Friday, July 26, 2019

"بنت حوا ہوں میں، یہ مرا جرم ہے"

تبصرہ:

ڈاکٹر مبارک علی پاکستان کے اکلوتے نہیں تو اکلوتے مشہور تاریخ خواں ہیں۔  [تاریخ دان کی اصطلاح غلط ہے۔ "دان" بنانے والے کو کہا جاتا ہے۔ اور "خواں" بیان کرنے والے کو۔] جنہوں نے تاریخ خصوصاً برصغیر کی تاریخ پر کئی کتب لکھی ہیں اور خود فن تاریخ پر بھی۔ اس کتاب میں ڈاکٹر مبارک علی نے مختلف مذاہب، معاشروں اور تہذیبوں میں خواتین کے مقام اور حیثیت کا تاریخی جائزہ لیا ہے۔
سب سے پہلے تو وہ اس بات پر شکوہ کناں ہیں کہ تاریخ مرد لکھتا آیا ہے اس لیے تاریخ مرد کے مردانہ کارناموں پر ہی مشتمل ہے۔ عورت کے کارناموں کا ذکر کرنے کا مرد کو خیال ہی نہیں رہا کیونکہ مرد عورت کو قابل ذکر نہیں سمجھتا۔ تاریخ کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ معاشرہ ابتدا میں نیوٹرل تھا، پھرمدرسری ہوگیا اور عورتیں خاندان کی سربراہ ہوگئیں کیونکہ مرد کی نسبت وسائل ان کے قبضے میں تھے، پھر جیسے جیسے وسائل مرد کے قبضے میں آتے گئے خاندان کی سربراہی مرد کے حصے میں آنے لگی اور عورت محکوم ہوتی گئی۔ 

فیوڈل ازم یا جاگیر داری یعنی ذاتی ملکیت کے تصور کے ساتھ ہی عورت کو ایک مرد تک محدود کردیا گیا تاکہ یہ پتا چل سکے کہ کون سی اولاد اپنی ہے کون سی پرائی۔ اپنی نسل کی بقا اور اپنی دولت/ ملکیت اپنے خاندان تک محدود رکھنے کے لیے یہ ضروری ہوگیا کہ عورت سے صرف اپنے بچے پیدا ہوں۔ ورنہ اس سے قبل عورت خاندان کی سربراہ ہوتی تھی، ایک وقت میں ایک سے زائد شوہر رکھ سکتی تھی اور اولاد عورت کی طرف نسبت رکھتی تھی۔

طوائف کا ادارہ مرد کی وجہ سے قائم ہوا کیونکہ عورت کے لیے جنسی تعلقات اپنے شوہر تک محدودرکھنا لاز م کردیا گیا لیکن مرد کو بیوی تک محدود رہنے کی پابندی نہیں تھی۔ نیک اور وفا دار بیوی کے رول کے لیےاور ایک شریف عورت کہلانے کے لیے عورت پر اتنی پابندیاں لگائی گئیں کہ وہ ایک روبوٹ بن کر رہ گئی جس کا کام بچے پیدا کرنا اور گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنا تھا اور ہے، نتیجہ وہ مرد کی دلداری کرنے کے لائق ہنر اور کمالات سیکھنے سے محروم رہی۔ جبکہ مرد کو اس سے کوئی دلچسپی محسوس نہ ہوتی تھی، سوائے اس کے کہ وہ "صرف اسکی" نسل آگے بڑھائے اور ایک مفت کی خادمہ اور گھر کی نگراں میسر رہے۔ 

اس مطلبی قسم کے جنسی تعلق میں "پلیژر" مفقود تھا لہذہ اس پلیژر کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے طوائف کا ادارہ قائم ہوا۔ لیکن طوائف کسی ایک مرد تک محدود نہیں ہوتی لہذہ طوائف سے پیدا ہونے والی اولاد کا کوئی نہ دعوے دار ہوتا تھا نہ ذمے دار، نہ ہی معاشرے میں کوئی مقام تھا۔ اور یہ کسی ایک معاشرے، مذہب یا ثقافت تک محدود نہیں، ہر زمانے میں ہر معاشرے میں تھوڑی بہت اونچ نیچ کے ساتھ عورت کے لیے یہی قواعد و ضوابط رائج رہے ہیں۔ 

