الاموت حسن بن صباح کی جنت ارضی اور اس کے فلسفہ زندگی کے بارے میں ایک ناول ہے کہ اس نے اتنی طاقتور ایمپائر کیسے تعمیر کی، اس کے پیچھے کیا فلسفہ کارگرتھا۔ حسن بن صباح جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ اسمعٰیلی مذہب کا ایک مبلغ اور بعزم خود پیغمبر تھا جس نے اپنا مرکز ایران کے شہر قزوین میں الاموت نامی ایک قلعے میں قائم کیا تھا اور جہاں وہ سادہ لوح نوجوانوں کو حشیش کے نشے میں مبتلا کر کے ایک مصنوعی جنت کا لالچ دے کر انہیں دنیا بھر میں بادشاہوں اور حکمرانوں پر خود کش حملوں میں استعمال کرتا تھا۔
الاموت کا ایک ڈجیٹل تصور PC: Internet |
ناول کا بنیادی ڈھانچہ بس یہی ہے جسے مزید کردار ڈال کر ایک کہانی اس کے ارد گرد بن دی گئی ہے۔ اٹ واز ناٹ سم تھنگ جتنی ہائپ ایک مرحوم فیس بک گروپ کے ارکان نے مچائی ہوئی تھی۔ یہ مغرب، یورپ یا گوروں کے لیے کوئی فینٹسی یا بہت فیسی نیٹنگ ہوگا کیونکہ انہیں ہمیشہ سے مشرق بہت پراسرار لگتا ہے۔ لیکن ایک ایسے قاری کے لیے جس نے پہلے ہی فردوس بریں، مارکو پولوکا سفر نامہ اور اور ٹم سیورن کی ٹریکنگ مارکو پولو پڑھ رکھی ہوں اس کے لیے حسن بن صباح اور اس کی جنت کے حوالے سے اس کتاب میں استعجاب کافی کم تھا۔ مصنف کو اس امر کا اعزاز البتہ جاتا ہے کہ اس نے اس تاریخی واقعے/ ایپی سوڈ کو جس قدر تفصیل اور باریکیوں سے سجایا ہے وہ قابل تعریف ہے۔
ناول کے بنیادی کردار وہی ہیں جو تاریخ میں درج ہیں بشمول ہیرو، اس کے معاونین، ولن یعنی خلفاء، سلطان اور ان کے وزراء۔ جبکہ کچھ کردار غالباً مصنف نے اپنے قلم سے مصور کیے ہیں۔ بہشت بریں کے مصنف نے مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسمعیلی مذہب کا تذکرہ کرنے سے گریز کیا تھا تاہم ایک مغربی مصنف کو وہ بھی سلووینیا سے جس کا محل وقوع بھی برصغیری عوام کو شاید ہی معلوم ہواس ضمن میں کسی قسم کی رواداری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑی لہذہ ناول میں شعیہ اور اسمعیلی عقائد صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔
جیسا کہ اس کتاب کے بارے میں مترجم نے بیان کیا ہے کہ یہ ناول مصنف نے کئی سال کی تحقیق کے بعد تحریر کیا ہے۔ اگر مصنف نے ناول میں یونانی اور رومن فلسفے درست طور پر بیان کیے ہیں تو پھر امکان غالب ہے کہ شعیہ و اسمعیلی فلسفے اور عقائد بھی ٹھیک ٹھیک ہی بیان کیے ہونگے۔ اور اگر یہ فلسفے اور عقائد حقیقت پر مبنی ہیں یعنی سواد اعظم اور اہل سنہ کے عقائد کے بارے میں کھلی بلاسفیمی پر مبنی تو پھر خیال آتا ہے کہ سپاہ صحابہ والے ایسے بھی کوئی بالکل ہی غلط نہیں ہیں۔ لیکن دل کو بہلانے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ یہ "صرف ایک ناول" ہی ہے۔
