زندگی میں کچھ مقاصد ہوتے ہیں اور کچھ اشیاء ان کے حصول کا وسیلہ یا ذریعہ۔ خرابی جب پیدا ہوتی ہے جب ہم ان وسائل یا ذرائع کو ہی اپنا مطلوب و مقصد بنا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر لباس۔ لباس ایک ذریعہ ہے جسم کی موسمی شدت اور تبدیلیوں سے حفاظت اور آرام دینے کے لیے۔ مقصد نہیں۔ لیکن ہم نے لباس کو اپنا مقصد بنا لیا ہے، لباس کیسا ہو، کس ڈیزائنر کا ہو، کتنا مہنگا ہو، ہم نے جسم کی حفاظت اور آرام کے بجائے لباس کو مطلوب و مقصود مومن بنا ڈالا۔
جوتے بھی اسی مقصد کے لئے ایجاد یا اختراع کیے گئے تھے۔ لیکن اب جوتے خریدنے جائیں تو پاوں کی حفاظت اور آرام کا خیال شاید آتا ہی نہیں۔ البتہ جوتے کی رنگت، ڈیزائن، اونچائی اور قیمت کے ساتھ میں اسے پہن کر کیسی لگوں گی پہلے دیکھا جاتا ہے، میں اسے پہن کر کیسے چلوں گی کا خیال نہیں آتا۔
عبایا کا مقصد خواتین کو اجنبی نگاہوں سے بچانے کے لیَے ان کی زینت کو چپھانے کا ذریعہ بنایا گیا تھا۔ لیکن اب عبایا ہی خواتین کی زیب و زینت کو مزید نمایاں کرتا ہے کیوں کہ ہم نے عبایا کو ایک ذریعہ نہیں مقصد بنا لیا ہے۔ تعلیم بھی علم کے حصول کا ذریعہ ہوتی تھی کبھی۔
اور اپنے انسان ہونے کا مقصد بھی ہم بھول بیٹھے ہیں۔ اوریہ دنیا آزمائش گاہ بنائی گئی ہے، یعنی اللہ کے نزدیک جانے اور اللہ کو پانے کا ایک ذریعہ لیکن ہم نے اسی دنیا کو اپنا مطلوب و مقصود بنا لیا ہے۔