سورج ایک اورنج طشتری کی صورت میں پہاڑیوں کے پیچھے ڈوبنے والا تھا۔ غروب کی سمت بادلوں کی کئی پرتیں ایک دوسرے کے آگے پیچھے ، اوپر نیچے اس طرح ترتیب میں تھیں جیسے پہاڑوں کے کئی خوابناک سے سلسلے ایک دوسرے کے آگے پیچھے دور تک چلے گئے ہوں۔ ڈوبتے سورج میں بادل ایسا ہی تاثر دے رہے تھے۔ ان پہاڑی سلسلوں کے درمیان کبھی سورج پورا غائب ہوجاتا کبھی ایک کرن کی صورت دوبارہ طلوع ہوجاتا ۔کبھی آدھا بادل کے پیچھے چھپ جاتا اور آدھا باہر نکل آتا۔
اس کے بالکل سامنے کبوتروں کی ایک ٹکری بار بار سلامی دیتے ہوئے گزرتی جاتی۔ شفق پر سرمئی سے لے کر اورنج تک مختلف رنگوں کے شیڈ ایک دوسرے میں اس طرح مدغم تھے کہ پتا ہی نہ چلتا تھا کہ کہاں ایک رنگ ختم ہوتا ہے اور دوسرا شروع ہورہا ہے۔ "نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں "خیر خرابے جو خرابوں سے ملیں تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ کون پہلے سے زیادہ خراب تھا اور کون کس کی وجہ سے اب زیادہ خراب ہوگیا ہے۔
دوسری جانب کے بادل ڈوبتے سورج کی روشنی میں سنہرے گلابی ہورہے تھے جبکہ عین درمیان میں ایک بڑا بادل ایک مست ہاتھی کی طرح جھومتا تھا۔ ان بادلوں سے نیچے چیلیں مختلف گروپس میں کہکشاوں کی صورت گھومتی تھیں اور ہر کہکشاں ایک نظام شمسی کی طرح اپنے مرکز پر گول گول گھومتی ہوئی اپنی جگہ تبدیل کرتی جاتی تھی جیسے کسی نادیدہ سورج کے گرد گردش میں ہو ۔ ایک پورا گروپ مرغولے کی صورت گھومتا ہوا دھیرے دھیرے ہوا کے رخ پر بائیں جانب منتقل ہوتا جاتا تھا پھر ان میں سے کچھ کو خیال آتا کہ" یہ کہاں آگئے ہم یونہی ساتھ چلتے چلتے" تو وہ گروپ سے نکل کر آسمان میں بکھر جاتیں اور پھر کسی اور کہکشاں سے بچھڑی ہوئی چیلوں سے مل کر ایک نئی کہکشاں ترتیب دے لیتیں۔ درمیان میں کوے بے چینی و بے تابی سے دائیں سے بائیں سے ادھر ڈائیرکٹ ڈائیوز لگاتے تیزی سے گزر جاتے۔
مست ہاتھی نما بادل کے عین نیچے پڑوسیوں کے گھر میں لگے کھجور اور بکین (نیم کی بانجھ بہن) کی بالائی منزلوں کی جھومتی ہوئی شاخیں اورخوشی سے رقصاں پتے ہمارے لوکل کوہ طور کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ کسی زمانے میں جب ہمارا مکان زمین پر ہی تشریف فرما ہوتا تھا، مغرب سے گھروں کو واپس آنے والے چڑیائیں لمبی اڑان سے تھک کر اس بکین اور اسکے ساتھ لگے بیری کے پیڑ پر سانس لینے کو رکتیں اور جاتے ہوئے سورج کو الوداع کہنے کے لیے انکی شاخوں کے بالکل سروں پر بیٹھ کر خوب چہچہاتیں، یا شاید کچہری کرتیں۔ کبھی کوئی چیل یا کوا اچانک قریب سے گزرتا تو بھرا مار کر اڑ جاتیں یا اندرونی شاخوں پر منتقل ہوجاتیں۔ اور کووں کے گزر جانے کے بعدپھر سے باہر نکل آتیں۔ کبھی کبھی ایک دو طوطے بھی ان کا ساتھ دینے کو آبیٹھتے۔ چڑیوں کے ساتھ ساتھ دو عدد گلہریاں بھی آواز میں آواز ملاتی جاتیں اور ہمارا پالتو بلا گھر کے آنگن سے ان چڑیوں اور گلہریوں پر رال ٹپکاتا رہتا۔
اس وقت کراچی کا موسم اپنی روایتی شام کی خوبصورتی اور خوشگواری کی حدوں کو چھو رہا تھا ۔ گھر کی تیسری منزل پر ہوا کے تھپیڑے اور جاتے سورج کی سنہری سے نارنجی ہوتی دھوپ، "اور تم اللہ کی کون کون سی نعمت کو ٹھکراو گے۔"
گزرے زمانوں سے واپس آنے کے دوران سورج ہائی ٹینشن لائن کے تاروں سے گزرکر پہاڑی کے بالکل ہی کنارے پر آن ٹکا تھا اورلمحہ بہ لمحہ جیسے قطرہ قطرہ پگھل کر نیچے گرنا شروع ہوگیا تھا۔ شفق کا رنگ نارنجی سے ارغوانی گلابی ہوچلا تھا۔ پہاڑی سلسلے نما بادلوں کے درمیان ایک بالکل سفید لکیر نما بادل کی پٹی کا اضافہ ہوچکا تھا جیسے اچانک کوئی موڑ مڑتے ہی کہیں سے برف پوش پہاڑی سلسلہ نظر آجائے، "جیسے بیمار کو بے وجہہ قرار آجائے"
سامنے جھومتا ہاتھی اب شکل بدل کر ایک کچھوے کی شکل اختیار کرگیا تھا شاید کچھوا یا شاید ایک شرارتی مینڈک جو چھلانگ لگانے کو بالکل تیار تھا ۔ "مشاہدیں کرام" حیران کہ اتنی تیز ہواکے باوجود یہ بادل اپنی جگہ پر برقرار کیوں ہے۔ یہ اب تک آگے کیوں نہیں آیا جبکہ ہوا خاصی تیز تھی۔ لیکن یہ حیرت کافی دیر بعد رفع ہوگئی جب وہی بادل تین مختلف بدلیوں میں بدل کر ہوا کے سنگ چل دیا۔
اب سورج کہیں اور طلوع ہوچکا تھا، چڑیاں درخت سے کوچ کر چکی تھی اکا دکا ابھی بھی بولتی تھی، شاید یہیں کی رہائشی تھی۔ اور اپنی ساتھیوں کو رخصت کر رہی تھی۔ افق پر اب ایک ہی مرغولہ تھا جس میں چیلیں سستی سے تیر رہی تھیں۔ کوے کہیں سے لفٹ نہ ملنے کے باعث رخصت ہوچکے تھے۔ شفق کا رنگ گہرا ارغوانی ہوچلا تھا جبکہ بادل گہرے سرمئی، لیکن سفید برف پوش پہاڑوں کا سلسلہ ابھی تک سفید پوش ہی تھا۔ سامنے والے بادل اب تیز گلابی و سرمئی کا امتزاج پیش کر رہے تھے۔
اور ایک تارہ آسمان پر جھلملانا شروع ہوگیا تھا جب ہم نے بھی چھت سے غروب ہوکر کمرے میں طلوع ہونے کا ارادہ کیا۔
😍😍🌄⛅🌞🌙🌟😍😍
پی ایس: یہ دو دن پرانی شام کی 'منظر نگاری' ہے جو آج شام کی 'منظرکشی' کے ساتھ پیش کی گئی ہے، تصویر بس ایویں ہی شامل کردی گئی ہے ورنہ دنیا میں کوئی کیمرہ ایسا نہیں جو کسی اور کو وہی منظر دکھا سکے جو آپ کی آنکھ نے دیکھا ہو۔
'ایک رات' کی منظر کشی