Wednesday, March 7, 2018

باچا خان: ایک تاثر



باچا خان اور جی ایم سید پاکستان کی تاریخ کے دو ایسےسیاسی کردار ہیں جن کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ دونوں پاکستان کے وجود کے خلاف تھے۔ جی ایم سید سندھو دیش یا سندھ کی آزادی کے حق میں تھے یہ بات کسی سے بھی چھپی ہوئی نہیں۔ ان سے منسوب   ویب سائیٹ  پر موجود کتب اور وکی پیڈیا سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ لیکن اب تک ان کے نظریات کے بارے میں دوسروں کی زبانی یا تحریری ہی سنا اور پڑھا ہے اس لیے اس پر مزید تبصرہ ممکن نہیں۔ [ جی ایم سید کی خود نوشت  یا تصدیق شدہ سوانح اگر کسی علم میں ہے تو کتاب کے نام سے آگاہ کر کے ثواب دارین حاصل کریں۔]


اسی طرح باچا خان یا خان عبدالغفار خان کے بارے میں بھی اب تک یہی سنا اور پڑھا تھا کہ وہ پاکستان سے علیحدہ پختونستان بنانے کے حق میں تھے اور ان کے رابطے پاکستان سے زیادہ ہندوستان سے استوار تھے۔ میرے بچپن میں ان کے انتقال کے موقع پر جس طرح راجیو گاندھی اندھا دھند پاکستان آئے تھے وہ میرے لیے خاصہ حیران کن امر تھا کیوں کہ میرے ہوش میں یہ پہلا ہندوستانی لیڈر یا نمایاں حکومتی شخصیت تھی جو پاکستان آیا تھا۔  کیونکہ  دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے اور دشمن کا دوست دشمن۔ اس فارمولے سے اسی قسم کا تاثر بنتا ہے جو ان کے بارے میں پڑھا یا سنا تھا۔

حال ہی میں ایک دوست کے توسط سے  ان کی خود نوشت/ آپ بیتی پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ کتاب دہلی سے ہند پاکٹ بکس کے تحت شایع ہوئی تھی، سافٹ کاپی میں اشاعت کا سن درج نہیں لیکن Good Reads پر اشاعت کا سال 1969 درج ہے۔ اور انگریزی ورژن پشتو ورژن سے ترجمہ شدہ ہے۔  پہلے اس دوست سے پوچھا "کیسی ہے"۔ جواب ملا "اینٹی پنجاب اور اینٹی پنجابی۔" سوچا خود پڑھ کر دیکھنی چاہیے۔ اس بلاگ میں درج تاثرات صرف اور صرف اسی خود نوشت میں تحریر کردہ حقائق اور خیالات سےاکتساب پر مبنی ہیں۔ کسی اور ذریعے سے ان کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔ کیونکہ اگر کوئی بندہ اپنی سوانح حیات میں خود اپنے خیالات کا اظہار صاف طور پر کر رہا ہے تو مزید کسی اور تصدیق کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ کتاب کا رحجان ان کی سیاسی جدو جہد اور سماجی اصلاحات کی طرف زیادہ ہے۔ اور زیادہ تر  شمال مغربی سرحد یا ان کے پختونستان تک ہی محدود ہے۔

باچا خان شمال مغربی سرحدی خطے کو انڈیا سے الگ ایک خطہ سمجھتے تھے کتاب میں کئی جگہ انہوں نے سرحدی خطے سے انڈیا کے دوسرے حصوں کے سفر میں انڈیا جانے یا انڈیا سفر کرنے کا اس طرح تاثر دیا ہے جیسے وہ ایک ملک سے کسی دوسرے ملک جارہے ہوں۔ پختونستان ان کے خوابوں کی سرزمیں تھا جس کی سرحدیں ان کے خیال میں دریائے آمو سے دریائے جہلم تک پھیلی تھیں، تاہم وہ آزاد پختونستان میں سرحد، بلوچستان اور افغانستان کو شامل کرنا چاہتے تھے۔ پختونوں کے لیے ایک الگ ملک۔

 ان کی  خدائی خدمت گار موومنٹ بھی صرف پٹھانوں کی خدمت کے لیے تھی انسانوں اور مسلمانوں کے لیے نہیں۔ ان کا پیٹریوٹزم اور نیشنلیٹی یعنی حب الوطنی اور قومیت  زبان کی بنیاد پر تھے ۔ کتاب پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحریک آزادی اور تحریک پاکستان نامی کسی تحریک کا پورے ہندوستان میں کوئی وجود تھا ہی نہیں۔ اور اگر تھا تو بہت واجبی سا تھا۔ نہرو اور گاندھی جی کا ذکر درجنوں بار ہے لیکن علامہ اقبال اور مسٹر جناح کا ذکر محض ایک دو جگہ اور وہ بھی منفی انداز میں۔

