ہمارے یونی ورسٹی کے استاد دانشور کا تلفظ "دان شور" کرتے تھے یعنی جو اپنی دانش کا شور زیادہ مچاتا ہو۔
ونس اپون اے ٹائم رائیٹرز خاص کر کالم نگاران سوشل میڈیا سے پہلے اپنی اپنی پرائیویٹ جنتوں یعنی یوٹوپیازمیں رہا کرتے تھے۔ جو لکھ دیا سو لکھ دیا۔ کچھ ہم نواؤں نے تعریفوں کے پل باندھ دئیے تو ایک آدھ نے مخالفت کردی۔ عوام ان کی بلا سے ان سے متفق ہوں نہ ہوں وہ کب عوام کے لیے لکھتے تھے۔ عوام میں سے جو انہیں پڑھتے تھے ان میں سے اعشاریہ زیرو زیرو زیرو ایک فی صد ایڈیٹر کی ڈاک کے ذریعے اپنی آواز یا رائے متعلقہ کالم نگار تک پہنچانے کی کوشش کرتے ان میں سے اکا دکا اخبارات میں چھپ بھی جاتی اور وہ اسی پر خوش ہوجاتے۔ متعلقہ کا لم نگار اس رائے کو پڑھتا یا نہیں کچھ پتا نہ چلتا کیونکہ وہ متعلقہ کے بجائے اس رائے سے مطلقہ ہی رہتا یعنی جواب دینے کی زحمت کم ہی کرتا۔
سو انجمن ہائے ستائش باہمی کے ذریعے کافی سے زیادہ کالم نگار دانش ور کے عہدے پر متمکن ہوگئے۔ ان کی قابلیت کا پیمانہ کسی کثیر الاشاعت اخبار میں کالم چھپنا سے لے کر مقتدر حلقوں میں پڑھا جانا یا تعلقات پر محمول ہوتا تھا۔ کوئی محض اس لیے دانشور ہوگیا کہ تعلقات کی بناء پر ایک ممنون نما صدر مملکت کا تقریر نویس مقرر ہوگیا تھا۔ تو کوئی اس بناء پر کہ سیاسی ہمدردی کی بدولت سفارت سے سرفراز ہوا۔ کوئی محض اس لیے دانشور ٹھہرا کہ ایک مدت سے کالم نگاری کر رہا تھا تو کوئی عمر میں سینیارٹی کی بدولت سینیر کالم نگار کے عہدے پر براجمان ہوگیا۔ کچھ اس بناء پر دانشور ٹھہرے کہ ان کے کالمز کی ثقیل زبان اور گھمبیر تصورات عوام کے پلے ہی نہ پڑتے تھے۔ عوام میں کس کی وقعت کتنی تھی اس بات کی تو کوئی وقعت ہی نہیں تھی۔
پھر آگیا سوشل میڈیا اور عوام کی بھیڑ چال کے بعد خواص یعنی دانشوران صحافت نے بھی سوشل میڈیا سے رجوع کیا۔ اب وہ براہ راست عوام کے ایک اچھی خاصی تعداد کی دسترس میں آگئے۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ سے لے کر نیم تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ لیکن خواندہ سب شامل ہیں، ہر وہ شخص جو اردو پڑھ سکتا ہے اور کم از کم رومن اردو میں ہی اپنی رائے کا اظہار کرسکتا ہے۔ یہ وہ حلقہ ہے جو سیاسی و سماجی سمجھ بوجھ اور غلط ہی سہی ملکی و غیر ملکی معاملات پر اپنی ایک رائے رکھتا ہے ۔ اب وہ براہ راست ان کالم نگاروں کی اپنی سوشل میڈیا پروفائل پر یا اخبارات کی ویب سائیٹس پر ان کے کالمز پر اپنی رائے کا اظہار بھی کرنے لگے ہیں ۔۔ ناہنجار کہیں کے ۔۔ نہ صرف رائے کا اظہار کرتے ہیں بلکہ کالم نگاران کی رائے سے 180 درجے کے زاویے پر مقیم اپنے خیالات کا اظہار بھی کرنے لگے ہیں ۔۔ مجبوراً محترم، سینیئر دانشوران کو ان بد تمیز و نا ہنجار رائے دہندنگان کو بلاک کرنا پڑتا ہے ۔۔
بھائی یقیناً ہر پاکستانی کی طرح آپ کی بھی سیاسی یا معاشی یا مذہبی وابستگیاں ہونگی لیکن وہ ہی پورا یا مطلق سچ نہیں ہیں ۔۔ دوسروں کو برداشت اور عدم تشدد کی تلقین کرنے والے پر فرض ہے کہ وہ پہلے خود پر تنقید برداشت کرنا سیکھے۔ آپ یا کوئی بھی عقل کل ہونے کا دعوی نہیں کرسکتا۔ دوسرے کی رائے آپ سے مختلف ہونے کا مطلب غلط ہونا نہیں ہے۔