Tuesday, May 1, 2018

انتہا پسندی اور رواداری


مغرب کا مشرق خصوصاً مسلمانوں کے بارے میں ایک ہی خیال ہے کہ یہ سارے پسماندہ, ناخواندہ اور شاید پتھر کے زمانے کے لوگ ہیں۔ اس خیال کی بنیاد انکی اپنی کوتاہ ذہنیت ہے جو اپنے علاوہ سب کو اپنے سے کمتر سمجھتی ہے .. انکے خیال میں ان کی اقدار, انکی اخلاقیات اور انکے سماجی معیارات ہی عالمی معیار یا پیمانہ ہیں اور جو اس معیار سے مختلف ہیں وہ ان سے کمتر درجے کے انسان ہی۔ اور ان کی اس غلط فہمی کو ہوا دیتے ہیں جعلی دانشور اور کرائے کے لبرلز .. جو مغرب کے تلوے چاٹتے ہیں اور ان کو انکی مرضی کے بیانات دیتے ہیں۔

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ہم مشرق والے ان سے زیادہ روشن خیال اور براڈ مائنڈڈ ہیں .. ہمیں یہ معلوم ہے اور ہم اکثر اوقات اس بات کو قبول کرلیتے ہیں کہ مغرب کے لوگ ہم سے مختلف ہیں سو اگر وہ ہمارے سامنے ہمارے معیار سے دائیں بائیں رویہ بھی اختیار کریں تو ہم صرف نظر کر جاتے ہیں۔ جیسے قاہرہ میں میری یوروپین ہم جماعتیں تین یا چار ڈگری سرد موسم میں اسکرٹس میں کھلی ٹانگوں کے ساتھ گھومتی پھرتی تھیں تو ہم مسلمان لڑکیاں ان سے کبھی تعرض نہیں کرتی تھیں .. لیکن گرمیوں میں انہیں ہمارے اسکارفوں پر بے تحاشہ اعتراض ہوتا تھا اور وہ ہماری ہمدردی میں فوت ہوئی جاتی تھیں کہ ہائے ہائے اس گرمی میں اتنا سارا اسکارف .. ظلم ہے بھئی۔ اور سب سے زیادہ ہمدردی پھوٹ پھوٹ کر سعودی خواتین کے لیے بہہ رہی ہوتی تھی۔

اسی طرح اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں آپ کو وہ لوگ اپنے عقائد و خیالات میں زیادہ متشدد ملیں گے جو آزادی اظہار، تحریک نسواں یا عورتوں کی آزادی کے حق میں ہونگے یا جو اپنے آپ کو ترقی پسند یا لبرلز کہتے ہونگے۔ یہ لوگ نئی قسم کے انتہا پسند ہیں ۔ یہ بھی اپنے نظریات زبردستی لوگوں پر ٹھونسنے کے قائل ہیں جیسے کہ وہ لوگ جن کی انتہا پسندی کے خلاف یہ شور مچا رہے ہوتے ہیں۔

رواداری میں نے ان میں زیادہ پائی ہے جن کے خلاف انتہاپسندی کا شور زیادہ مچایا جاتا ہے۔

اردومیڈیم کے پڑھے ہوئے انگریزی سمجھ بھی لیتے ہیں  اور ضرورت پڑے تو بول بھی لیتے ہیں ، لیکن انگریزی میڈیم کے پڑھے اردو ٹھیک سے بول اور لکھ بھی نہیں سکتے

جو لوگ اپنی بات ڈنکے کی چوٹ پر کہنے پر فخر کرتے ہیں، وہ اختلاف رائے برداشت نہیں کرسکتے ۔