Tuesday, November 27, 2012

زندگی کے ایٹم


جس طرح ایٹم کا ایک نیوکلئیس ہوتا ہے اور تمام الیکٹران اس مرکز کے گرداپنے اپنے دائروں میں چکراتے رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح انسانی زندگی بھی ایک مرکز اور دائروں پر مشتمل ہے۔ ہم انسان بھی مرکز میں رہتے ہیں اور اپنے ارد گرد دائرے بنا رکھتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہی اس رونق دنیا کا مرکز ہے باقی ساری دنیا اس کے گرد گھوم رہی ہے
سب سے پہلا دائرہ ہماری اپنی ذات کے گرد ہوتا ہے، اس دائرے میں ہم کسی اور کو داخل نہیں ہونے دیتے۔ اکثر لوگ تو اس دائرے میں خود بھی داخل نہیں ہوتے۔ اس دائرے میں صرف ہم ہوتے ہیں اصلی تے وڈے، صرف ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہم اصل میں کیا ہیں، کتنے انسان ہیں اور کتنے جانور، کتنے بامروت ہیں اور کتنے خود غرض۔ اگر آپ نے کبھی انتہائی ناگوار شخص کو انتہائی خوشگوار طریقے سے بھگتایا ہے تو آپ یقیناً اس دائرے سے سناشا ہیں اور اپنی اصلیت پر قابو پانے کے فن سے بھی آشنا ہیں۔ ویسے لوگ اس فن کو ڈپلومیسی بھی کہتے ہیں- اس دائرے کے اندر کوئی بناوٹ نہیں ہوتی کیونکہ ہمیں عموماً خود سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

دوسرا دائرہ ایک کمفرٹ زون پر مشتمل ہے، جس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جن کے ساتھ آپ آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔ ہر شخص کا اپنا کمفرٹ زون ہوتا ہے، کوئی اس میں فیملی اور قریبی دوستوں کو شامل کرتا ہے، کوئی صرف فیملی اور کچھ صرف دوستوں کو۔ اس دائرے میں کم سے کم منافقت ۔۔۔ سوری ، ڈپلومیسی کی ضرورت پڑتی ہے۔ کیونکہ ہم اس اطمینان یا غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم جو چاہیں یہ بیچارے ہمیں کبھی 'ڈس اون' نہیں کریں گے۔

اگلے دائرے میں ہمارے ملنے جلنے والے، جان پہچان والے، السلام و علیکم و علیکم السلام والے دوست، کلاس فیلوز اور آفس کے کولیگز شامل ہوتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ منافق ۔۔۔ اوہو ، میرا مطلب ہے سب سے ڈپلومیٹک دائرہ ہے، ہم سب سے زیادہ تمیز دار، با ادب با ملاحظہ، ہوشیار خبردار اسی دائرے میں ہوتے ہیں۔یہی وہ دائرہ ہے جس کے بارے میں ہم یہ سوچتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ آپ نے وہ مثال تو سنی ہوگی کہ سات گھرتو چڑیل بھی چھوڑ دیتی ہے تو وہ سات گھر یہاں پر ختم ہوتے ہیں۔ 

اس دائرے کے باہر ایک دنیا ہوتی ہے،جس کو ہم سے اور ہم کو جس سے کوئی خاص غرض نہیں ہوتی، یہ صرف وقتی طور پر بطور تماشائی آپ کی طرف متوجہ ہو تی ہے اور تماشا ختم ہونے کے بعد نئے تماشے کی تلاش میں آگے بڑھ جاتی ہے۔ سات گھر چھوڑ کر چڑیل ان ہی کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ سب سے اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو اصلیت ہم نے سب سے اندرونی دائرے میں قید کر کے رکھی ہوتی ہے اسے ہم یہاں استعمال کرتے ہیں کیونکہ ہمیں جواب دہی کا خوف نہیں ہوتا ۔مشتعل ہجوم میں شامل افراد اپنے دائروں سے باہر نکل کر املاک ، افراد ، انسانوں حتیٰ کہ جانوروں کو بھی نہیں بخشتے۔ ۔

ایٹم کے اندرونی دائرے میں صرف دو الیکٹران ہوتے ہیں اگلے میں آٹھ اور اس سے باہر یہ تعداد بڑھتی جاتی ہے، سب سے بیرونی مدار میں پائے جانے والے الیکٹران آوارہ گرد سے ہوتے ہیں اور دوسرے ایٹموں کے آوارہ الیکٹرانوں سے میل جول بڑھا لیتے ہیں اسی طرح ہم انسانوں کے گرد پائے جانے والے افراد ان دائروں میں اندر باہر ہوتے رہتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ کچھ لوگ ملنے جلنے والے دائروں سے سفر کرتے ہمارے کمفرٹ زون میں داخل ہو جاتے ہیں اور کچھ ترقیِ معکوس کرکے دائروں سے تو کیا ہماری زندگی سے ہی بیدخل ہوجاتے ہیں۔