Tuesday, April 18, 2017

ترقی ءِ معکوس

انسانوں کی طرح شہروں اور مکانات کی بھی نسلیں ہوتی ہیں ۔ ضمیر جعفری

موجودہ مکان ہمارے گھر کی پانچویں پشت ہے۔ جو پچھلی پانچ دہائیوں میں ارتقاء کی منزلیں طے کرتے کرتے ایک چٹائی کی جھونپڑی سے تین منزلہ مکان میں تبدیل ہوگیا ہے ۔

پہلی پشت میں گھر ایک جھونپڑی اور ایک بڑے سارے مشترکہ صحن پر مشتمل تھا۔ جس کا آنگن سارے محلے کا مشترکہ صحن تھا ساری خواتین گھر کے مختلف کام نپٹاتے ہوئے ایک دوسرے سے گپیں بھی لگاتی جاتی تھیں اور سب کے بچے بھی اسی "آنگن" میں ایک دوسرے کی نظروں کے سامنے اچھلتے کودتے، گرتے پڑتے ، چوٹیں کھاتے اور روتے گاتے رہتے۔ سردیوں میں جھونپڑی کے اندر اور گرمی میں جھونپڑیوں کے باہر بستر ڈال کر رات بسر کی جاتی۔

امی کے سب بچے ان کے ساتھ، انکے ارد گرداور نظروں کے سامنے ہوتے۔

پھر کچھ "ترقی" ہوئی اور اس آنگن میں دیواریں کھینچ کر مزید آنگن تخلیق کر لیے گئے، لیکن دیواریں بس اتنی تھیں کہ ابھی بھی ایک گھر سے دوسرے گھر میں آوازیں، کھانے کی خوشبو ، لڑائی جھگڑے ، مہمان اور عیدکی شاپنگ باآسانی نظر آجایا کرتی ۔ اب گھر میں ایک پکا کمرہ اور ایک بڑا سا کھلا آنگن، جس میں دھوپ، ہوا، دھول ، مٹی اور بارش یکساں مقدار و رفتار سے آمدو رفت رکھتے۔

اکلوتا کمرا جو بیک وقت بیڈ روم، ڈائنگ روم، ڈرائنگ روم، گیسٹ روم اور ہر وہ روم ہوتا تھا جو وہ بے چارہ ہوسکتا تھا۔ ٹی وی آنے کے بعد وہی کامن روم کی ذمہ داریاں بھی پوری کرنے لگا۔ یہی کمرا پورے خاندان کا سرمائی صدر مقام ہوتا تھا یعنی سردیوں کا سلیپنگ روم۔ جبکہ سال کے زیادہ تر مہینے آنگن گرمائی صدر مقام کے فرائض انجام دیتا۔

صحن میں بیری، شہتوت، امرود ، پپیتا اور مالٹے کے درختوں کے علاوہ ایک کیاری میں موتیا کی بیل اوربے شمار گملوں میں موسمی پھول مسکرارہے ہوتے۔ بارشوں کے بعد یہیں ہم چارپائیوں کی کان نکالنے کے بہانے جھولے لیتے اور کان نکلنے کے بعدان ہی پر لیٹے چٹے سفید بادلوں میں بنتی بگڑتی ہوئی مختلف اشکال میں جانوروں کی شبیہہ تلاش کیا کرتے۔

دادا نے افراد خانہ کی تعداد سے زیادہ چارپائیوں اور مچھر دانیوں کا انتظام کر رکھا تھا۔ ہر سال چھٹیوں میں دادا کراچی آتے تو ان کے ساتھ ایک دو چارپائیوں کا سامان بندھا ہوتا ،سیری، بّلم اور پائے، جنہیں جوڑ کر چارپائی کی شکل دی جاتی اور پھر کجھور کا بان منگوا کر چارپائیاں بنی جاتیں۔ اب نہ چارپائیاں رہیں نہ بان لیکن چارپائی بننے کا ہنر آج بھی مجھے آتا ہے ۔

شدید گرمی اور لو والی رتوں میں شام ہوتے ہی صحن میں پانی کا چھڑکاو کیا جاتا اور چارپائیاں صحن میں ڈال دی جاتیں ، رات کو آنگن میں بچھی چارپائیوں پر لیٹ کر ستاروں سے آنکھ مچولی کھیلتے، اور بیری کے پتوں سے چھن چھن کر آتی چاندنی میں چاند اور بدلیوں کی آنکھ مچولی سے لطف اندوز ہوتے نیند کی وادیوں میں اتر جاتے ۔ 

