ڈے تھری: جھولہ ٹو پائیو
(صبح ساڑھے پانچ بجے سے سہ پہر تین بجے )
بالتورو گلیشیر سے نکلنے والا دریا گائیڈ کے مطابق دریائے سندھ ہے لیکن مقامی نام شیوک ہے۔ لیکن نام سے کیا ہوتا ہے۔ سندھ ہو یا شیوک اگر آپ اس میں ڈبکی کھا گئے تو اس نے آپ کو کھا جانا ہے۔ جھولا سے ناشتہ کر کے ہم نے دریا کا کنارہ پکڑ لیا۔ ٹریک دریا کے کنارے کنارے کبھی اوپر کبھی نیچے۔ کبھی لب دریا، کبھی پرے دریا۔کبھی دریا کے بیڈ میں، کبھی پہاڑ کے اوپر، کبھی جھاڑیوں میں۔
فرخ نالہ پار کرتے ہوئے |
کل فرخ کا کہنا تھا کہ آپا ہم ناں پہلے ہی گھوڑے ہوئے وے ہیں دیوسائی پر رات گزارنے اور احسن عبدل پیک پر ٹریک کی وجہ سے۔ لیکن آج تو فرخ خچر ہوگیا۔ مجھے چھوڑ کے یہ جا وہ جا۔ لیکن دور جا کر بھی پلٹ کر دیکھ لیتا تھا کہ آپا آرہی ہیں کہ نہیں اگر نہیں تو وہی رک جاتا جب تک کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی رینج میں آجاتے۔ کل اس نے میری وجہ سے سلو ٹریک کیا کچھ وزن بھی زیادہ اٹھا لیا تھا۔ آج وزن بھی کم تھا اس لیے بھی آگے نکل گیا۔
آج کے ٹریک نے ہمیں صحیح سے کتا کیا تھا۔ شدید گرمی، شدید ریتیلا ٹریک جو چھوٹے فٹ بال کے سائز اور ڈیزائن کے پتھروں سے اٹا پڑا تھا۔ یہ غالباً سیلابی دریا کا بیڈ ہی تھا جو آج کل خالی تھا۔ اس پر اوپر سے تیز آگ برساتا سورج۔ فرخ کہیں آگے جاچکا تھا، علی بھائی بھی ہماری رفتار سے اکتا کر آگے جاچکے تھے ہم سامنے دور نظر آنے والے نقطوں کو دھیان میں رکھے سرجھکائے چلے جارہے تھے لیکن ٹریک نے ختم نہ ہونے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ تنگ آکے ہم نے اپنے موبائل پر نورجہاں کے انرجی بوسٹرز یعنی پنجابی گانے لگا لیے کہ کچھ تو دھیان بٹے۔ گانوں کی آواز سن کر علی بھائی بھی ارد گرد نظر آنے لگے۔
کل پیر میں ایک چھالا بن گیا تھا۔ آج صبح پہلے تو اس نے شور مچانے کی کوشش کی لیکن جب آپ کے پاس کوئی آپشن ہی نہ ہو تو چھالوں کو لفٹ کروانے کا فائدہ۔ لہذہ شور مچا مچا کر خود ہی چپ ہوگیا۔ لیکن آج دو مزید چھالے بن گئے۔ اللہ بھلا کرے سوئس بانکے کا کہ اس نے مجھے چھالوں پر لگانے کے لیے پٹی دی۔ لیکن چھالوں میں درد بڑا ہے۔آج ایک نالہ بھی کراس کیا جس پر تین عدد تنے بطور پل تعینات تھے۔ شکر ، ، ، ورنہ تو پانی میں سے کراس کرنا پڑتا۔ لیکن سنا ہے کل ایک کراس کرنا پڑے گا۔
دس از دی ٹریک، اگر آپ کو اس میں دو پورٹر نظر آرہے ہوں تو ٹریک پر بندے کی اوقات کا اندازہ کرلیں |
ٹریک بدتمیز نے دو تین مقامات پر تو ہمیں دریا میں ڈبونے کی پوری کوشش کی جسے گائیڈ علی بھائی نے ہاتھ تھام کر ناکام بنا دیا۔ آج کئی بار میرا سانس پھولا۔ شاید اس لیے کہ آج میرے ساتھ فرخ نہیں تھا۔ اگر کوئی میرے ساتھ چل رہا ہو تو باتیں کرتے کرتے مجھے اپنی رفتار کا اندازہ نہیں ہوتا ہی سانس پھولتا ہے۔ لیکن آگے جاتے فرخ کو دیکھ کر خواہ مخواہ ہی سانس پھولنا شروع ہوجاتی ہے۔ لیکن میں نے کسی سے بھی ریس لگانے کی کوشش نہیں کی۔ کیونکہ پہلے یا بعد میں پہنچنا اہم نہیں ہے۔ اہم ہے پہنچ جانا اور وہ میں پہنچ ہی گئی تھی۔ دوسروں سے دوتین گھنٹے بعد ہی سہی، پر پہنچی تو۔
آج آخر میں فرخ کی طبعیت بھی خراب ہوگئی اور وہ سامان میری نگرانی میں چھوڑ کر کیمپ سائیٹ چلا گیا۔ اور میں بیٹھی کسی پورٹر کا انتظار کر رہی ہوں کہ وہ آئے اور فرخ کا سامان اٹھائے تو میں بھی آگے چلوں۔ ۔ ۔
🗻 🗻 🗻
پہلا حصہ فرخ نامہ
دوسرا حصہ آلموسٹ سولو
تیسرا حصہ ابھی لکھا نہیں
چوتھا حصہ اشکولے کیمپ سائیٹ
پانچواں حصہ ندارد
چھٹہ حصہ جھولہ کیمپ سائیٹ