Wednesday, June 12, 2019

K-2 | Coz THEY are There - II

Almost Solo

تقریباً سولو ٹریکر یعنی بولے تو گروپ میں اکلوتی ہیروئین

"فرخ ٹرپ میں کوئی اور خاتون ہے؟ میں آل بوائز کمپنی میں نہیں جاتی کم از کم ایک خاتون اور ہونی چاہیے"

"جی دو خواتین ہیں۔ ایک میاں بیوی ہیں اور ایک خاتون اور ہیں "

اور ہم بے فکری سے تیاری میں مگن ہوگئے ۔ پر اللہ میاں جانے کیا سوچ کے بیٹھے تھے وہ جوڑا تو کہیں اور چلا گیا اور خاتون ٹرپ سے دو دن پہلے حسب عادت مکر گئیں۔ فرخ نے مجھے بتایا ہماری تو سانس اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔ ہم فرخ کو عین وقت پر انکار نہیں کرسکتے تھے اور آل بوائز کمپنی کے ساتھ جانا 😈۔ اور اللہ میاں " ہن پتا چلا "


"خیر،،، فرخ ہے ناں"ہم نے دل کو تسلی دی۔ اور چل پڑے۔ لیکن ٹرپ کی اکلوتی ہیروئن ہونے کے الگ ہی مزے ہیں۔ ہمیشہ ٹرپ کے دوران ٹیم ممبرز کے سب سے آگے یا سب سے اچھی سیٹ/ کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھنے پر ایک دوسرے سے منہ بنتے ہیں۔ اس بار بطور اکلوتی خاتون ہر گاڑی کی فرنٹ سیٹ ہمارے نام لکھی گئی۔ہم آگے اور تینوں حضرات پیچھے۔ مزے سے سارے نظارے دیکھتے تصویریں بناتے، موجیں کرتے گئے۔ دیوسائی میں جب اندھیرا ہوگیا تو ازراہ مہربانی ڈنر کے بعد فرنٹ سیٹ فرنگی کو دے دی۔ فرخ نے البتہ فرنٹ سیٹ کا خراج وصول کیا ہر جگہ اپنا موبائل ہمیں پکڑا دیتا کہ ویڈیو ہی بنا دیں۔

دیوسائی میں ہمیں بڑا خیمہ ملا، تنِ تنہا۔ جس میں ہم خوب پھیل کر سوئےجتنا سلیپنگ بیگ میں اور اس ہڈیوں کو جما دینے والی سردی میں پھیلا جاسکتا تھا۔ باقی جگہ میں اپنا سامان پھیلا لیا۔ کےٹو ٹریک اسٹارٹ ہوا تو ہمارا خیال تھا ہمیں وہی خیمہ ملے گا لیکن ہمارے حصے میں چھوٹا خیمہ آیا۔ "فرخ خ خ خ خ ۔۔ ہم اتنے چھوٹے خیمے میں نہیں رہ سکتے، ہم نے ہمیشہ بڑے بڑے خیموں میں زندگی گزاری ہے۔ جس میں ہم پورے قد سے کھڑے ہوسکیں۔ اس میں تو بندہ سیدھا بھی نہیں ہوسکتا "

فرخ بعض موقعوں پر بالکل اجنبی بن جاتا ہے اور اس موقعے پر اس نے یہی کیا۔ خیر گوکہ خیمہ قد میں چھوٹا تھا لیکن ہماری ضروریات کے لیے کافی تھا۔ باقی کمی ہم کچن ٹینٹ سے پوری کرلیتے تھے۔ اپنے ٹینٹ سے جو منہ اندھیرے نکلتے تو رات گئے ہی داخل ہوتے۔ ٹریکنگ اور فرخ کی ڈرون فلائیٹس کے بعد باقی کا وقت کچن ٹینٹ میں گزارتے۔ فرخ کچن ٹینٹ میں رہائش پذیر تھا تو اس کے سلیپنگ بیگ پر قبضہ جما لیتے، اس کے سامان سے ٹیک لگا لیتے۔ فرخ شور مچاتا رہتا کچن خالی کرو ہم ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑاتے رہتے۔

ایک تو ہم اکلوتی ہیروئن اور دوسرے ہم پیروں کے چھالوں کی وجہ سے لنگڑا لنگڑا کر چلتے تھے، دیر سے کیمپ سائیٹس پر پہنچتے تھے تو اپنے پورٹرز اور کچن کریو تو ہمارا خیال رکھتا ہی تھا اور گاہے بگاہے پوچھتا رہتا تھا کہ ہم ٹھیک ہیں کسی مدد کی ضرورت تو نہیں۔ یاد رہے کہ ہم چار ارکان کی ٹیم کے ساتھ 18 ارکان پر مشتمل ٹیم تھی۔ ایسا وی وی آئی پی ٹرپ ہم نے پہلے کبھی نہ کیا تھا۔ ہمارے آگے پیچھے اور دائیں بائیں کی مہمات کے ارکان، گائیڈز اور پورٹرز بھی ہماری خیریت گاہے بگاہے دریافت کرتے رہتے تھے۔

