کہانی شروع ہوتی ہے ایک سائیکل سے۔ سب سے پہلی سائیکل جو ایک لڑکے کو 10/12 سال کی عمر میں اس کے ابا نے بہاولپور میں دلوائی تھی، اس سائیکل نے جہاں اس کا اسکول کا راستہ کم کردیا تھا وہیں اس کی آوارہ گردیوں کو نئے آسمان عطا کردیے تھے۔ نہ صرف خود بلکہ اپنے چھوٹے بھائیوں، کزنز اور دوستوں کو بھی ساتھ آوارہ گردیاں کراتا اور ان سب کے اباؤں سے ڈانٹ کھاتا۔ اس کے اپنے ابا تو خود وڈے آوارہ گرد تھے، اسے کیا منع کرتے دنیا دکھانے کو ایک آدھ گھرکی لگا دیتے۔ یہی نہیں بلکہ اکثر وہ اپنی چھوٹی بہن کو بھی سائیکل کے پیچھے بٹھا کر روہی میلہ دکھانے چل پڑتا۔
میٹرک کے بعد وہ اپنے والد پر بہن بھائیوں کی تعلیم کا بوجھ بڑھتا دیکھ کر کراچی چلا آیا۔ ساتھ سائیکل بھی کراچی چلی آئی اور بڑے شہر میں بڑے کام آئی۔ کالج جانا، اسٹار مل مزدوری کرنےجانا، پارٹ ٹائم ٹیوشنز پر جانا، گلیوں میں پھیری لگا کر ہاربندے لپ اسٹکس بیچنا سارے کام اسی سائیکل پہ ہوتے تھے۔ ساتھ ساتھ اسی سائکل پر دوست کے ساتھ بند مراد، ٹھنڈی سڑک اور حب ڈیم مچھلی کے شکار پر بھی جاتا کہ آوارہ گردی تو خون میں رچی بسی تھی۔
پھر اس کی شادی ہوگئی، بچے ہوگئے اور بیوی بچوں کے نصیب سے مل کی نوکری سے بی ایڈ بی کام مکمل کر کے ایک اسکول میں استاد لگ گیا اور سائیکل ترقی ہوکر ایک ہنڈہ ففٹی موٹر سائیکل میں تبدیل ہوگئی۔ موٹر سائیکل جہاں ڈیوٹی پر جانے کے کام آتی، بیگم اور بچوں کو میکے لے جاتی، وہیں اس نے اس لڑکے کی آوارہ گردیوں کو نئے جہانوں تک پہنچایا، اب مچھلی کے شکار کے لیے ہالے جی، ہرجینا، کلری اور ٹھٹھہ تک پہنچ میں آگئے۔ بیگم کو آوارہ گردیوں سے اللہ واسطے کا بیر تھا لیکن اپنی بیٹیوں کو اکثر ففٹی کی ڈگی میں بٹھا کر کلفٹن، کیماڑی، منوڑہ اور سینما لے جانا نہ بھولتا۔
وقت کا پہیہ موٹر سائکل کے پہیے کے ساتھ ساتھ گھومتا رہا اور ففٹی ، سیکنڈ ہینڈ ہنڈہ 110 میں بدل گئی۔ اور اب اس لڑکے کی پہنچ بلوچستان کے ساحلوں سنہرا، گڈانی اور ڈام بندر تک ہونے لگی۔
پھر آئی پہلی برانڈ نیو ہنڈہ سیونٹی وہ بھی 92 کا ماڈل۔ جی جی وہی مشہور ماڈل جو آج بھی نایاب ہے۔ اب ساتھ میں موٹر سائکل شئیر کرنے کے لیے بیٹے نے بھی قد نکال لیا تھا۔ بیٹے کو خیر سے 5 سال کی عمر سے ہی 110 کی ٹینکی پر بٹھا کر ڈام لے جانا شروع کردیا تھا۔ سو اب دو موٹرسائکلز لازمی تھیں۔ ایک پارٹنر گھر سے کیا ملا، آوارگیاں بڑھ کے ہنگول اور کنڈ ملیر جا پہنچیں۔
پھر ہوا یوں کہ کچھ عرصے بعد 110 دغا دے گئی اور چھوٹے منے کے لیے ایک ہیرو خریدی گئی۔ ویسے 110 تھی بڑے کام کی جس دن بارش کروانی ہوتی اسے ہم اسے دھو ڈالتے اور بس اسی دن بارش ہوجاتی۔ففٹی سے سیونٹی اور پھر ہیرو تک درمیان میں دو عدد رکشے بھی آئے، جن میں ہم بچوں نے بڑی سیریں کیں۔
سیریں تو ففٹی پر بھی بہت کیں۔ لیکن کراچی کراچی میں ، کلفٹن، کیماڑی، منوڑہ اور سینما کے علاوہ کراچی میں جو بھی ایونٹ ہوتا یہ لڑکا بچوں کو ففٹی کی ڈگی میں بھر کے لے جاتا، کبھی سرکس، کبھی نمائش۔ اس زمانے میں کراچی میں ایک بہت بڑی صنعتی نمائش لگی تھی۔ جس کی واحد اٹریکشن فلک بوس کولڈ ڈرنک کی بوتلوں کے ماڈل تھے۔
