Saturday, July 5, 2014

فرمائشی سفرنامہ

شل مکھی، نانگا پربت

سمیرا: نسرین تم فیری میڈوز جا رہی ہو، کوئی اکسائٹمنٹ نہیں،کہاں کہاں جانے کا پروگرام ہے، کون کون سے پوائنٹ کور ہونگے تمہارے ٹرپ میں، تم کچھ بھی شئیر نہیں کر رہیں۔ 

میں: یار مجھے کوئی ایکسائٹمنٹ نہیں ہو رہی تو میں کیا کروں۔ روزانہ تو پروگرام کا شیڈول بدل جاتا ہے۔ کیا بتاوں کہاں جا رہی ہوں پہلی بار اس طرف جارہی ہوں تو جہاں بھی جانا ہوگا، جو بھی دیکھوں گی پہلی بار ہوگا، اور خوبصورت ہی ہوگا۔ 

کبھی کبھی مجھ پر بیزاری کا ایسا دورہ پڑتا ہے کہ ہر چیز "بس ٹھیک ہی ہے" نظر آنے لگتی ہے، اور اتنی "عقلمندانہ" گفتگو کرنے لگتی ہوں کہ خود کہ بھی یقین نہیں آتا۔ اس وقت ایسا ہی ٹھنڈ پروگرام تھا۔ سمیرہ بجا طور پر ایکسائٹڈ تھی۔ سمیرہ پہاڑوں کی دیوانی لڑکی ہے۔ لیکن وصال یار سے اب تک محروم ، اب اسکی بیشٹ گرل فرینڈ پہاڑوں کو جارہی تھی تو اسکا جوش میں آنا بنتا تھا۔ 
خیر ہم آٹھ افراد ٹرین میں تھے، دو جانے پہچانے اور باقی انجان، اور ہم سب پنڈی جا رہے تھے، چاچا جی کے نقش قدم پر چلنے، ہم میں سے چار پہلے کسی ایسے ٹرپ پر نہیں گئے تھے اور بہت کچھ یا کچھ نہ کچھ دیکھنے کی ہوس رکھتے تھے، ایک نے ایک یا دوبار دیکھا تھا اور سہ بارہ دیکھنے کی ہوس تھی، کچھ کو زبردستی اس ٹرپ میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ بھان متی کا کنبہ پنڈی جاتے ہوئے اس خوف میں مبتلا تھا کہ مہم کے نائب ناظم سمیت دو ارکان پنڈی ٹائم پر پہنچ سکیں گے یا نہیں۔

میرا جغرافیہ بالکل بھی اچھا نہیں ہے۔ اور اس ٹور کے بعد تو با لکل چکرا گیا ہے۔ صرف میرا ہی نہیں گروپ لیڈر کا جغرافیہ بھی چکرا گیا تھا، بشام موٹل کے پائیں باغ سے شیر دریا کا نظارہ کرتے ہوئے ارشاد ہوا کہ دریا الٹا بہہ رہا ہے، گروپ لیڈر کے پچھلے دورے میں یہ دائیں سے بائیں سمت بہہ رہا تھا، جس پر گروپ لیڈر کو تسلی دی گئی کہ دریا وہیں کا وہیں بہہ رہا ہے، بشام موٹل شاید دریا پار کر کے اس طرف آگیا ہے۔ لیکن یہ جملہ سفر کے دوران ہر ندی نالے کی رونمائی پر بازگشت کرتا رہا۔ جس سے سب سے زیادہ مزہ لیڈر نے ہی لیا۔ دوران سفر بارہا اس امر کا بھی مشاہدہ کیا گیا کہ دریا کی موجیں ایسا تاثر دیتی ہیں کہ دریا جس سمت بہہ رہا ہوتا ہے اسے مخالف بہنے کا گمان ہوتا ہے۔
جہاں دریا الٹا بہہ رہا تھا، کاپی رائیٹڈ تصویر

