Tuesday, November 27, 2012

ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے



عرب گوشت کے شوقین ہوتے ہیں، کسی کھانے میں اگر گوشت شامل نہ ہو تو اسکو کھانے میں گنتے ہی نہیں، کھانا تو دور کی بات، دوسری نظر بھی نہیں ڈالتے۔ خاص کر سعودی عرب کے لوگ کھانے کی سب سے زیادہ بے حرمتی کرتے ہیں، ان کے ہاں بچا ہوا کھانا سنبھال کر رکھنے کا رواج نہیں ہے، ایک پلاسٹک شیٹ بچھا کر اس پر کھانا کھاتے ہیں کھاتے ہوئے اپنے علاوہ سب کے سامنے سے کھاتے ہیں، دسترخوان پر کھانا جی بھر کر گراتے ہیں، آخر میں جو کھانا بچ جائے اسی پلاسٹک کے دسترخوان پر الٹ کر سیدھا کچرے کے ڈبے میں۔
یورپی سمجھتے ہیں کہ صرف یورپی ہی تہذیب یافتہ ہیں، باقی اقوام نے اس اسکول کا منہ بھی نہیں دیکھا جہاں یہ نصاب پڑھایا جاتا ہے سب سے زیادہ کوتاہ نظر قوم یورپی ہی ہیں، انھیں بس یہ پتہ ہے کہ یورپی موسیقی ہی بین الاقوامی موسیقی ہے، یورپی اقدار و ثقافت ہی ساری دنیا کی اقدار و ثقافت کو ناپنے کے پیمانہ ہیں، ایک صاحبہ نے صرف اس بنا پر مجھے صاف لفظوں میں جاہل کہہ دیا تھا کہ میں نے انہیں یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ یورپ دنیا کا ایک براعظم ہے پوری دنیا نہیں ہے، اسکے علاوہ دنیا میں پانچ براعظم اور ہیں جن کی اپنی ثقافت اور موسیقی ہے [وہ ٹی وی پر ایک انگریزی کلاسیقی موسیقی کا پروگرام دیکھنے پر مصر تھیں جبکہ میں اگلے دن کے پرچے کی تیاری پر]۔ان کے لئے گویا منفی درجہ حرارت میں منی سکرٹ پہننا عین تہذیب ہے جبکہ چالیس ڈگری میں عبایا اور حجاب پہننا جہالت اور ظلم۔

اس معاملے میں ہم مسلمان زیادہ روشن خیال ہیں، کسی عرب یا غیر عرب مسلمان نے کبھی کسی کرسچن یا یورپی خاتون کے لباس پر اعتراض نہیں کیا، لیکن انہیں مصریوں کے اور میرے معصوم سے سکارف پر ہمیشہ اعتراض، یا ہمدردی رہی کے ہم نے چالیس ڈگری میں سکارف کیسے برداشت کیا ہوا ہے، سعودی خواتین پردے کے بارے میں انکی رائے نہ درج کی جائے تو بہتر ہے [عقلمند کو اشارہ کافی ہے]۔

توہم پرستی پر صرف ہماری {مشرق کی} اجارہ داری نہیں ہے۔ بنگلادیشی ہم جماعت کے ساتھ بنگال کے کالے جادو{زلف بنگال} کے بارے میں میری گفتگو{اردو میں} سن کرایک محترمہ ایمان لے آئیں کہ مجھے کالا جادو آتا ہے، اور میں جو نماز{جمعےکے جمعےہی سہی} پڑھتی ہوں تو دراصل کالا جادو کرتی ہوں کہ وہ امتحان میں مجھ سے بہتر نمبر نہ لے آئیں، میرے کالے جادو کے توڑ کے لیے انھوں نے کسی چرچ سے ایک موم بتی کا انتظام کیا، جب تک میں انکے کمرے کے باہر بالکنی میں بیٹھ کر پڑھتی رہتی، انکی شمع جلتی رہتی۔ یاد رہے وہ خاتون یورپ کی اعلیٰ تعلیم یافتہ گائناکولوجسٹ تھیں، اور اپنے ملک میں ایک اہم سرکاری عہدے پر فائز تھیں۔ 

افریقیوں کو کھانے کا 'ہوکا' ہوتا ہے، چار فٹ اونچی اور چھے انچ قطر کی خاتون ہر ہفتے چار کلو آلو، دو کلو ٹماٹر، پانچ کلو پاستا، تین کلو مختلف قسم کے اناج با آسانی ختم کرکے اگلے ہفتے پھر سے خریداری کے لیے 'ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم' کی تصویر بنی کھڑی ہوتی تھیں۔ افریقی ممالک میں امن و امان کی جو صورت حال ہے، اس کے باعث افریقی بے اعتبار سے ہوگئے ہیں، کسی پر بھروسہ نہیں کرتے، ٹوائلٹ بھی جانا ہو تو کمرہ لاک کر کے جاتے ہیں ۔

