ایک نئی نویلی سیاہ چمک دار سڑک ایک نئے رومان کی طرح آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہے کہ آؤ، میرے ساتھ اک نئے سفر پر چلو، نئی منزلوں کی طرف، چلو میں تمہیں نئی دنیاؤں کی سیر کراؤں۔ ایک استعمال شدہ اور جگہ جگہ سے ٹوٹی سڑک ایک تھکی ماندی، چڑچڑی ماں کی طرح ہوتی ہے جو سارا دن کڑ کڑ کرنے کے بعد رات کوڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ گرما گرم روٹی بھی دے دیتی ہے۔ یعنی جیسے تیسے منزل پر پہنچا ہی دیتی ہے۔
سڑکیں ہماری زندگی کا ایک لازمی جز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں درختوں کی طرح زمین میں پیوست نہیں کیا بلکہ آزاد پیدا کیا اور حکم دیا کہ زمین پر گھومو پھرو اور میری نشانیاں تلاش کرو۔ سب نے تو نہیں لیکن ہم نے اس حکم کو کچھ زیادہ ہی سنجیدگی سے لے لیا اور ہر دوسرے ہفتے ہم کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی آوارہ گردی کے مشن پر ہوتے ہیں۔ ابھی تک جانے کتنے ہزار کلو میٹر سفر کر چکے کوئی اندازہ نہیں، نیشنل ہائی وے، سپر ہائی وے، مکران کوسٹل ہائی وے، آر سی ڈی ہائی وے، انڈس ہائی وے اور ساری ہائی ویز کی سردار قراقرم ہائی وے ہمارے قدموں اور ٹائروں کی سنگت سے سرفراز ہوچکی ہیں اور بھی کئی چھوٹی بڑی سڑکیں ہمارے قدموں تلے پامال ہوئی ہیں۔
کیا کبھی آپ نے کسی سڑک کو غور سے دیکھا ہے، ہم سڑکوں کو ایک استعمال کی چیز سمجھتے ہیں، بس گزر جاتے ہیں۔ کہیں سے ٹوٹی ہو، ادھڑی ہو تو اس کے کرتا دھرتاوں کی شان میں باآواز بلند گستاخی کر کے دل کے ارمان پورے کر لیتےہیں۔ لیکن کبھی سڑک کو غور سے نہیں دیکھتے۔ کہ وہ ہمیں کیا کہانیاں سناتی ہے۔ اگر کوئی سننے والا ہوتو سڑک خاص کر شاہراہیں اوران پر پڑے نشان کتنی ہی کہانیاں سناتے ہیں۔
کہیں ٹائروں کے سڑک پر گھسٹنے کے نشان کسی ایمرجنسی بریک کی کہانی سناتے ہیں ۔ شاید کوئی جانور کسی گاڑی کے سامنے آگیا ہوگا۔ یا کسی نے غلط کراس کرنے کی کوشش کی ہوگی، یا اچانک کسی سائیڈ کی روڈ سے اچانک مین روڈ پر آنکلا ہوگا۔ اور ڈرائیورنے اسے بچانےکی پوری کوشش کی ہوگی۔ لیکن سڑک پر خون کے داغ یہ بتاتے ہیں کہ اس کی یہ کوشش شاید نا کام رہی یا شاید ڈرائیور کو نیند کا جھونکا آگیا ہوگا یا شاید بریک فیل۔
سڑک پر ایک گہری ترچھی لکیر کسی ٹرالر یا ٹینکر کے ٹائی راڈ ٹوٹنے کی خبر دیتی ہے۔ جانے اس ٹرالر اوراس کے ڈرائیور پر کیا بیتی ہوگی۔ کہیں سڑک پر آئل بہنے کا نشان کسی آئل ٹینکر کے ایکسیڈینٹ کی داستان سناتا ہے۔
سڑک پر اڑتا بھوسا گندم کی فصل کٹنے کی خبر دیتا ہے۔ جبکہ گنے کی کٹائی کے موسموں میں ٹرالیوں سے گرا گنا دوسری گاڑیوں کے پیروں تلے روند کر سڑک پر اپنے رس کے نشان چھوڑ جاتا ہے۔ کبھی ٹماٹر کی فصل اپنے نشان سڑک پر چھوڑ جاتی ہے۔
کبھی کسی سڑک پر کہیں کوئی بھی نشان، کوئی سنگ میل نہیں ہوتا جو آپ کو منزل کا پتا دے۔ اور کہیں کسی سڑک پر لگے سائن بورڈ اور مائل اسٹونز آپکو اپنائیت کا احساس دلاتے ہیں کہ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ کوئی ہے جسے آپ کی پرواہ ہے کہ آپ خیریت سے اپنی منزل کو پہنچیں۔
کہیں سیاہ تارکول کی سڑک پر لگے ٹریفک کے نشان اور کیٹ آئیزکے ساتھ ایک خوش وخرم، گرم جوش سڑک آپ کو بخیر و عافیت گھر پہنچانے پر آمادہ نظر آتی ہے ۔ تو کہیں ٹوٹی پھوٹی سڑک ارباب اختیار کی لاپرواہی پر شکوہ کناں نظر آتی ہے۔
کسی شاہرہ کے کنارے پڑا کسی گاڑی کا ڈھانچہ لمحہ بھر کو ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر کا باعث بنتا ہے۔ جانے اس گاڑی کے مسافروں پر کیا گزری ہوگی، بچ گئےہونگے یا خدانخواستہ۔ ۔ ۔ کسی شاہراہ کی ٹوٹی ہوئی Railing ڈرائیور کی لاپرواہی اور اجل کی برق رفتاری کی نشاندہی کرتی ہے۔
کہیں کسی درخت یا جھاڑی نے اپنی بانہیں سڑک پر پھیلائی ہوتی ہیں تو کہیں صحرا کی ریت سڑک پر اپنا حق جتا رہی ہوتی ہے۔ کہیں پچھلی بارش کے پانی اپنا نشان چھوڑ گئے ہیں۔ اور کہیں دور ہونے والی بارشوں کے پانی سڑک پر اپنے دستخط فرما گئے ہیں۔
شہروں میں توسڑکوں کو تجاوزات ہڑپ کرگئی ہیں، بچی کھچی سڑک کو آئے دن کوئی نہ کوئی محکمہ اپنے ذوق ترقی کو پورا کرنے کو ادھیڑ ڈالتا ہے، سال میں ایک آدھ بار بجٹ ٹھکانے لگانے کی غرض سے جا بجا پیوند لگا کر مزیدرولر کوسٹر رائیڈ کا انتظام کردیا جاتا ہے۔
سڑکوں کی اصل خوبصورتی شہروں سے باہر نکلنے پر نظر آتی ہے۔ جب کھلی وسعتوں میں سیاہ سڑک تا حد نگاہ بچھی نظر آتی ہے، کہیں سیدھی، کہیں لہراتی ہوئی، کہیں یک دم نشیب میں، تو کہیں ڈوب کر پھر سے ابھرتی ہوئی۔کہیں کسی موڑ پر یک دم غائب ہوجاتی ہے جیسے سفر کا اختتام آگیا ہو، لیکن موڑ مڑتے ہی پھر سے نئی وسعتوں کی طرف رواں دواں۔
"کھلی سڑک کی رفاقت سی کوئی رفاقت نہیں" محمد خالد اختر |