Sunday, July 13, 2014

فرمائشی سفرنامہ: پارٹ ٹو

بیال کیمپ واپس پہنچ کر گروپ لیڈر نے چکن کڑاہی کھا کھا کر اک چکے لوگوں اور دانتوں کی تازہ دال چاول اور چشمے کے پانی سے تواضع کی۔ تھوڑے آرام اور کچھ خر مستیوں کے بعد واپسی کا قصد کیا۔ گائیڈ صاحب جانے ہمیں کن راہوں پر لے چلے۔ ان کے بقول اب شام ہو گئی تھی اور راہ راست یعنی اصل ٹریک پر موجود ندی نالوں کے ایمان بدعت کے باعث خراب ہو چکے تھے اور تابعین کو یقینی طور پر جہنم واصل کرنے کا باعث ہو سکتے تھے۔یہ آف ٹریک راہ نجات جنگلوں، ندی نالوں، چڑھائیوں، اور اترائیوں پر مشتمل تھی۔ تابعین کے صبر کا امتحان ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی تھی۔ راستے میں ایک دو مقامات واقعی ایمان کی مضبوطی کا باعث بنے۔ یہ اور بات کہ ان مقامات پر اندر کی سانس باہر اور باہر کی تو پہلے ہی باہر تھی۔ 
بیال کیمپ

زیادہ تر راستہ وال ٹو وال سبز قالین سے ڈھکا ہوا تھا، جس پر جا بہ جا نیلے، پیلے، اودے، جامنی، سرخ، سفید اور گلابی پھول نگینوں کی طرح ٹکے ہوئے تھے۔ حد تو یہ کہ سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی تو بن گیا روئے سنگلاخ پر کائی و فنگس وغیرہ وغیرہ۔ اور اس سبز قالین کے اندر ڈھلتے سورج کی کرنوں سے روپہلے ہوتے گلیشیائی پانی بہتے تھے۔ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں تھے [ میٹرک اور انٹر میں رٹا ماری ہوئی اردو شاعری ، ، ، تھینک یو]۔ جن میں رک رک کر کوئی پرندہ بولتا تھا، گنگ کردینے والی دلفریبی تھی۔ راہوں میں ہر سائز کے سیاہ رو گرینائیٹ کے پتھر جن میں چاندی کی آمیزش تھی، ہمارے جدید ترین خیال میں کلفٹن اور سی ویو کی ریت میں چاندی کی آمیزش کا سبب یہی بیال کیمپ کے پانی ہیں جو دریائے سندھ میں شامل ہو کر بلآخر بحیرہ عرب سے آ ملتے ہیں۔ یہاں سے ہم نے اپنی کاپی کیٹ سمیرہ کے لیے دو چھوٹے پتھر بطور تبرک چن لئے۔ گھر آکر سارا سامان چھان مارا، ندارد۔ شائد انہوں نے پستیوں کی طرف آنا قبول نہیں کیا اور ہماری آنکھ بچا کر وہیں کہیں ڈراپ ہوگئے۔

فیری میڈوز واپس پہنچ کر ہم پر ہول سوار ہوگئی، اگلے دن صبح سویرے ہمیں نیچے کوچ کر جانا تھا اور ہم نے ابھی تک تارڑ لیک کی زیارت نہیں کی تھی۔ ایک دو ارکان تو پہلی صبح ہی زیارت کر آئے تھے لیکن ہم سوتے رہ گئے تھے۔ چنانچہ بیال کیمپ سے واپسی کے بعد ہم جیسے ہی ہوش میں آئے، نائب ناظم کے سامنے منہ بسورا کہ ہمیں تارڑ لیک ابھی اور اسی وقت دیکھنی ہے، زندگی اور انسانی ارادوں کا کیا بھروسہ ، ہم دوبارہ آئیں نہ آئیں ۔ انھوں نے ایک مقامی بندہ پکڑکر ہمارے حوالے کیا یا ہمیں پکڑ کر اسکے حوالے کیا کہ ان کی خود کی ٹانگیں دہائی دے رہیں تھیں۔ مہم میں شامل سیکنڈ اسمارٹ ترین خاتون بھی ہمراہ ہوگئیں۔ جھیل دیکھ کر دل کو تھوڑا سا دھکا سا لگا۔ ہائیں ،،، یہ جھیل ہے۔ ہم سندھ والے، کلری، منچھر ، ہالیجی یا کم ازکم حب ڈیم کی جھیل دیکھ کر ہمارے تو جھیلوں کے معیار ہی بہت اونچے مطلب بہت چوڑے اور گہرے ہیں۔ فیری میڈوز لیک یا تارڑ لیک ہمارے لیے ایک جوہڑ یا بہت زیادہ ہی رومانٹک ہوں تو ایک تالاب سے زیادہ نہیں تھیں ۔ لیکن جناب صحبتِ عطّار تو چوُڑے کو بھی خوشبو دار کر دیتی ہے ۔ نانگا پربت کی صحبت اور عکس نے ان چنی منی جھیلوں کو سونا کر دیا ہے۔ ہم نے تارڑ لیک کی دو چار تصاویر لیں کہ سند رہے کہ "ہم بھی وہیں موجود تھے" اور واپس ہوگئے۔
تارڑ لیک اور ہمارا مہربان گائیڈ