 اس کتاب سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ مرد شکار میں مصروف ہوتا تھا، جبکہ عورت پریگنینسی اور پھر بچوں کی دیکھ بھال کے سبب کافی وقت شکار میں مرد کے شانہ بشانہ نہ رہ سکی، تو بیٹھے بیٹھے اور پھل پھول جمع کرتے کرتے پودے اگانے سیکھ لیےاور جانوروں کو سدھانا سیکھ لیا۔ ڈاکٹر مبارک علی کے بقول "عورت نے جو جانور سب سے پہلے سدھایا وہ مرد ہے۔" اس طرح عورت نے باغبانی، زراعت، کھیتی باڑی، گلہ بانی، پولٹری، ڈیری جیسے فنون کا آغاز کیا، جانوروں کے بڑے بڑے گلے پرورش کیے، بڑے بڑے کھیت کھلیان سینچے اور پھر مردوں نے ان پر قبضہ کر کے ذاتی ملکیت یا فیوڈلزم کی بنیاد رکھی اور عورت کو ہی غلام بنا لیا۔

ڈاکٹر مبارک علی نے اس کتاب میں عورت کا تذکرہ تاریخی، تہذیبی ارتقاء، چرچ، صوفی ازم کے حوالے سے کیا ہے،  ہندوستانی معاشرہ، ہندو معاشرہ، پنجابی معاشرہ حتیٰ کہ قدیم مصری اور یونانی معاشرے میں بھی عورت کی حیثیت کو بیان کیا ہے لیکن دانستہ یا نادانستگی میں وہ عربی معاشرے میں عورت کے مقام کو بیان کرنے سے پہلو تہی کرگئے ہیں۔ اسی طرح جہاں چرچ اور عورت یا ہندو سماج میں عورت کو بیان کیا ہے وہیں  اسلام اور عورت کا بھی جواز بنتا ہے۔ خاص کر جب آپ ایک مسلم معاشرے کی پیداوار ہوں تو آپ کیسے اس معاشرے اور مذہب کو بیان کرنے سے رہ سکتے ہیں۔ لیکن لگتا ہے بوجوہ اسلام میں عورت کے مقام کو بیان کرنے سے احتراز کیا ہے۔ اسی طرح پنجابی سماج میں عورت کا تذکرہ کر کے وہ غالباً اپنے طور مطمئین ہوگئے کہ انہوں نےاکثریتی صوبے/ثقافت کی عورت کو بیان کر کے "پاکستانی عورت " کا قرض ادا کردیا۔ 

پس نوشت: اس کتاب میں ایک پورا باب مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب بہشتی زیور میں درج مثالی [مسلمان ہندوستانی] عورت کی خصوصیات پر تبصرہ کرنے میں صرف کیا گیا ہے۔ تبصرہ اپنی جگہ لیکن ایک شریف مسلمان ہندوستانی خاتون کی جن خصوصیات کا بہشتی زیور میں سے حوالہ دیا گیا ہے، اگر آج ان خصوصیات کا جائزہ لیا جائے تو وہ خصوصیات نمایاں طور پر ایک اردو اسپیکنگ مہاجر گھرانے میں شریف عورت سے منسلک توقعات ہیں کہ اس کا کردار ایسا ہونا چاہیے۔ جبکہ پاکستان چار پانچ نمایاں ثقافتی اکائیوں اور بہت ساری ذیلی ثقافتوں پر مشتمل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بہشتی زیور میں جو خصوصیات ایک بہترین عورت کی ہیں کیا وہ ایک بہترین پنجابن یا بہترین جٹی یا بہترین سندھی خاتون یا بہترین بلوچ خاتون کی بھی ہیں یا ان سے الگ ہیں۔ 

اس سوال کے جواب میں اگر کوئی کسی کتاب یا کسی اور ماخذ کا حوالہ دینا چاہے تو کمنٹس میں درج کردیں۔ عین نوازش ہوگی۔

👧 👭 👪 👫 👩