آج میں اپنی ساتھی جہاں گرد خواتین سے مخاطب ہوں، عموماً خواتین اور لڑکیوں سے لیکن خصوصاً شادی شدہ خواتین جہاں گرد وں سے۔ کیوں کہ آپ خاتون ہیں تو آپ کو اپنے شوق کے ساتھ ساتھ اپنی دیگر ذمہ داریاں بھی بحسن خوبی پوری کرنی پڑتی ہیں تاکہ کوئی آپ کے شوق پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ اور وہ آپ ضرور پوری کرتی ہوں گی۔ ہم خواتین ایسی ہی ہوتی ہیں، اپنے شوق کی خاطر دہری مشقت اٹھانے والی کہ کوئی ہم پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ لیکن
کچھ تو لوگ کہیں گے
لوگوں کا کام ہے کہنا
اس کے باوجود لوگ آپ پر طرح طرح کی انگلیاں اٹھائیں گے، اعتراضات کریں گے۔ کبھی آپ کو سننا پڑے گا کہ
آپ غیر ذمہ دار ہیں۔
آپ کو آپ کے بچوں کا ، گھر کا، شوہر کا کوئی احساس نہیں۔
کیا ملتا ہے تمہیں ان فضول کاموں میں،
رنگ دیکھو اپنا کتنی کالی ہوگئی ہو
غیر مردوں کے ساتھ پھرتی ہو
لڑکوں سے دوستیاں لگاتی ہو وغیرہ وغیرہ
اس ضمن میں عرض ہے کہ ہر ایک کی بات سننا اور اس پر دھیان دینا یا جی جلانا ہرگز ہرگز بھی ضروری نہیں ہے، گو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔ سر آنکھوں پر۔ کیونکہ جب کوئی عقل کی بات کر رہا ہو تو یقیناً بات پر دھیان دینا چاہیے۔ بندے پر نہیں۔ علم مومن کی میراث ہے ، جہاں سے ملے لے لو۔ لیکن کبھی کبھی یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ کون کہہ رہا ہے۔ خاص کر جب آپ کی ذات کو بلا وجہ اعتراضات کا نشانہ بنایا جا رہا ہو۔
یاد رکھیے کہ سب سے اہم آپ کی فیملی ہے، آپ کے شریک حیات اور آپ کے بچے، آپ کے والدین، آپ کے ساس سسر وغیرہ ۔ اگر ان میں سے کسی کو آپ کے شوق پر کوئی اعتراض ہے تو اس پر آپ ضرور غور کریں۔ اور ان اعتراضات پر بیٹھ کر باہمی تبادلہ خیال کر کے کوئی درمیان کی راہ نکالی جاسکتی ہے۔ جس سے آپ کا گھر بھی ڈسٹرب نہ ہو اور آپ کا شوق بھی پورا ہوتا رہے۔یقیناً ہر دو پارٹیز ایک دوسرے کی بات سمجھ سکتی ہیں۔ اگر آپ کے گھر والے ہٹلر کے وارث ہوتے تو آپ کی حرکتیں پہلے ہی"نارمل" ہوتیں۔ اب تو بہت دیر ہوچکی۔
ٹریکنگ میں کچھ بھی کر لیں رنگ تو خراب ہوتا ہی ہے۔ سب سے پہلی بات کہ یہ ایک ٹریکر کا تمغہ حسن کار کردگی ہے۔ ہم تو ہمیشہ اس پر اتراتے ہیں اور پچھلے ٹریک کا رنگ اترنے سے پہلے ہی کوئی نہ کوئی نیا ٹرپ کر کے اس پر پالش کر لیتے ہیں ۔
اگر آ پ اپنے کالے پیلے رنگ سے مطمعین ہیں تو ویری ویری گڈ یا پہلے ہی حفاظتی اقدامات کرلیتی ہیں تو یہ تو سب سے اچھی بات ہے۔ لیکن پھر بھی اگر رنگ خراب ہو ہی جاتا ہے تو فکر صرف اپنے میاں کے رائے کی کریں۔ دنیا میں وہی ایک فرد ہے جسے آپ اچھی لگنی چاہئیں۔ اگر اسے کوئی اعتراض نہیں تو پھر باقی دنیا کے لیے یہ گانا گائیے
دنیا کب چپ رہتی ہے
کہنے دے جو کہتی ہے
۔ ۔ ۔
خدشہ نقص امن و آئین حیا داری کے تحت ہم آدھے گانے پر اکتفا کرتے ہیں لیکن آپ پورا گا سکتی ہیں۔ باقی رہ گئے بچے تو بچوں کے لیے ان کی امی مس ورلڈ ہوتی ہیں چاہے وہ افریقہ کے کسی قبیلے سے ہی کیوں نہ ہوں۔ اورآپ کے والدین صرف ایک رنگ گہر ا ہوجانے کی بنا ء پر آپ کو جائیداد سے عاق تو نہیں کردیں گے نہ ہی خون کا رشتہ ختم ہوسکتا ہے۔ سو چِل کریں انگریزی میں۔
اب رہی غیر مردوں کے ساتھ پھرنے اور دوستیاں لگانے کی بات تو دنیا میں اور جگہوں پر کیا ہم صرف خواتین سے ہی انٹر ایکٹ کرتے ہیں۔ اسکول ، کالج ، یونی ورسٹی، محلے، دفتر ، بازار، ہسپتال، ٹرانسپورٹ وغیرہ کیا خواتین اونلی پلینٹ پر واقع ہیں۔ نہیں ناں۔ یہ اعتراض زیادہ تر وہ لوگ کرتے ہیں خصوصاً وہ خواتین جنہوں نے کبھی اپنے کنویں سے باہر جھانک کر بھی نہیں دیکھا اور سب کو اپنی طرح مینڈک ہی کی ایک قسم گردانتی ہیں۔ خود کبھی کسی ٹریکنگ ٹرپ پر جا کر دیکھیں کہ دوران ٹرپ جینڈر/ صنف کیسے مزے سے جھڑ جاتی ہے اور سارے انسان کے بچے بن جاتے ہیں، واپس آنے کے بعد بھلے دوبارہ اپنی اپنی صنف میں قید ہوجائیں۔