مینڈک کنویں سے پہلی بار باہر نکلا تھا، تو اسکو سب "اچھا اچھا" ہی لگنا تھا۔ پر جو پہلے بھی کنویں سے باہر کی سیر کر چکے تھے گواہی دیتے تھے کہ جنت یہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اتنی وسیع دنیا بنائی، اتنے عظیم پہاڑ، وسیع صحرا ، لامتناہی سمندر، اتنا کچھ اور دیکھنے کو صرف ایک ایک انچ کی دو آنکھیں ۔ ۔ ۔ قسم سے کھلا تضاد ہے، اور اس پر طرّہ یہ کہ دونوں ایک وقت میں ایک ہی منظر دیکھتی ہیں۔ جو دونوں میں سما نہیں پاتا۔

فیری میڈوز

رائے کوٹ پل سے تاتو گاوں تک جیپ ٹریک پل صراط کی پریکٹس کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ پل صراط کم از کم خط مستقیم میں تو ہوگا اور اسپیڈ اور بریکوں کا کنٹرول بھی اپنے پاس ہی ہوگا۔ شروع میں تو عالم بالا و پست دونوں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوتے ہیں کہ بیک وقت اتنی بلندی اور اتنی پستی دیکھ کر سر چکرانے لگتا ہے۔[ خاص کر آپ کے بائیں پڑوسی کا جو بےچارہ جیپ کی سائیڈ سیٹ پر سیٹ ہونے کی کوشش میں ہے۔ خواتین ہونے کا کہیں کہیں فائدہ بھی ہو جاتا ہے۔] پھر دھیرے دھیرے سیاہ اور سفید الگ ہوتے ہیں۔ اور ایسے ایسے نظارے کہ کیا کہیئے۔
جیپ ٹریک پر ہمارا ڈرائیور پچھلی جیب کے انتظار میں

تاتو سے فیری میڈوز تک کا ٹریک پیدل ٹریک جتنا حسین ہے اتنا ہی خطرناک بھی، خاص کراگر آپ پہلی بار کراچی جیسے سمندر دوز شہر سے آئے ہوں اور آپکا زندگی میں کبھی ورزش نامی شے سے سابقہ نہ پڑا ہو۔ ٹریک پر نظریں اٹھائیں تو نانگا پربت سامنے، منہ موڑ لیں تو راکا پوشی معہ خاندان، ارد گرد جنگل، پہاڑ،جھرنے ، بکریاں، پھول، لیکن بہت خاموشی سے ٹریک بلند ہوتا جاتا ہے، کہیں کہیں تو سکڑ کربس اتنا رہ جاتا ہے کہ ایک پاوں ہی ٹکایا جاسکے، ایک دو مقامات پر اس قدمچی کی سہولت بھی جھڑ چکی ہے۔ چلتی کو اور پھسلتی بنانے کے لئے رولنگ اسٹون بھی فراوانی سے مہیا ہیں۔
فیری میڈوز ٹریک پر مڑ کر دیکھنے والا پتھر کا ہوسکتا ہے

ہمیں یقین ہے کہ دوران حج اتنے گناہ معاف نہیں ہوتے ہونگے جتنے فیری میڈوز کے راستے میں ہوجاتے ہیں ۔ وہاں حاجی کا لقب بھی ملتا ہے یہاں کم از کم فیری میڈوز ہو کر زندہ واپس آجانے والی خواتین کو اپنے نام کے ساتھ 'پری' لگانے کا حق تو ملنا چاہئے۔ حضرات اپنے نام کے ساتھ 'جن' لگانا چاہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

دورانِ سفر من و تو، مرد و زن اور چھوٹے بڑے کی کوئی تفریق نہیں رہتی،لہذہ گلاس تو کیا بوتل اور پانی تک جھوٹا نہ رہا۔ اس لیے نہیں کہ ہم ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوگئے تھے، بلکہ اس لیے کہ زندگی بہت پیاری شے ہے، اگر آپ دوسرے کے پانی سے یا بوتل سے کراہت کرتے ہو تو مرو، اور ضرور مرو گے۔ کیونکہ ہر دو قدم پر آپکا سانس پھول جاتا ہے، پتہ ہی نہیں چلتا کہ سانس آرہاہے، یا جا رہا ہے ،یا کہیں اور ہی نکل پڑنے والا ہے۔ منہ کھول کر سانس لینے سے گلا خشک اورزبان باہر آجاتی ہے، اس پر بھی اگر آپ نے نخرے دکھانے ہیں تو اس سے آپ کے سوا کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب آپ کو اپنی ذات میں کمینگی اور شرافت کے تناسب کا پتا چلتا ہے اور دوسروں کی ذات میں بھی۔