اگلے دن پھر وہی پیدل ٹریک، وہی پل صراط کا چھوٹا بھائی جیپ ٹریک۔ ہمارے گروپ کے ساتھ ہی ایک اور گروپ نے ہمیں فیری میڈوز میں جوائن کرنا تھا جس میں مستنصر حسین تارڑ ریڈرز ورلڈ کے ایک ایڈمن اور ایک خاتون رکن شامل تھے لیکن وہ کچھ دیر سے چلے ، سو ہم جنت سے جاتے تھے اور وہ آتے تھے۔ ایک اوپر آنے والے گائیڈ نے ہمارے گائیڈ کو اطلاع دی کہ وہ لوگ غالباً چلاس یا بشام پہنچ گئے ہیں۔ ہمارے کان کھڑے ہوئے اور جیپ ٹریک پر ہم نے ہر گزرتی جیپ میں جھانکیاں مارنی شروع کر دیں۔ وہ تو نہ نظر آئے لیکن ایک جیپ میں سے ایک خاتون کو اترتے دیکھ کر ہمیں گمان ہو ا کہ سمیرہ اتر رہی ہے۔ خیر اُس گروپ سے ہماری ملاقات رائے کوٹ برج پر ہوئی۔ شکر ہے کہ اگلوں نے ہمیں پہچان لیا، کیوں کہ ہم خود کو نہیں پہچان پا رہے تھے۔ دعا سلام، خیریت کا تبادلہ کیا اور وہاں سے رما کے لئے براستہ استور ڈائریکٹ شوٹ لگائی۔

استور اینڈ رما لیک

استور روڈ ایک تنگ گھاٹی میں چلتی ہی جاتی ہے، یہ گھاٹی دراصل استور نالے کا راستہ ہے، جو اس نے پہاڑوں کے درمیان زبر دستی بنا لیا ہے۔ حضرت انسان نے اس کے ساتھ ایک سڑک کی جگہ بھی زبردستی کرید کرید کر نکال لی ہے۔ جو کبھی نالے کے دائیں ہوجاتی ہے اور کبھی بائیں ۔ کبھی نالے سے سینکڑوں فیٹ اوپر ہو جاتی ہے کبھی نالے کے لیول پر آجاتی ہے، جتنے کٹ اور ہیرپھیر نالا لیتا ہے، سڑک بھی اتنے ہی چکر کھا تی ہے، اور اس پر سفر کرنے والے بھی۔ استور نالے کو نالہ کہنا بھی نالے کی بزتی ہے، کیوں کہ اتنے ہٹے کٹے دریا کو نالہ کہنا ہرگز نا مناسب ہے۔ بلکہ حرام ہے۔ یہاں بھی دریا الٹا بہتا نظر آتا تھا۔ لیکن اب استور روڈ نو مور فل آف چکورز 
روڈ ٹو استور ، استور سے واپس آتے ہوئے

اللہ کی قدرت کے جتنے حسین رنگ ، چوٹی در چوٹی پہاڑی تسلسل، مختلف النوع پتھر مٹی اور چٹانوں کے مرکبات اور نمونے اس روٹ پر نظر آتے ہیں اور کسی راستے پر نہ تھے۔ کہیں کہیں ان سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان کسی چٹان پر نخلستان معلق نظر آتے تھے، اس پر بارش اور ہوا کی کرامات سے تراشے ہوئے ریتیلے پہاڑوں پر بنے ہوئے مجسمات ، اللہ اللہ ، ایک ٹریکر تو ٹیم لیڈر سے کہ اٹھا کہ یہ آپ ہمیں کہاں لے آئی ہیں۔استور سے رما تک کا ٹریک تاتو جیپ ٹریک کا ہی بھائی ہے۔ لیکن تاتو سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ استور – رما ٹریک سر سبز و شاداب ہے، پھولوں، پھلدار درختوں اور کھیت کھلیان سے لدا ہوا ہے۔ لیکن ہے اتنا ہی خطرناک۔