آپ اتنی سمجھدار تو ہونگی کہ ان دوستیوں اور تعلقات کی حد مقرر کر رکھی ہو۔ نہیں کی تو کر لیں، کچھ اصول بنا لیں جو ہر کبھی کسی کی خاطر قربان نہ کریں۔ کچھ حدیں جو کسی کو کراس نہ کرنے دیں۔ ویسے بھی دوست ہوتا نہیں ہر ٹرپ پر ساتھ جانےوالا۔ اکثریت تو ایسےلوگوں کی ہی ہوتی ہے جو اس ٹوور کے بعد ایسے انجان ہوجاتےہیں جیسے جانتے نہیں، ایک دو کو آپ خود ہی پرے کر دیتی ہونگی، بچے اب دو چار ان میں سے بھی کسی ایک آدھ سے ہی فریکوئینسی میچ کرتی ہے۔ اور انہیں بھی اتنی فرصت کہاں کہ روز روز آپ سے انٹر ایکشن ہوتا ہو۔
آپ اتنی سمجھدار تو ہونگی کہ ان دوستیوں اور تعلقات کی حد مقرر کر رکھی ہو۔ نہیں کی تو کر لیں، کچھ اصول بنا لیں جو ہر کبھی کسی کی خاطر قربان نہ کریں۔ کچھ حدیں جو کسی کو کراس نہ کرنے دیں۔ ویسے بھی دوست ہوتا نہیں ہر ٹرپ پر ساتھ جانےوالا۔ اکثریت تو ایسےلوگوں کی ہی ہوتی ہے جو اس ٹوور کے بعد ایسے انجان ہوجاتےہیں جیسے جانتے نہیں، ایک دو کو آپ خود ہی پرے کر دیتی ہونگی، بچے اب دو چار ان میں سے بھی کسی ایک آدھ سے ہی فریکوئینسی میچ کرتی ہے۔ اور انہیں بھی اتنی فرصت کہاں کہ روز روز آپ سے انٹر ایکشن ہوتا ہو۔
اس قسم کے اعتراضات دراصل لوزرز اور فیلئیرز ہی کرتے ہیں ، جو خود کبھی کچھ نہیں کرسکے اور دوسروں کو کرتے دیکھ کر حسد میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ میں یہ نہیں کر سکتی تو یہ کیوں کر رہی ہے، اس کی کیوں اتنی واہ واہ ہورہی ہے۔ یاد رکھیے کہ حسد تعریف کی "سوپر لے ٹیو " ڈگری ہے۔ انجوائے اٹ۔ اور ایسے غیر متعلقہ معترضین کو شٹ اپ کال دینا سیکھیے۔ ان سارے اعتراضات کے جواب میں صرف ایک جملہ کافی ہے۔
“None of your business”
ہمارے حلقہ ء احباب میں ایسی خواتین شامل ہیں کہ جو بس گھریلو خواتین ہیں، اور وہ اس میں ہی خوش ہیں تو ہم اعترض کرنے والے کون۔ ایسی خواتین بھی ہیں کہ جن پر گھریلو ذمہ داریاں کم ہیں اور وہ اکثر و بیشتر جہاں گردی مہمات پر ہوتی ہیں۔ یقیناً انہیں اپنی فیملی کی سپورٹ حاصل ہے تو ہم کیوں اعتراض کریں۔
کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو ہیں تو گھریلو خواتین ، جو سارا سال اپنے گھر اور فیملی میں مصروف رہتی ہیں۔ لیکن سال میں ایک آدھ دن وہ اپنے لیے بھی جیتی ہیں خواہ وہ کراچی میں چند گھنٹوں کی مارننگ واک ہو یا کراچی کے آس پاس ایک دن کی آوٹنگ، کسی بک فئیر میں چند گھنٹے گزارنے ہوں یا کسی ادبی محفل میں شرکت۔ اور میں جانتی ہوں کہ وہ کس طرح اپنی گھریلو ذمہ داریوں میں سے ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے وقت نکالتی ہیں۔
چند خواتین ایسی بھی ہیں جن کے شوہر حضرات انہیں زبردستی اپنی ہر آوٹنگ میں شامل کرتے ہیں اور کبھی کبھی وہ خود ہی اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے باعث میاں کو خفا کردیتی ہیں۔ اور ایک خاتون تو اتنی خوش قسمت ہیں کہ جب ان کے بچے چھوٹے تھے اور انہیں کوئی کتاب ختم کرنی ہوتی تھی تو ان کے شریک حیات بچے کو کندھے لگا کے بہلاتے رہتے تھے کہ جب تک تم کتاب ختم کرو میں اسے سلا دیتا ہوں۔
تو خواتین اعتراض کرنے والوں کو سورٹ آوٹ کریں، اہم لوگوں کی بات کو اہمیت دیں، ان کا حل مل کر تلاش کریں۔غیر اہم افراد کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیں۔ زیادہ تنگ کریں تو انہیں شٹ اپ کال دے دیں۔ اور یاد رکھیں کہ
اگر کسی کو آپ سے کوئی مسئلہ ہے
تو یہ اسکا مسئلہ ہے
آ پ کا نہیں۔