتہ چینی نہ کریں۔ اور اگر یہ پوسٹ پڑھ کرآپ کو اپنی امی پر بہت پیار آئے تو انہیں ڈائرکٹ جا کر "امی آئی لو یو" ہر گز نہ بول دیں۔ ورنہ آپ کے ساتھ وہی ہونا جو ان بیویوں کے ساتھ ہوا تھا جنہوں نے تجرباتی طور پر اپنے اپنے شوہروں کو "آئی لو یو" کے ایس ایم ایس کئے تھے۔ امی نے بھی یہی کہنا ہے پھر "پتر تیری طبعیت تو ٹھیک ہے"۔
اپنے روئیے بدلیں۔ آج اگر امی کے ہاتھ کی پکی بھنڈیاں بھی مل جائیں تو ہم وہ بھی کھالیں۔