Sunday, April 23, 2017

ہاتھ اور شرٹ

دفتر کے راستے میں میری گاڑی کے برابر سے ایک موٹر سائکل گزری جس پر ایک جوڑا براجمان تھا۔ ایک پل کے لیے میری نظر ادھر گئی۔ خاتون کا دایاں ہاتھ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے صاحب کے زانو پر پشت کے بل ایسے دھرا تھا جیسے ان کے ہاتھ سے صاحب کی قمیص بے دھیانی میں  نکل گئی ہو۔ بس ایک لمحے میں یہ منظر آنکھ سے اوجھل ہوگیا لیکن وہ ہاتھ آج بھی میرے دھیان میں ویسے ہی وہیں دھرا ہے۔ 


مجھے نہیں معلوم کہ وہ ایک کپل تھا یا بہن بھائی کیونکہ ان کے چہرے پر میرا دھیان ہی نہیں گیا۔ لیکن اس ہاتھ کے انداز سے لگتا تھا کہ وہ ایک کپل ہی ہوگا۔ جب وہ گھر سے چلے ہونگے تو بیگم نے صاحب کی قمیص سہارے کے لیے تھام لی ہوگی لیکن کچھ دور جا کر ہی بے دھیانی میں قمیص ہاتھ سے چھوٹ گئی اور ہاتھ وہیں دھرا رہا ، اس یقین کے ساتھ کہ جب سہارے کی ضرورت پڑے گی دوبارہ قمیص تھام لےگا۔

اس ایک ہاتھ میں کیا کیا نہ تھا۔ بے فکری ، اعتماد، یقین ، اعتبار۔ ہاتھ والی کو شرٹ والے پر یقین تھا کہ وہ اسے کہیں گرنے نہیں دےگا ، اعتماد و اعتبار تھا کہ اگر کچھ ہوا تو وہ سہارا دینے اور مدد کرنے کے لیے موجود ہے اور اسی اعتماد و اعتبار کی بناء پر وہ ہاتھ بے فکرتھا کہ کوئی ہے ناں ۔

دنیا کے ہر رشتے میں یہی اعتماد و اعتبار ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتاہے، خواہ رشتہ خون کا ہو، قانون کا ہو یا باہمی انڈرسٹینڈنگ یعنی پڑوس، دفتری ساتھی یا دوستی کا۔یہی اعتماد اور اعتبار ہے جو یقین دیتا ہے کہ یہ موجود ہیں، یہی اعتبار و اعتماد ہے جو توقعات باندھتا ہے کہ یہ مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہونگے، ہمیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ جیسے بچے کو ماں کی موجودگی سے یہ یقین رہتا ہے کہ وہ محفوظ ہے، اور اسکی ہر ضرورت پوری ہوگی۔ اسے سارے زمانے میں صرف ماں پر اعتبار ہوتا ہے کہ اسکے ہوتے اسکی دنیاپرفیکٹ ہے، وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اگر آپ نے پہلی بار ماں کے ہاتھوں تھپڑ کھائے ہوئے بچے کا چہرہ، خاص کر آنکھیں دیکھی ہوں تو آپکو بخوبی سمجھ آجائے گا کہ اعتبار کیسے ٹوٹتا ہے۔ 

اجنبیوں سے بھی کسی نہ کسی سطح پر اعتبار کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ کہ کوئی دوسرا فرد ہمیں نقصان نہیں پہنچائے گا ہماری ملکیت میں مداخلت نہیں کرےگا، ہماری کسی شے پر اپنا حق نہیں جتائےگا، کسی ناگہانی کی صورت ہماری مدد کرے گا۔ ساری دنیا میں ، ہر معاشرے میں ہر فرد دوسرے فرد سے یہی توقعات رکھتا ہے۔یہ اعتبار دوطرفہ ہوتا ہے کہ آپ بھی دوسرے کے ساتھ یہی رویہ اختیار کریں گے۔

یہی اعتماد اور اعتبار جب ریاست، حکومت، معاشرے اور فرد کے درمیان ہو تو اسے سماجی یا عمرانی معاہدے کا نام دیا جاتا ہے۔ یہی اعتبار ان 33 افراد کا یقین بن جاتا ہے جو چلی کی کوئلے کی کان میں مہینہ بھر پھنسے رہے تھے لیکن انہیں یقین تھا کہ کوئی ہے جو انہیں تنہا نہیں چھوڑے گا اور اس نے چھوڑا بھی نہیں ۔ یہی اعتبار تھا جس نے ترکی میں مارشل لاء کا تختہ ایک ہی رات میں الٹ دیا تھا۔ 

یہی اعتبار اور اعتماد ہے جو ہمارے معاشرے میں ندارد ہے، جس کا نتیجہ کرپشن ، جرائم کی صورت نظر آتا ہے۔ غیر یقینی صورت حال میں جب فرد کو نہ ریاست پر اعتبار ہو، نہ حکومت پر نہ معاشرے کے دوسرے ارکان پر کہ وہ اسے اس کے جائز حقوق مہیا کر پائیں گے یا نہیں ، جب اسے یہ یقین ہو کہ اسے اپنے اوراپنے بچوں کے مستقبل کا انتظام خود ہی کرنا ہے، ایک وقت کے کھانے کے بعد دوسرے وقت کا کھانا پتا نہیں ملے گا بھی یا نہیں ، بچے کو اسکی محنت کے مطابق نمبر ملیں گے یا نہیں، تعلیمی قابلیت کے مطابق یا غیر مطابق ہی سہی نوکری ملے گی یا نہیں ، یا تعلقات اور پیسے کے بل پر اسکے حصے کی ملازمت کسی اور کو دے دی جائے گی۔

 جب فرد یہ دیکھتا ہے کہ معاشرے میں عزت صرف پیسے اور طاقت والے کے پاس ہے، علم ، عقل اور دلیل والے کے پاس نہیں، تو وہ بھی ہر جائز و ناجائز ذریعے سے طاقت اور پیسہ حاصل کرنے کی دھن میں لگ جاتاہے جب اسے عدالت سے انصاف کی توقع نہیں رہتی تو وہ اپنا انصاف خود لے لیتا ہے، وہ ان سب کا انتظام خود کرنے کی کوشش کرتا ہے ، جس کا انتظام ریاست و معاشرے کو یقینی بنانا چاہیے اور اس کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرتاہے۔ جو آج ہم اپنے معاشرے میں ، اپنے وطن میں دیکھ رہے ہیں۔ انتشار، انتشار اور بس انتشار۔ 

 ہاتھ کو اعتبار نہیں رہا کہ ضرورت کے وقت وہ شرٹ تھام کر سہارہ لے سکتا ہے۔ اور وہ اسے لیٹ ڈاون نہیں کرے گا۔