جب ہم کیمپ سائیٹ پہنچنے پر کافی لیٹ ہوجاتے تو کیمپ سے کوئی نہ کوئی پورٹر یا کریو ممبر ہمارے لیے چائے بسکٹ یا سوپ لیے چلا آرہا ہوتا "باجی پہلے آپ چائے شائے پیو پھر آگے جاو، کیمپ بس یہیں ہے آپ پہنچ گیا ہے بس" پائیو سے خوبرسے جاتے ہوئے جب ہمیں غیر معمولی دیر ہوگئی کیونکہ راستہ گلیشئیرز کی حرکتوں کی وجہ سے کلئیر نہیں تھا کہ ہم رائیٹ سائیڈ سے جائیں اور نالہ کراس کریں جو اب سہ پہر تک شیر دریا بن چکا تھا یا لیفٹ سائیڈ پر کریویسز سے بھرپور گلیشئر کراس کریں جبکہ ہمارا ایک پورٹر اسی گلیشئر کے اوپرراستے کی تلاش میں بھٹک رہا تھا۔

 فوجی پوسٹ کو راشن پہنچانے والے دو بندے بھی اس کے ارد گرد ہی بھٹک رہے تھے۔ دوسری وجہ ہماری لنگڑاہٹ تھی جس کے باعث ہم سست چل رہے تھے۔ خیر نالہ پار کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اب ہم نالے کے دائیں جانب چلے جارہے ہیں کہ کہیں تو اس کا پھیلاو کم ہوگا اور دوسری طرف کم از کم چار افراد جو ہماری تلاش اور ہماری مدد کرنے کے انتظار میں تھے ۔ براہ مہربانی "ہم" سے مراد یہاں ہم، فرخ اور علی بھائی ہمارے گائیڈ تینوں کو لیا جائے۔

نالے کا پھیلاو تو کیا کم ہوتا ۔ ایک جگہ نالا پورے پنج دریا جتنا چوڑا تھا لیکن اس کی گہرائی سطحی تھی۔ علی بھائی نے فرخ کو کہا "فاروق بھائی آپ جاو ہم باجی کو پار لے کر آتا ہے" اور ہاتھ پکڑنے کو بڑھے۔ ہم نے لپک کر فرخ کا بازو جکڑ لیا اورصاف کہہ دیا کہ ہم فرخ کے بغیر ایک قدم نالے میں نہیں رکھیں گے چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہوجائے۔ ناچار فرخ کو ہمیں پار لنگانا پڑا۔ پار جاکر ان چار افراد نے ہمیں گلیشئرپر کھینچ لیا، اور ہم نے فرخ کو آزاد کیا کہ بھائی تم کیمپ سائیٹ جاو ہم ان کے ساتھ آجائیں گے۔

دریا پار کرنے سے پاوں کے چھالے اپنی جگہ، ساتھ ٹانگ بھی اکڑ گئی کہ میں نئیں جانا کھیڑیاں دے نال۔ لو کر لو گل۔ اب تو ہم پورے ٹریک پر ایک آئیٹم بن چکے تھے جس کو نہیں پتا تھا اسے بھی پتا چل گیا۔ اب ہر ایک ہماری تیمار داری کو چلا آرہا ہے۔ اور فیصلہ سنا کے جارہا ہے کہ ہم جی جی لا نہیں کرسکیں گے۔ فرنگی تو پہلے ہی ہمیں واپس بھیجنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔

کنکورڈیا پر ہم قسم کھا سکتے ہیں کہ ہم واحد خاتون تھے۔ ایک تائیوانی خاتون اور دوسرا ایک پاکستانی جوڑا جو شروع دن سے ہمارے آگے پیچھے تھے، انہوں نے کیمپس کے بجائے اسٹیجز کرنے کو ترجیح دی سو وہ ہم سے پیچھے رہ گئے۔ اورہم سے آگے جتنے بھی گروپ پہلے سے کنکورڈیا پہنچے تھے ان میں شاید خواتین نہیں تھیں یا ہمیں نظر نہیں آئیں۔ کیونکہ ہم بہت لیٹ کیمپ سائیٹ پہنچے تھے۔ اتنے تھکے ہوئے تھے کہ کچن ٹینٹ میں ہی سوگئے اور صبح ہوتے ہی فرخ نے رولا ڈال دیا کہ آپ آج ہی علی کیمپ چلی جائیں ورنہ کل آپ جی جی لا نہیں کرسکیں گی۔ ہم نے بھی کہا کہ ہم بھی سرخ لپ اسٹک میں تصویریں کھنچوائے بغیر نہیں جائیں گے۔ تم کچھ بھی کرلو، آخر ہم نے فریال کو رپورٹ دینی ہے۔ 