رکشہ کا فائدہ یہ ہوا کہ اب بچوں کی پہنچ بھی حب ڈیم اور بند مراد تک ہونے لگی، ٹھٹھہ ، مکلی، کلری تک اب صرف لڑکا ہی نہیں اس کے بچے بھی پہنچنے لگے تھے۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور بچے بڑے ہوگئے۔ پڑھ لکھ گئے اور لڑکے کی محنتیں رنگ لائیں۔ اور ایک بیٹی مقابلے کا امتحان پاس کر کے افسر لگ گئی۔ بیٹے کی شادی ہوگئی، پوتا پوتی سے گھر کی رونق دوبالا ہوگئی۔ گھر کے حالات بدلے اور اللہ کے کرم سے چادر تھوڑی وسیع ہوگئی، گھر میں گاڑی آگئی۔ گاڑی نے آوارگیوں کو مزید وسعتیں دیں، اور دوستوں کے ساتھ ٹرپس کم اور فیملی کے ساتھ ٹرپس زیادہ ہوتے گئے۔
گاڑی اپنی جگہ لیکن موٹر سائیکل ہمیشہ پہلی محبت ہی رہی۔ ایک دن ایک نوجوان پتا نہیں کہاں سے 92 ماڈل کی سیونٹی خریدنے چلا آیا۔ "انکل اپنی گاڑی مجھے دے دیں میری ایک سال چلی ہوئی 125 آپ لے لیں مجھ سے پیسے بھی اوپر لے لیں"۔ لو بھلا بتاو، ایسا پیچھے لگا کہ سیونٹی لے کر ہی ٹلا۔
اب گھر میں ایک 125 اور ایک ہیرو تھی۔ کچھ عرصہ بعد ہیرو نے جواب دینا شروع کیا تو ایک اور سیونٹی خرید لی گئی۔ اب گھر میں تین بائیکس ہوگئیں۔ ایک لڑکے کے اپنے استعمال میں ، ایک لڑکے کے لڑکے کے استعمال میں اور ایک سیونٹی جو باہر کم نکلتی اور سجی سنوری گیراج میں کھڑی رہتی صرف بیٹے بہو کے سسرال جاتے وقت باہر نکلتی۔
پھر حالات کچھ ایسے ہوئے کہ سب کے ہوتے ہوئے بھی بوجوہ لڑکا اکیلا ہوگیا، لڑکے کا دل گھر سے اچاٹ ہوگیا کیونکہ سب کے ہوتے اگر ایک فرد بھی کم ہو جائے ہو تو سب تو نہیں ہوتے ناں
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسین ہے
غم غلط کرنے کے لیے گھر سے نکل بھاگنے کے نئے نئے پلان بننے لگے۔ کبھی آل پاکستان ٹور تو کبھی گوادر، تو کبھی خنجراب۔ لیکن اس کے لیے ایک توانا اور آرام دہ موٹر سائیکل چاہیے تھی۔ اور یوں آئی لڑکے کی نئی سوزوکی 150۔ اس کا نیا کھلونا۔
یہ بائک ٹوور لڑکے کا نوجوانی کے دنوں کا خواب تھا جو اب تک پورا نہ ہوسکا تھا۔ کبھی وسائل کی کمی تھی ، کبھی مسائل کی زیادتی اور ذمہ داریاں بھی بہت تھیں۔ لیکن اب لڑکا آزاد تھا۔ نہ اعتراض کرنے والی بیوی ، نہ وسائل کی کمی تھی، نہ مسائل بہت زیادہ، بچے بڑے اور اپنے پیروں پر کھڑے تھے بلکہ دوڑ رہے تھے۔ لیکن ابا پر پابندیاں بہت لگاتے تھے۔ اکیلے نہیں جانا، کم از کم دو موٹر سائیکلز ہوں۔ ساتھ جانے والا ذمہ دار بندہ ہو۔ خیر ان پابندیوں کے باوجود لڑکے نے 150 پر پہلا ٹوور ایک ہفتے کا کراچی سے جیوانی پاک ایران بارڈر کا لگایا۔ تھوڑا اسکا حوصلہ بڑھا اور تھوڑا بچوں کے اعتراضات کم ہوئے۔
کچھ عرصہ گزرہ کے لڑکے کے دل میں بیٹی کی آوارہ گردیوں کی دیکھا دیکھی خنجراب جانے کی خواہش مچلنے لگی لیکن پروگرام کراچی سے بائک پر خنجراب تک جانے کا تھا۔ ساتھی کوئی ملتا نہ تھا، اکیلے جانے کا ارادہ کیا جس کی بچے اجازت نہ دیتے تھے۔ کہ نہیں آپ ہمارے اکلوتے ابا ہو بلکہ اب تو اکلوتے والدین ہو، ہر گز نہیں۔ بالآخر یہ 70 سالہ لڑکا ایک دو نان آوارہ گرد شریف انسانوں کو پٹانے میں کامیاب ہوگیا۔ جنہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کے ساتھ ہونے کا جا رہا ہے۔
بالآخر وہ دن آگیا جب لڑکا اپنے بائک ٹور پہ کراچی سے خنجراب روانہ ہوگیا۔