اب تک کے تمام شنگریلاز اور پی ٹی ڈی سی موٹلز اچھے تھے لیکن رما پی ٹی ڈی سی ہمیں سب سے زیادہ پسند آیا تھا ۔ ارد گرد کی نسبت ایک اونچے ٹیلے پر تشریف رکھتا تھا ، پیچھے چھوٹا سا جنگل اور اسکے درمیان میں وہی ایک چنی منی لیک۔ سامنے ایک وسیع میڈوز جو نانگا پربت کے کسی چہرے کے قدموں میں موجود جنگل تک پھیلی تھی۔ میڈوز کے تقریباً درمیان سے ایک سنہری رنگ نالہ گزرتا ہے جس کے بارے میں تحقیق جاری ہے کہ آیا یہ ستو تھا یا شمپو۔
رما میڈوز ، نانگا پربت اور شمپو یا شہد کی نہر

رما میں علیٰ الصبح پھر وہی واردات ہوئی جو فیری میڈوز میں ہوئی تھی۔ یعنی گرم پانی غائب، اس بار چوروں کو مور پڑ گئے تھے، اور پڑوسی حضرات کے پڑوس میں مقیم آٹھ عدد حضرات صبح کے چار بجے ہی تمام گرم پانی سے غسل فرما چکے تھے، دل کو تھوڑی تسلی ہوئی کہ ہم نہیں تو تم بھی نہیں۔ لیکن اس پر ہماری گروپ لیڈر موٹیل کے عملے پر ٹھیک سے گرم ہوگئیں اور سب کا " تتّہ پانی" بند کروا دیا جب تک انکے باتھ روم میں گرم پانی نہیں آگیا۔ آپ ناشتے سے بھی فارغ ہو گئے ہوں ، بقیہ پارٹی نہانے دھونے کی ہی فکر میں ہو اور اتنی وسیع میڈوز سامنے ہو تو بندہ غتربود ہو ہی جاتا ہے ۔ لہذہ اتنی ہری ہری دیکھ کر ہم سمیت تین پریاں بکریاں ہوگئیں۔ گو کہ میڈوز کے گرد خاردار باڑھ سمیت ایک بورڈ بھی کہتا تھا کہ ٹریس پاسنگ منع ہے، لیکن بکریوں پر کون پابندی لگا سکا ہے۔ 

ہمارے گروپ کو با آسانی تین سب گروپس میں تقسیم کیا جاسکتا تھا، حقہ پانی گروپ، دخانی گروپ اور ایک محروم گروپ جو ان تمام علّتوں سے محروم تھا۔ ناشتے کے بعد حقہ پانی گروپ کو موٹیل میں ہی چھوڑ کر باقی دو گروپس نے رما لیک کی طرف کوچ شروع کیا، ٹریک کے آغاز میں ایک ٹریکٹر ٹرالی والے نے ہمیں پلیا تک لفٹ دینے کی پیشکش کی جو فوراً چُک لی گئی اور ہم نے زندگی میں پہلی بار ٹریکٹر ٹرالی کی مجی کھائی یعنی سیر کی ۔

رما لیک ٹریک چھوٹے بڑے گلیشئرز سے اٹا پڑا تھا۔چند ایک گلیشئرز ٹریک کے کنارے پر ایسے لیٹے تھے جیسے شیر پیٹ بھرجانے کے بعد آرام فرماتا ہے انہوں نے اسی کمالِ بے نیازی سے ہمیں گزرنے دیا جس طرح شیر پیٹ بھر جانے کے بعد ادھ کھلی آنکھوں سے دیگر جانوروں کو چہلیں کرتے ہوئے دیکھتا رہتا ہے۔ کہیں کہیں لینڈ سلائیڈ ہو چکنے کے آثار تھے اور کہیں ہونے کی امید تھی۔ چند ایک گلیشئرز پر سے قوم اٹھکیلیاں کرتی ہوئی گزر گئی لیکن دو گلیشئرز نے ہمیں ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ایک کے عین نیچے ایک گلیشیائی نالہ جھاگ اڑا رہا تھا اور دوسرے کے آخر میں ایک خوبصورت اور منی سی سبزی مائل نیلے رنگ کی جھیل تھی۔ اگر ہم پھسل جاتے تو دونوں صورتوں میں ہماری ایک ہنستی ہوئی ممی بن جاتی جو پہلی صورت میں بحیرہ عرب سے برآمد ہوتی اور دوسری صورت میں جھیل میں ہی ذخیرہ ہو جاتی ، اگلے وقتوں میں کوئی کوہ نورد یا جھیل نورد ہمیں دریافت کرتا اور ہم میسنر جونیئر کے آس پاس کی ڈگری کے کوہ نورد سمجھے جاتے۔ لیکن خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا ، تو ہم سب نے پھسلنے اور ڈبکی کھانے سے حتی المقدور پرہیز کیا۔
اس گلیشئر نے ہمیں ڈبونے کی پوری کوشش کی

