ہم ایک ایسی قوم ہیں جسے چھوٹے بچوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں. گذشتہ دو روز میں جتنے لوگ بھی محمد حسن غوری کو دیکھنے اور مبارکباد دینے آئے ہیں, سب نے بلا امتیاز فاطمہ سے یہ ضرور کہا ہے کہ " تمہارے منے/ بھائی کو ہم لے جائیں"
آپ کسی بچے سے اس کا من پسند کھلونا چھیننے کی دھمکی دے کر اس سے دوستی کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں.
اس سے پہلے بھی جو بھی فاطمہ سےملا, اسکے ہاتھ میں جو بھی کھلونا اس وقت تھا ہر بندے نے یہی کہا کہ یہ مجھے دے دو.فاطمہ کا فوری ردعمل یہ ہوتا ہے کہ اس بندے سے مزید بات کرنے سے انکار اوراسکی موجودگی میں خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے گود میں چڑھ جانا. چند ایک نے کہنے کے ساتھ اس کے ہاتھ سے وہ کھلونا لے بھی لیا اور فاطمہ اس پر رو پڑتی ہے.
"کسی کی جان گئی انکی ادا ٹھہری"
مطلب ہمارے پاس بچے سے بات کرنے کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی موضوع نہیں ہوتا.
ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کے خود فاطمہ کی عمر کے لگ بھگ ایک یا دو بچے موجود ہیں. گویا کسی نے بھی اپنے بچے کی نفسیات پر غور فرمانے کی زحمت نہیں کی تھی کہ بچے سے اسکا کھلونا لینے کی "دھمکی" پر بچے کاکیا ردعمل ہوتا ہے. اس سے بچے کے اس فرد سے تعلقات اور اس شخص کے بارے میں اسکی رائے کیسے متاثر ہوتے ہیں اور اسکے اسکی آئندہ زندگی پر کیا اثرات ہونگے.
پھرجب یہی بچے کل کو اسکول اوراپنے دوستوں میں چیزوں کی چھین جھپٹ میں ملوث ہونگے اور انکی شکایت آئے گی تو یہی والدین انکی دھنا دھن پٹائی کریں گے. اور انکو اس ر ویے میں مزید پکا کر کے مستقبل کے ڈاکو یا اسٹریٹ کرمنل کی بنیاد رکھیں گے.