Saturday, July 26, 2014

حرام یا ناپاک کیوں: ایک خیال

بہت ساری چیزیں اور عمل اللہ تعالیٰ نے حرام اور ناپاک قرار دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حکمتیں تو وہی جانے مگر عمومی طور پر وہ اشیاء جو انسانی صحت کے لیے نقصاندہ ہیں وہ ناپاک قرار دی گئی ہیں۔ جیسے خون ، فضلات، اور دیگر انسانی اخراجات میں جراثیم اور وائرس پائے جاتے ہیں لہذہ انہیں ناپاک قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اگر انسان کے جسم پر یا لباس پر لگا ہو تو وہ پاک نہیں رہتا، وضو کے بعد لگ جائے تو وضو ساقط ہو جاتا ہے، اسے فوری طور پر پاک ہونا لازمی ہے۔ ان پابندیوں کا مقصد بظاہر یہی ہے کہ بندہ جراثیم اور وائرس وغیرہ سے بچا رہے۔
اسی طرح سمندر میں مرجانے والی مچھلی حرام ہے جس میں سڑاند پیدا ہونےیعنی جراثیم پائے جانے کے سو فیصد امکانات ہیں۔ خنزیر جو گندگی پر پلتا ہے اور اس کے گوشت میں اس گندگی/جراثیم یا وائرسوں کے اثرات ہوسکتے ہیں۔
شراب جسے پینے کے بعد انسان خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ سود جو بندے کو ایک نا ختم ہونے والے قرضے کی مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔

غیر اللہ کے نام کی قربانی یا نذر۔ کیوں کہ اللہ تو ایک ہے، بندہ اس کے نام پر ایک حد میں رہ کر اخراجات کر سکتا ہے، اور غیر اللہ کا تو کوئی شمار ہی نہیں، پھر بندہ کس کو خوش کرے کسے ناراض کرے، اور کتنوں کے لیے قربانی اور نذر کرے، بس قرض چڑھاتا جائے.

میری ناقص رائے میں بہت ساری ایسی باتیں / حدیثیں ہیں جن میں شیطان یا جنوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ نقصان سے بچنے کے لیے ۔۔ وہ دراصل اس دور کے انسانوں کی معلومات کے مطابق ان سے بات کی گئی تھی۔ان کو جدید سائنس کے مطابق پرکھیں تو وہ فائدہ مند ہیں لیکن نقصان کا باعث شیطان یا جن نہیں بلکہ کچھ اور عوامل ہیں جن سے وہ احادیث بچاتی ہیں۔ ایک حدیث اس طرح  ہے کہ رات کو کھانے پینے کی اشیاء ڈھانک کر رکھو کیوں کہ کھلے برتنوں میں شیاطین داخل ہوجاتے ہیں۔

ایکچوئلی کھلے برتن میً رکھی کھانے پینے کی چیزوں میں رات کو bugs  پھیرا لگا سکتے ہیں اور جراثیم چھوڑ جائیں گے جو اصل میں نقصاندہ ہیں۔ اصل "شیطان "  ان دیٹ کیس جراثیم ہیں اب 1400 سال پہلے کسی کو جراثیم سمجھانا ذرا مشکل تھا توانہیں کہا گیا کہ شیطان داخل ہوجاتا ہے شیطان کا تصور نسبتاً آسان تھا سمجھانا۔