اب جب ہم فریال کی گفٹ کی ہوئی لپ اسٹک سجا کر مڑے تو سب سے پہلے فرخ نے جیسے جھٹکا کھا کر دوسری نظر ڈالی ، عزت ہوگئی وہیں۔ اس کے بعد باقی سب کے لیے بھی ہم ہی کارٹون تھے۔ لیکن ہم نے بھی دھوپ والی عینک آنکھوں پر جمائی اور ایسے ہوگئے کہ جیسے باقی لوگ ہمیں نظر ہی نہیں آرہے۔ 😎

پھر علی کیمپ میں ہم اکلوتی خاتون، ہماری باقی ٹیم اور دیگر ٹیمیں دوسرے دن دوپہر میں پہنچی تھیں۔ پھر جی جی لا کرنے والی اس سیزن میں ہم دوسری پاکستانی خاتون۔ ہم سے پہلے خدیجہ خورشید کراس کر چکی تھیں۔ کیونکہ ہمارا حال کافی سے زیادہ خراب تھا اور سب کو یقین تھا کہ ہم لا کراس نہیں کرپائیں گے۔ اس لیے جب ہم نے لا کراس کر ہی لیا تو ایک ایک بندے نے آکر ہمیں مبارک باد دی، پہلے تو ہم سمجھے یہ سب بہت سنجیدگی سے ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں۔ لیکن جب دیگر مہمات کے ارکان بشمول ایک ہسپانوی حسینہ نے بھی نے بھی باری باری ہاتھ ملا کر مبارکباد دی تو ہمیں یقین سا آنے لگا کہ ہم نے واقعی کچھ کر لیا ہے۔ اس کے جانے کے بعد ہم نے فرخ سے دریافت کیا کہ کیا ہم بھی اپنے سفرنامے میں ایک اسپینش حسینہ ڈال لیں۔ جس کا اس نے کچھ واضح جواب نہیں دیا۔ 

سارے راستے جو سنتا ہم لا کراس کر کے آئے ہیں اس کی خوشی دیکھنے والی ہوتی تھی، کوئی بندہ ایسا نہ ہوگا جس نے لا کراس کرنے کا سن کر ہمیں مبارکباد نہ دی ہو۔ ان سب کا کہنا تھا کہ غیرملکی تو بہت سی خواتین کراس کرتی ہیں لیکن اپنی پاکستانی خواتین بہت ہی کم ہوتی ہیں اور پھر اس لنگڑ دین حال میں تو لا کراس کرنا واقعی ایک کارنامہ ہے۔ ہوشے میں بھی خواتین ، حسن بھائی، اور اور ان کے ریسٹ ہاوس میں جس نے بھی سنا خوش ہوکر مبارکباد دی۔

تنہا سفر کے حوالے سے بڑے ہی رومانی تصورات خاص کر خواتین ٹریکرز کے درمیان رائج ہیں کہ کسی خوبصورت مقام پر تنہا بیٹھ کر meditate یا روحانی تجربات کرنا، نیچر کو انجوائے کرنا، اپنا سائیکواینالسز کرنا ۔۔

"آئی فیلٹ فیبیولس"

"بہت ہی ایموشنل فیلنگز تھیں"

"آہ آئی نیور ایکسپیریئنسڈ لائک دیٹ"

بس رہنے دیں یہ ساری باتیں، یہ باتیں صرف بنانے کے لیے ہوتی ہیں۔
بالکل اسی طرح کی باتیں کسی حسین مقام پہ دفن ہونے کے بارے میں ہوتی ہیں۔

تنہا ٹرپ کرنا کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ بیس افراد کی موجودگی میں کچھ لمحات آپ کو اپنے لیے مل جائیں تو یقیناً ان پہ پیار آسکتا ہے۔ لیکن جب تنہائی ہی آپ کے پاس واحد آپشن ہو، آپ پر تھوپ دی گئی ہو بلکہ آپ نے خود تھوپ لی ہو تو اس سے زیادہ زہریلی اور کوئی شے نہیں۔

بالکل اسی طرح کسی حسین و دلفریب مقام پر مرنے اور دفن ہونے کی باتیں ہیں۔ سب سے اچھی موت اپنوں کے درمیان۔

جی جی لا چڑھتے ہوئے جب ہمیں لگا کہ آج تو نہیں بچنا، تو پہلا خیال جو ہمیں آیا وہ یہی تھا کہ اللہ میاں یہاں نہیں، ہمیں آخری بار اپنے بچوں کو دیکھنا ہے، اور ہمارے بچے ہمارے انتظار میں ہیں۔ روز فون پہ وہ یہی کہتے تھے کہ پھپھو آپ ابھی آجاؤ، انہیں دیکھے بغیر ہمیں نہ اٹھانا، پلیز

🌈 🌊 🌋 🌄

پہلا حصہ فرخ نامہ پڑھنے کےلیے کلک کریں