پیدل ٹریکنگ کے دوران یہ بھی اندازہ ہوا کہ نئی نسل کے نوجوان کتنے "ذمہ دار اور خیال رکھنے والے" ہیں۔ پیدل ٹریک کے لئے صرف تین افراد نے ہی رسک لیا تھا جن میں ہم واحد خاتون تھے۔ اور ایک مرد ِ واحد اصلی تے وڈا ٹریکر تھا، باقی ہم دو بس شوقین تھے۔ دونوں حضرات کی تیز رفتاری کا ساتھ دینے کے باعث ہمارا سانس بار بار اکھڑ جاتا تھا تو ظاہر ہے وہی دونوں ہماری زار و قطار حالت کے" ذمہ دار" تھے۔ اور انہیں اندازہ تھا کہ ہماری فوتیدگی کی صورت انہیں کم از کم ڈیڑھ من اضافی بوجھ ڈھونا پڑے گا تو انہوں نے ہمارا اچھی طرح "خیال" رکھا کہ کہیں ہم دوران ٹریکنگ فوت ہی نہ ہوجائیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر یہ دونوں نوجوان نہ ہوتے تو ہم نے یقیناً ٹریک کے دوران فوت ہوجانا تھا۔ ۔ اللہ میاں ان کے بچے جئیں اور ۔ ۔ ۔

فیری میڈوز اور بیال کیمپ کے راستے میں رواج ہے کہ ہر ٹریکر گزرتے ہوئے ایک دوسرے کو سلام کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ شاید یہ اس علاقے کا مقامی رواج ہوگا جو ٹریکرز نے اپنا لیا ہے، مجھے اچھا لگا یہ رواج، قاہرہ کی یاد تازہ ہو گئی۔ راستے میں دو تین پارٹیاں ملیں ایک پارٹی کراس کر کے پیچھے گئی تو پیچھے سے آواز آئی کہ یار لوگوں نے فیری میڈوز کو اتنا آسان کیوں سمجھ لیا ہے، بدتمیز انسان صاف ہمارا مذاق اڑا رہا تھا کیوں کہ "بظاہر" صرف ہم ہی ہانپ رہے تھے۔ ایک اور پارٹی میں ایک صاحب کو وخت پڑا ہوا تھا ۔ ان کا اور انکے ساتھیوں کا خیال تھا کہ وہ نہیں پہنچ پائیں گے ۔ لیکن وہ بھی رات گئے پہنچ گئے اور غالباً پہلی اور آخری بار پہنچے تھے، یعنی توبہ تائب ہو گئے تھے۔