مصریوں اور پاکستانیوں کا اگر دھوکے بازی، مکاری، حرام خوری اور کام میں اڑنگے لگانے کا مقابلہ کروایا جائے تو ہم باآسانی شکست کھا جائیں گے، جب آپکوقیمت یا کرایہ پوچھنا ہے تو کسی دکاندار و ڈرئیور کو انگریزی نہیں آتی، لیکن اگر آپ نے ادائیگی میں کوئی کمی بیشی کردی تو ساری انگریزی سمجھ بھی آجاتی ہے اور بولنی بھی۔ ٹیکسی ڈرائیور سے اگر پوچھیں کہ لندن جانا ہے فورا" کہے گا ہاں راستہ آتا ہے، چلو، پچاس قدم چلنے کے بعد کسی نہ کسی سے راستہ پوچھنے کھڑا ہوجائے گا۔ میری تو خیر رہی کہ عربی ہندسوں سے کچھ واقفیت ہے، بیچارے یورپی اور افریقیوں کوابتدا میں ہر چیز کی کئی کئی گنا ادائیگی کرنی پڑی

سودانی [جی ہاں عربی میں 'ڈ' نہیں ہوتا تو یہ غریب ملک سودان ہے سوڈان نہیں]میرے تجربے میں سب سے دھیمے مزاج کی قوم ہے، عام طور پر حاجی صاحبان سودانی حاجیوں کے بارے میں جو کچھ بتاتے ہیں سودانی اس کے بالکل الٹ ہیں، کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کرتے، کسی لڑائی جھگڑے میں نہیں، انتہائی مہمان نواز، سلیقہ مند، مہربان، اور پرخلوص، ہرگھڑی مدد کے لئے آمادہ۔ سودانی موسیقی عرب خاص کر مصری موسیقی کے مقابلے میں لوک، مترنم، کانوں میں رس گھولنے والی ہے،جیسے دریائے نیل کے پانیوں کی روانی جبکہ موجودہ مقبول مصری گانے اس طرح کے ہیں جیسےدو ٹرک آپس میں ٹکرا جائیں ایک میں دودھ کے خالی ڈرم بھرے ہوں اور دوسرے میں مویشی۔ سودانی موسیقی سنتے ہوئے اگر آپ سوجائیں تو آپکا قصور نہیں ہوگا-

پاکستانی سب سے اچھے طالبعلم ہوتے ہیں، لکچر میں پروفیسروں کا سوال کر کر کے حلیہ بگاڑ دیتے ہیں،جب بھی کوئی استاد سوال کرتا ہے، کلاس میں بس انہی کی آواز آتی ہے [عرب تعلیمی نظام میں طالبعلم کو سوال کرنا یا بولنا نہیں سکھایا جاتا اور غالبا" معیوب سمجھا جاتا ہے} کلاس میں بس وہی پڑھے لکھے ہوتے ہیں یا افریقی، جب باقی سب موج مستی کر رہے ہوتے ہیں یہ پڑھائی کر رہے ہوتے ہیں 

جن ملکوں/ اقوام کو بیرونی اور اندرونی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا، جارحیت انکے مزاج کا بلکہ جینز کا حصہ بن گئی ہے، جس کااظہار وہ دوسروں سے جارحانہ رویہ اختیار کر کے کرتے ہیں۔

منیر شامی کے ملک شام کا اصل سرکاری نام سوریا ہے شام ایک علاقائی خطے کا نام ہے جس کا سوریا ایک رکن ہےدیگر ارکان میں لبنان، فلسطین وغیرہ شامل ہیں جبکہ مراکش کا اصل عربی نام 'مغرب' ہے، مصر کا اصل عربی تلفظ زبر کے ساتھ ہے نہ کہ زیر کے ساتھ۔

یورپی مسلمان مذہب کے معاملے میں مرزا غالب کے ہم خیال ہوتے ہیں، یعنی بلانوش تو ہوتے ہیں، لیکن خنریر کو حرام سمجھتے ہیں [بالکل ہی کافر سمجھ لیا ہے کیا] مسلمان خواتین کا کہنا ہے کہ ابھی انکا اسلامی احکامات جیسے کہ پورے کپڑے پہننا، سکارف لینا، نماز پڑھنا وغیرہ پر عمل کرنے کا ٹائم نہیں آیا، ہاں روزہ رکھنا آسان کام ہے، کچھ کرنا نہیں پڑتا بلکہ بندہ کچھ فارغ سا ہوجاتا ہے، تو روزہ رکھ لیتی ہیں، خواہ دن بھر ہاسٹل میں سوئیمنگ سوٹ میں ٹہل قد می کر کر کے دوسروں کا روزہ مکروہ کرتی رہیں اور افطارریڈ وائن سے ہو۔


کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ اپنی پوری انگریزی لغت صرف کرکے اپنی آرمینیائی دوست کو 'توا' سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں آخر میں تنگ آکر کہتے ہیں کے جس آہنی دائرے پر ہم دن میں تین وقت 'بریڈ' پکاتے ہیں اسے توا کہتے ہیں تو سامنے والی خوش ہوکر کہتی ہے کہ ہم آرمینیائی بھی اسے توا ہی کہتے ہیں۔ لو کرلو گل، مزید گل افشانی کرتی ہیں کہ ٹراوزر کو شلوار کہتے ہیں، باکس کو صندوق اور 'شیشہ' کو چلم کہتے ہیں کہ یہ سارے الفاظ ترکی زبان کے ہیں آرمینیا کسی زمانے میں ترکی کی کالونی تھا۔