رما لیک ٹریک کے دائیں جانب دو نالے اچھل کود کرتے پتا نہیں کہاں دوڑتے جاتے ہیں۔ کسی کی سنتے ہیں نا سننے دیتے ہیں۔ ایک دودھ کی نہر اور دوسرا ستو یا شہد کی نہر لگتا ہے۔ دودھ کی نہریں شمال میں کچھ زیادہ ہی افراط سے پائی جاتی ہیں۔ کہیں کہیں تو دودھ آبشار کی صورت عالم بالا سے عالم پست کی طرف آتا تھا۔ فرہاد اس طرف آنے کے بجائے نہ جانے کہاں نکل گیا تھا ، ورنہ ہینگ اور پھٹکری کے بغیر بھی اسکا کام ہو جاتا، فضول میں اتنی محنت کی اور اتنا وقت ضایع کیا ۔

ستو کا منبع نانگا پربت کے قدموں میں لیٹا ہوا گلیشئر ہے جبکہ دودھ کی نہر رما لیک اور اس سے منسلکہ برفوں سے نکل رہی ہے۔ رما لیک ایک طرح سے برفانی چوٹیوں سے پگھلنے والی برف کے پانی پر مشتمل ہے چاروں جانب سے پہاڑوں اور چٹانوں سے گھری ہوئی ہے، لیک تک جانے کے لیے ٹریک سے کافی نیچے اترنا پڑتا ہے اور ڈگمگاتی چٹانوں اور ناچے پتھروں سے راستہ پر ہے، بلکہ کوئی باقاعدہ راستہ ہے ہی نہیں۔عوام نے لیک کی رونمائی پر حسب توفیق آہوں اور ہوکوں سے سلامی دی۔ لیک میں دو عدد چھوٹے ہنس راج [ آئس برگ] شوئیاں مارتے پھر رہے تھے۔ عوام سے برداشت نہیں ہوا تو انہیں سنگسار کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہو گئی۔
رما لیک اور تیرتے ہوئے راج ہنس

رما لیک کو دیکھ کر دل کو کچھ اطمینان ہوا کہ یہ ہمارے معیار کے مطابق بھی لیک ہی تھی۔ ایک گروپ ممبر نے پہلے تو لیک کے کنارے کنارے "سعی " کی ادھر ڈوبے ادھر نکلے لیکن شاید مطمئین نہیں ہوئے کہ حج ابھی نامکمل تھا لہذہ مجّوں کی ہمراہی میں لیک کے گرد طواف مکمل کر کے اطمینان قلب اور عوام کی بظاہر تحسین حاصل کی۔طواف کے دوران بعض مقامات پربہت نازک صورت حال ہونے پر ناظرین کو یہ خدشہ بھی ہوا کہ انھیں کچھ اضافی بوجھ ڈھونا پڑسکتا ہے لہذہ دل ہی دل میں تجزیہ کیا گیا کہ ایسی صورت میں زائر کو لیک میں ہی محفوظ کردیا جائے یا نہیں۔ واضح رہے کہ لیک میں سے کہیں سے پانی باہر نکلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا، بلکہ زیر زمین یا زیر چٹان نالے میں منتقل ہوتا ہے۔

واپسی کے سفر میں ایک گدھا کارواں نے ہمیں سابقہ دو خطرناک گلیشئرز پر سے عالم بالا منتقل کرنے کی کوشش کی کیونکہ کاروان میں چلنے والے بھی گدھے تھے اور چلانے والے بھی۔ لوٹ کے بدھو موٹیل پہنچے ۔ رما موٹیل میں ہی پہلی رات کھانے کے بعد ایک ساتھی کے کہنے پر کہ کیا آپ نے آسمان دیکھا ہے، ہم نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو چکرا گئے، کسی نے خوب ساری چمکدار ریت آسمان پر بکھیر دی تھی۔ گندے بچے۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