ان کے خیالات کے مطابق برصغیر میں تین قوتیں تھیں۔ کانگریس ، خدائی خدمت گار تحریک اور بے چاری مسلم لیگ۔ لہذہ دو نہیں تین ملک بننے چاہئیں تھے۔ ہندوستان ، پختونستان اور بچا کھچا پاکستان۔ پاکستان مسلم لیگ اور قائد اعظم کی کوششوں سے نہیں بلکہ انگریزوں کی حمایت سے بنا تھا، کیبنٹ مشن مذاکرات مسٹر جناح نے برباد کر دیے تھے۔ مسلم لیگ انگریزوں کی پٹھو جماعت تھی ، مسلم لیگ ایک فاشسٹ جماعت تھی اور ظاہر ہے مسلم لیگی بھی

مسلم لیڈرز میں گاندھی جی جیساصبر تحمل نہیں تھا۔ مسلم لیگ نے کڑے وقت میں انکی مدد نہیں کی اسلیے انہیں کانگریس کی مدد لینی پڑی اور کانگریس سے دوستی کی وجہ بنی۔لیکن آخر میں کانگریس نے بھی انہیں دھوکا دیا ، جس کے باوجود ان کے ہندوستان اور نہرو خاندان سے تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ 

ہندوستان میں ریفرنڈم پاکستان یا ہندوستان کی بنیاد پر ہوا تھا لیکن ان کے مطابق سرحدی خطے میں ریفرنڈم پختونستان یا پاکستان کی بنیاد پر ہونا چاہیے تھا۔ جب کانگریس ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کی تخلیق پر رضامند ہوگئی تو انہوں نے کانگریس پر ناراضگی ظاہر کی کہ "آپ نے ہمیں بھیڑیوں کے حوالے کر دیا ہے۔"

جو سوال انہوں نے مسلم لیگ کے سامنے رکھا ہی نہیں اس پر تو مسلم لیگ مجرم ہے۔ لیکن کانگریس جس نے انہیں  اس موضوع پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا وہ مرتے دم تک اچھی رہی۔ ارے بھائی  جناح کو پاکستان چاہیے تھا وہ انہوں نے لے لیا۔ کانگریس کو ہندوستان چاہیے تھا اس کی آزادی چاہیے تھی وہ انہوں نے لی، اگر آپ کو پختونستان چاہیے تھا تو اس کے لیے کوئی جدوجہد، کوئی تحریک اس کتاب میں نظر نہیں آئی۔ اب اس پر مسلم لیگ کو دشمن سمجھنا اور گانگریس کو دھوکے باز۔ یہ تو کھلا تضاد ہے۔  کوئی اور آپ کے لیے فرم اسٹینڈ کیوں لیتا۔

 ایک طرف وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان بننے کے بعد پاکستان کو جوائن کرلیا۔اور پاکستان سے وفاداری کا عہد کیا لیکن دوسری طرف کابل میں کی گئی پہلی تقریر میں وہ تحریک آزادی پختونستان کے بارے میں کہتے ہیں کہ آخر ہم اب تک ناکام کیوں ہیں۔ اور یہ تقریر انہوں نے کابل میں جلاوطنی  کے دوران کی یعنی تقریباً 60 کی دہائی میں۔ اس پر بھی آپ کو پاکستان کا دوست کیسے سمجھا جائے۔

انگریز بھی اچھے تھے باوجود انہیں زیادہ تر جیل میں رکھنے اور برے سلوک کے۔
ہندو اور کانگریس بھی اچھے تھے دھوکا دینے کے باوجود
سکھ بھی اچھے تھے۔
بس صرف مسلمان اچھے نہیں تھے کیوں کہ وہ زیادہ تر مسلم لیگ کے ساتھ تھے۔
اورپنجابی تو بالکل بھی اچھے نہیں تھے۔ یعنی پنجابی مسلمان، کیونکہ سکھوں سے انہیں کوئی پرابلم  نہیں تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک باعمل مسلمان تھے اور پختونوں کی اصلاح اور ان کی بہتری کےلیے بہت کام کیا، خاص کر پختونوں کی تعلیم کے لیے۔ لیکن اس کتاب سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک شدید متعصب انسان تھے۔

پی ایس: ایک "جلیانوالہ" قصہ خوانی بازار میں بھی ہوچکا ہے۔