امی سب کے درمیان بہت مطمئین اور خوش رہتی تھیں۔

مزید ترقی ہوئی ، گھر ایک کمرے سے بڑھ کر تین کمروں میں اور آنگن کچے سے پکے میں تبدیل ہوگیا۔ اب گھر میں ایک ٹی وی بھی آگیا تھا ۔ بڑا کمرہ ہم بہنوں کے تسلط میں تھا ،تیسرا کمرہ بننے سے پہلے بھائی بھی ہمارا روم میٹ ہوتا تھا۔ ٹی وی بھی وہیں ہوتا تھا، وہی ہمارا کامن روم ہوتا تھا، خاندان بھر کی سرگرمیوں کا مرکز وہی کمرہ تھا، سردیوں میں ہم بہنیں وہیں سوتے ،امی بھی ہمارے ساتھ ہی بستر لگا لیتیں، بھائی اور ابو بھی دیر تک وہیں ہوتے، کھانا وہیں کھایا جاتا، مونگ پھلیوں کا پیریڈ بھی وہیں لگتا، ٹی وی پر ایک ہی چینل ہوتا تھا اور ایک وقت میں ایک ہی پروگرام سب دیکھتے، لطف اندوز ہوتے اور تبصرہ کرتے جاتے ۔ 

گرمیوں میں وہی آنگن ہماری ساری سرگرمیوں کا مرکز ہوتا، امی کا سارا خاندان امی کے ارد گرد ہوتا۔ گھر کی دیواریں اب بھی اتنی اونچی نہ ہوئی تھیں کہ پڑوس کی خبر نہ ہوتی۔ امی کی زندگی مزے سے گزر رہی تھی۔

ترقی کرتے کرتے گھر تین منزلہ پکے مکان میں تبدیل ہوگیا، آنگن ختم ہو کر کامن روم میں تبدیل ہوگیا، ہر ایک کو ایک کمرہ الاٹ ہوگیا، ابو کو بند جگہوں سے الرجی ہوتی ہے، انہوں نے ٹاپ فلور پر سب سے بڑا اور ہوادار کمرا اپنے لیے منتخب کیا، فرسٹ فلور پر ہم بہن بھائیوں نے کمرے لے لیے ، سب سے نیچے گراونڈ فلور پر کچن، ڈرائینگ روم، اسٹور کے بعد صرف ایک کمرا بچا تھا یا پھر صحن جس کا نام اب کامن روم ہوگیا تھا۔ امی نے گراونڈ فلور یعنی "اپنا گھر" چھوڑنے سے انکار کردیا، ابو نے لاکھ کہا کہ اوپر میرے کمرے میں منتقل ہوجاو لیکن ان کا کہنا تھا کہ میرا گھر یہی تھا، یہی ہے اور یہی رہے گا۔ دن بھر ہم سارے گراونڈ فلور پر رہتے لیکن رات کا کھانا کھا کر ٹی وی دیکھ کر سب اپنے اپنے کمرے کو سدھارتے ۔ امی پورے گھر میں اکیلی رہ جاتیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کو اپنا کمرہ پیارا ہوگیا تھا۔اپنے کمرے میں ٹائم گزارنا اچھا لگنے لگا، نیا نیا اپنا کمرہ ملا تھا سب کو ۔ اب دوپہر کے کھانے کے بعد بھی سب کو اپنے کمرے کی ضرورت پڑنے لگی، ٹی وی بھی ایک سے زائد ہوگئے تھے، اب نیچے ٹی وی پر لگا پروگرام دیکھنےکے بجائے کسی سوپ کی قسط دیکھنا زیادہ اہم ہونے لگا۔ اب دیواریں بھی چھت سے مل گئی تھی اور دیوار پر سے جھانک کر پڑوسن سے حال چال اور تبادلہ خیال کی گنجائش بھی نہیں رہی تھی۔

ہم میں سے کسی کو خیال ہی نہیں آیا کہ اس ساری ترقی نے امی کو کتنا اکیلا کر دیا تھا۔ وہ جو زندگی بھرہم سب کو اپنے ارد گرد محسوس کرتی آئی تھیں ، رات کو پورے فلور پر اکیلے سونا انہیں کیسا لگتا ہوگا ، تنہائی کا احساس کیسا ہوتا ہوگا۔ انہوں نے ڈھائی تین سال اس تنہائی میں گزار دئیے اور پھر فیصلہ کرلیا کہ تنہا ہی رہنا ہے تو یہاں کیوں رہوں۔

امی کے سوئم تک" امی کا گھر" لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ سوئم والی رات سب کے جانے کے بعد مجھے آکورڈ لگا کہ "امی کا گھر" بالکل ہی سونا ہوجائے، سب اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے، اور میں نے نیچے وہیں بستر لگا لیا جہاں امی کی بیماری کے دوران سوتی تھی۔ 

اور وہ رات قیامت کی رات تھی۔ اکیلا ہونا کیا ہوتا، تنہائی کسے کہتے ہیں اس رات سمجھ آیا۔