Sunday, November 25, 2012

ڈنڈے کے زور پر عقیدوں کی درستگی

آجکل عقیدوں کی درستگی پر بہت زور ہے، ہر شخص لٹھ لے کر دوسروں کے عقیدے درست کر وا رہا ہے۔ "اگر مسلمان ہو تو اس پوسٹ کو لائک کرو" ۔ 

میرا عقیدہ جو بھی ہو، وہ میرے اور اللہ کے درمیان ہے۔ اگر میں درست ہوں تو مجھے کوئی ڈر نہیں، اگر تم درست ہو تو تمہیں فکر نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ ہم دونوں کو اللہ کے منصف ہونے پر یقین ہے نا، تو وہ سزا دے گا مجھے یا جزا ، یہ تمھارا concern نہیں ہونا چاہئے۔ 

جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا برائی کو ہاتھ سے روکو، نہیں تو زبان سے، ورنہ دل میں برا سمجھو، اور یہ سب سے کمزور ایمان کی نشانی ہے، اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی تو کہا تھا کہ دین میں جبر نہیں ہے، اس نے یہ بھی تو کہا تھا کہ جو چیز تمہیں شک میں ڈال دے اسے چھوڑ دو، اور جس پر تمہارا دل مطمعین ہو اسے اپنا لو۔ تو ہم صرف لوگوں کو صحیح اور غلط بتا سکتے ہیں سیدھا راستہ دکھا سکتے ہیں لیکن زبردستی اس پر چلا نہیں سکتے۔
اگر تمہیں شب برات نہیں منانی نہ مناو، لیکن دوسروں کو اس بات پر کافر نہ ٹھہراو۔ جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا تھا کہ دین میں اختراعات نہ کرنا اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جشن ولادت پر وہ رن برپا ہوتا ہے کہ الاماں۔ جب بات بدعت پر آتی ہے تو صرف شب برات ہی کیوں، کونڈے، محرم گیارھویں، ربیع الاول سب اسی لائن میں ہیں، نیاز، فاتحہ، سوئم، چالیسواں۔

کسی کو یہ اختیار نہیں کہ مجھ سے پوچھے کہ do you believe in this or that کسی بندے کا اس سے کیا لینا دینا، اور اللہ کو اس 'واسطے' کی ضرورت نہیں ، وہ دلوں کے بھید بہتر جانتا ہے۔ اور یہ کہاں لکھا ہے کے کسی نے یس نہیں کیا تو اسکا مطلب نو ہے۔ 

اگر آپ اس زعم میں رہے کہ میں تو راہ راست پر ہوں، دوسرے غلط ہیں، میں جنتی اور دوسرے جہنمی، تو اللہ تعالیٰ کو آپ کے عقیدے کی ضرورت نہیں۔تکبر اور ایمان اکھٹے نہیں ہو سکتے۔ ہاں اگر آپ راہ راست پر ہو، اور شکر ادا کرتے ہوکہ اللہ نے ہدایت دی، تو یقین رکھو کہ اللہ دلوں کا حال جانتا ہے اور بہتر عدل کرنے والا ہے۔

تضاد کا مطلب ایک کا درست اور دوسرے کا غلط ہونا نہیں ہے، دو مختلف چیزیں درست ہو سکتی ہیں، رات اور دن ، دھوپ اور چھاوں۔ سنّیوں کے چار بڑے فقہ/عقیدے ہیں اور چاروں ہی درست ہیں۔ ان کی اپروچز مختلف ہیں پر مقصد ایک ہی ہے۔

میرے عقائد جو بھی ہوں جب تک ان سے کسی اور کو نقصان نہیں پہنچتا ، کسی اور کی حق تلفی نہیں ہوتی، کسی کو اس میں مداخلت کا حق نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ڈنڈے کے زور پر تو کلمہ نہیں پڑھاتے تھے۔ 

ہم ہنود کے ساتھ ایک ٹیبل پر بیٹھ جاتے ہیں، عیسائیوں کے ساتھ ڈنر کر لیتے ہیں، یہودیوں کا تو ذبیحہ تک ہمارے لئے حلال ہے، لیکن جس مسلمان کے چند عقائد ہم سے مختلف ہیں ، انکو ہم واجب القتل قرار دے دیتے ہیں۔

جو محرّم یا ربیع الاول کے جلوسوں اور لاوڈ اسپیکرز سے دوسروں کی زندگی حرام کرتے ہیں ان سے کبھی شکایت نہیں کرتے، کیونکہ وہ ہمیں توہین رسالت کا مجرم قرار دے کر سنگسار کر دیں گے۔ لیکن جو چند لوگ مسجد میں بیٹھ کر نفل عبادت کرتے ہیں اور مرحومین کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں ان کے پیچھے ہم لٹھ لے کر پڑ جاتے ہیں۔