ناول کو پڑھ کر کچھ سوال بھی ذہن میں ابھرے ۔ جیسے کہ ناول میں تذکرہ ہے کہ ناول کےایک کردار نے الاموت کا وائٹ ڈریس سنیوں کے سیاہ لباس سے تبدیل کرلیا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سیاہ رنگ سنیوں کا تھا تو یہ کب میں سے اہل تشیع کا ہوگیا اور کس ثانیے میں سبز رنگ سنی ہوگیا۔ مزید یہ کہ کیا اب بھی اسمعیلی / آغا خانی مسلمان قران اور رسول اللہ کے بارے میں ان ہی عقائد پر یقین رکھتے ہیں جو کتاب میں بیان کیے گئے ہیں۔ خاص کر اسمعیلی مذہب کا بنیادی اصول
"Nothing is true; everything is permitted"
اورابن صباح کی موت اور بالآخر الاموت کی تحلیل کے بعد اسمعیلیوں کی کمان کس کے ہاتھ میں آئی، موجودہ آغا خان کا ابن صباح سے کیا تعلق ہے وغیرہ وغیرہ۔
تاریخی ناولز یا کتب پڑھنے کے ساتھ ایک یہ مصیبت ہے کہ پہلے اس تاریخی شخصیت یا مقام یا واقعے کا تاریخ میں مقام متعین کرنا پڑتا ہے کہ وہ کون تھا، کس کا کیا تھا، کس کا ہم عصر تھا، کس سے پہلے تھا کس کے بعد تھا وغیرہ وغیرہ اس لیے ناول کم پڑھا جاتا ہے گوگل اور وکی پیڈیا زیادہ، اور مطالعے کا لوڈدگنا، تگنا ہوجاتا ہے۔ اس پر سے اس قسم کے سوالات کا ذہن میں ابھرنا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب کچھ گڈ مڈ ہو کے گڑ بڑ گھٹالا بن جاتا ہے۔ آپ کو شوق ہے ان کے جوابات جاننے کا تو خود ہی گوگل کر لیں۔
ہم جیسے آوارہ گرد کسی بھی تاریخی اورپہاڑی مقام کے بارے میں سن لیں تو پہلا تجسس وہاں کے بارے میں یہ جاننے کا ہوتا ہے کہ وہاں کیسے پہنچا جاسکتا ہے۔ تھوڑی سی نیٹ سرفنگ کی تو پتا چلا کہ الاموت ایرانی سیاحت میں ایک ہاٹ کیک ہے۔ جسے ایرانی سیاحتی کمپنیاں اچھی طرح کیش کر رہی ہیں۔ الاموت کے قلعے کی باقیات پر گوری چمڑی والے شہد کی مکھیوں کی طرح قطاریں لگائے ہوئے ہیں۔ اور ہمارے ہم وطن جو چند سو کلومیٹر کی دوری پر ہیں انہیں کوئی جلدی نہیں۔
لیکن اگر آپ کتاب پڑھ چکے ہیں تو ان آثار کو دیکھنے سے پرہیز ہی کریں کیونکہ ناول پڑھ کر الاموت کی جو تصویر آپ کے ذہن میں بنی ہے وہ قلعے کے آثار دیکھ کر کرچی کرچی ہوجائے گی۔ اور ویسے بھی صرف قلعے کے "آثار" ہی بچے ہیں جنت ارضی کے آثار کا کہیں تذکرہ نہیں۔ حالانکہ انہیں وہیں کہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اگر آپ ہائکنگ یا ٹریکنگ کے دلدادہ ہیں تو پھر جانا بنتا ہے۔ ٹم سیورن کے مطابق وادی بہت حسین ہے۔
پس نوشت: الاموت کے بارے میں ایک صاحب کا کہنا تھا کہ یہ کتاب طالبانائزیشن کا اچھا نسخہ ہے۔ ہمارے خیال میں یہ دوسروں کو طالبان اور خود کو دہریہ بنانے کے لیے خاصی کارآمد کتاب ہے۔
🐪🐫🐪🐫🐪🐫🐪🐫