جب ہم فیری میڈوز پہنچے تو بس ہم ہی ہم تھے، لیکن صبح ہوئی تو کئی ایک غول نظر آئے جو زیادہ تر حضرات پر مشتمل تھے، اور دھوپ میں خود کو اور ہم پر اپنی آنکھوں کو سینکنے کے مشن پر تھے۔ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک مزید بحال کرنے کے لئے ہم نے ڈائریکٹ ان کی چوکڑی پر وارکیا اور ایک زور دار سلام جھاڑ دیا،[ یہ ایسے نظر باز حضرات کو لائن پر لانے کا تیر بہدف نسخہ ہے جو دور سے خواتین کو دیکھ کر ایک دوسرے کو متوجہ کرتے ہیں اور ان پر آپس میں کمنٹس پاس کرتے ہیں۔ سارا فسوں فاصلے کا ہوتا ہے، پاس جا کر انکی تسلی کر دو تو ریسپیکٹ کرنے کے علاوہ کوئی اور چوائس نہیں رہتی] ا ن کی نزولیت کے اوقات، اور آگے پیچھے کہاں سے ہیں، یہاں کیوں آئے ہیں وغیرہ وغیرہ دریافت کیا، پھر پوچھا کہ آپ میں سے کتنے تارڑ صاحب کی وجہ سے یہاں آئے ہیں۔ ہر گروپ میں کوئی نہ کوئی تھا جو تارڑ صاحب کی وجہ سے بہکا تھا اور اب اپنے ساتھیوں کو بہکا کر لایا تھا۔ ایک ملتان کے پروفیسر صاحب تھے جو اپنے لکچررز کو بھٹکا کر لائے تھے، ایک اسلام آباد کے ممی ڈیڈی بچوں کا گروپ تھا، جن کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ ممی نے تیار کر کے ابھی ابھی گھر سے باہر نکالا ہے۔ انہیں انکا کوئی مقامی دوست بہکا کر لایا تھا۔

فیری میڈوز میں گروپ کی ایک رکن کو ایک بکری سے پیار ہوگیا، اور بکری کو ان سے۔ بکری ہمیں یعنی انہیں واپسی کے سفر میں تقریباً دو تہائی راستے تک خدا حافظ کہنے آئی اور جب اسکو تسلی ہوگئی کہ اب ہم اسکی راجدھانی میں دخل در نا معقولات کرنے واپس نہیں آئیں گے تو وہ ایک اور گروپ کی گائیڈ بن کر واپس اوپر چلی گئی۔

ایک اچھی بات جو مشاہدے میں آئی کہ نیشنل ٹورزم ان علاقوں میں بڑھا ہے، اور اس میں اچھی خاصی تعداد نوجوان با اسکارف اور باشرع پردہ دار خواتین کی ہے۔ اس بار خاصے لوگ کراچی سے آئے تھے۔ شاید نیشنل ٹورزم سے خوش ہو کر ہی نانگا پربت مسلسل درشن دیتی رہی ۔ مقامی افراد کا کہنا تھا کہ آپ تو خوش قسمت لوگ ہو، ورنہ لوگ بیس بیس دن اس کے دیدار کے لیے رکتے ہیں اور یہ بادلوں سے ڈھکی رہتی ہے۔ تیسرے دن یہ حال تھا کہ ہم نانگا پربت سے قظعی بے رخی اختیار کر کے پیٹھ موڑ کے اطمینان سے ناشتہ کر رہے تھے کہ اس نے کہاں جانا ہے۔ واقعی قدر کھو دیتا ہے روز روز کا منہ دکھانا بھی۔

بیال کیمپ

فیری میڈوز پہنچ کر ہمارا خیال تھا کہ ہماراٹریکنگ فیوچر بس تمام ہوا، کیوں کہ ہمارے پھیپھڑے اگلے دن تک دہائی دیتے رہے کہ وہ اب فوت ہونے کو ہیں، ورٹیکل لمٹس کا منظر رہ رہ کر آنکھو ں میں گھوم رہا تھا جس میں ایک کو ہ پیما کے پھیپھڑوں میں ہائیٹ کی وجہ سے پانی بھر گیا تھا۔ پارٹی اگلے دن بیال کیمپ کا پروگرام بنا رہی تھی اور ہم سوچ رہے تھے کہ ہم ان خوش قسمتوں میں شامل نہیں ہو سکیں گے۔ لیکن اللہ بھلا کرے پارٹی لیڈر کا جس نے ہمیں حوصلہ دیا اور تیز رفتار ارکان کو ہر اول دستہ بنا کر آگے روانہ کر دیا۔ جو ہمارے سانس پھولنے کا سبب بن سکتے تھے۔ بقیہ پارٹی میں ہم ویسے ہی اسمارٹ ترین رکن تھے جیسے اندھوں میں کانا راجہ ہوتا ہے۔ بس پھر کیا تھا ہم سب سے آگے اور سب ہم سے پیچھے پیچھے۔ بیال کیمپ کا راستہ زیادہ تر میدانی چراگاہوں پر مشتمل ہے اور بہت خوبصورت ہے۔ 

