Wednesday, April 11, 2018

ایک "موت کا منظر"

چند مشاہدات

ایک گھر جہاں موت کی اطلاع پہنچ چکی ہے لیکن جنازہ ابھی تک نہیں پہنچا۔ گرمی کے موسم میں جنازہ ساری رات گھر میں رکھنے کا رسک بھی نہیں لیاجاسکتا۔اس لیے میت کو سرد خانے اور میت کی خبر کو گھر پہنچادیا گیاہے۔

پڑوسی ،محلے دار اور قریب کے رشتہ دار میت کے گھر پر جمع ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ گھر پر خاندان کے چند اہی افراد ہیں باقی ماندہ اسپتال سے میت کو سرد خانے پہنچا کر واپسی کے سفر میں ٹریفک جام میں کہیں پھنسے ہیں ۔ دور پار کے رشتہ داروں کو موبائل پر اطلا ع کردی گئی لیکن ان میں سے کئی پہنچے کئی نہ پہنچ سکے۔

جیسے موت کا انتظار موت سے زیادہ خوفناک ہوتا ہے۔ ویسے ہی پوری رات میت کے سرہانے بیٹھنا شاید میت کے بغیر میت کے گھر میں بیٹھنے سے آسان ہوتا ہوگا۔ بغیر کسی"مصروفیت" کے مصروف رہنا بھی ایک آرٹ ہے۔ پہلے رونے کا ایک دور چلتا ہے، جس میں ہر آنے والا حسب توفیق حصہ ڈالتےہوئے لواحقین کو صبر کی تلقین بھی کرتا ہے۔ فلموں اور ڈراموں کی بھیڑ چال میں ایک نیا فیشن میت کی رسموں میں شامل ہوگیا ہے۔ ہر پرسہ دینے والے پر فرض ہوگیا ہے کہ وہ درجہ بدرجہ میت کے گھروالوں، یعنی بچوں، بہن بھائیوں، کزنز حتیٰ کہ پڑوسیوں سے بھی گلے مل مل کر بین ڈالے۔ اورپھر ایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈال کر جتنی دیر چاہے بین ڈالتا رہے۔ اس موقعے پر وہ خواتین و حضرات بھی ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جنہیں شرعی طور پر ایک دوسرے سے پردہ کرنا چاہیے، لیکن حالت "اضطرار" میں سب جائز ہوتا ہے کہ مصداق میت و شادی کے موقع پر بھی سب جائز ہوجاتا ہے۔

کچھ لوگ انتہائی قریبی ہونے کے باوجود اپنی عادت سے مجبور ایک آنسو زبردستی نہیں ٹپکا سکتے، صرف رنجیدہ منہ بناکر بیٹھے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔جبکہ کچھ 'پروفیشنل" ایسے سیکنڈز میں ولولہ انگیز طریقے سے دہائیاں دے رہے ہوتے ہیں کہ سب قریبی لواحقین کو چھوڑ چھاڑ ان کے ڈرامے دیکھنے لگ جاتےہیں۔

میت کے رشتہ داروں میں سے جو سب سے زیادہ باآواز بلند بین ڈال رہا ہو یا بار بار بے ہوش ہورہا ہو سمجھ جائیے کہ زندگی میں اسی نے مرنے والے کو سب سے زیادہ دق کیا تھا۔ اور اب وہ اپنے احساس جرم کو بلند آواز سے چھپا رہا ہے۔

کچھ واقف حال نظر میں رکھتے ہیں مرحوم کے کس کس سے تعلقات منقطع تھے، ان میں سے کون کون آیا اور کون نہیں آیا۔ تاکہ بعد میں حسب ضرورت ہر دو پارٹیوں کو طعنے مارے جاسکیں۔ خود گھر والے بھی ناراض رشتہ داروں کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ اگر وہ غلطی سے آجائیں تو انہیں چوکھٹ سے باہر دھکیل کر دل کے پھپھولے ٹھنڈے کیے جاسکیں۔ اور نہ آئیں تو بعد میں انہیں کٹر دل اور بے حس ہونے کے طعنے دیے جاسکیں۔

گھر والوں کو زبردستی چند نوالے کھلا دئے جاتے ہیں کہ رونا تو ساری زندگی کا ہے، کھانے سے کب تک منہ موڑو گے۔ رات گہری ہوتی جاتی ہے اور پرسان حال دھیرے دھیرے کھسکنا شروع ہوتے ہیں کہ پوری رات جاگ کر گزاری تو صبح جنازے میں کیسے شامل ہونگے۔