کیونکہ ہماری ساتھی خواتین پیچھے رہ گئی تھیں تو اب راہ میں جو بھی پارٹی پکڑ میں آئی ہم نے ان کے ساتھ ٹریکنگ شروع کر دی۔ ہر ایک سے گپّین لگائیں ۔ بیال کیمپ اور آگے ویو پوائنٹ تک ہم نے تقریباً اتنے حضرات سے دوستیاں لگائیں جتنی خواتین سے چاچا جی نے ملا جلا کر اپنے سارے سفر ناموں میں ملاقات کی ہوگی۔ شاید ہمارا اسکور ان سے زیادہ ہی نکلے۔ ویسے بھی اس ٹور پر کسی نے ہمیں بتایا کہ خواتین مردوں سے زیادہ ٹھرّ کی ہوتی ہیں بس پتہ نہیں چلنے دیتیں۔

اب ہمارا کیا قصور کہ اس ٹریک پر زیادہ تعداد میں حضرات ہی پائے گئے ااور جو اکا دکا خواتین تھیں انھوں نے ہمیں گھاس نہیں ڈالی تو ہم نے وہی گھاس دوسروں کو ڈال دی۔ ویسے بھی ایک گروپ کی خواتین دوسرے گروپ کی خواتین سے ایسے کتراتی ہیں جیسے بیرون ملک پاکستانی پاکستانیوں سے۔ 

بیال کیمپ کے راستے میں دو گورے ملے جو واشنگٹن پوسٹ کے لئے پاکستان کے شمالی علاقوں میں ٹورزم پر مضمون لکھ رہے تھے۔ ایک کو پہاڑی ندی میں تاری لگانے کی سوجھی، اپنا تام جھام اتار کر گیا اور صرف ٹانگیں گیلی کر کے واپس آگیا پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ اسکی ٹانگیں "گم " ہو گئی ہونگی۔ خود ہم نے فیری میڈوز میں پہلے دن منہ دھویا تھا، دوسرے دن منہ پر پوچا مار لیا تھا اور تیسرے دن صرف برش کا تکلف کیا۔ کیوں کہ سارے گرم پانی سے ایک دن مہم کے نائب ناظم نے اور دوسرے دن ایک اور رکن نے ہمارے جاگنے سے پہلے ہی غسل فرما لیا تھا۔

بیال کیمپ پہنچ کر ہم نے ان ہی حضرات میں سے دو تین کو ویو پوائنٹ تک جانے کے لئے پٹایا کیونکہ ہماری ساتھی خواتین نے مزید آگے چلنے سے انکار کر دیا تھا۔ ہمارا ہراول دستہ پہلے ہی ویو پوائنٹ سر کر چکا تھا۔ ویو پوائنٹ پہنچ کر کچھ اپنے ساتھیوں کو دیکھ کر اور ویو کو دیکھ کر ہم اپنے عارضی ہم سفروں سے بیگانے ہوگئے۔ لیکن افسوس کہ ہم نانگا پربت بیس کیمپ تک نہ جا سکے۔ کیونکہ واپسی پر دیر ہوجاتی۔ اور خاصی دیر پہلے ہی ہو گئی تھی۔ اس کا اندازہ واپسی کے ٹریک میں ہوا جب صبح والے معصوم سے جھرنے عالم ِ غیض و غضب میں تھے۔ ویوپوائنٹ سے واپسی پر ہم میں سے کچھ کی نیت برفیں دیکھ کر پھسل گئی اور ہم نے زندگی میں پہلی بار لائیو برف یا برفانی تودے کی زیارت کی اور اس پر اپنی کاپی کیٹ سمیرہ کا نام لکھا اور اسے بہت سارا یاد کیا۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔

حصہ دوئم پڑھنے کے لیے کلک کیجئے

حصہ سوئم پڑھنے کے لیے کلک کیجئے

پاکستان میں سیاحت کا جائزہ