Saturday, February 23, 2013

لیڈیز ڈرائیونگ لائسنس


لرننگ لائسنس پر پورے دس دن کم ایک سال گاڑی بھگانے کے بعد سوچا کہ پکا لائسنس بنوالینا چاہئے، گاڑی کو اتنا بھگایا پر وہ ہمیں چھوڑنے پر راضی نہ ہوئی۔ لائسنس برانچ ہمارے آفس کے راستے میں پڑتی تھی لہذہ ایک دن آفس جاتے ہوئے گاڑی ادھر موڑ لی۔ پہلے تو اہلکار گاڑی کو اور اس میں سے برآمد ہوتی ہوئی تنہا خاتون کو دیکھ کر کچھ گھبرائے، کچھ ہڑبڑائے اور کچھ کچھ مسکرائے۔ اگر آپ بھی ایک ہائی روف جس میں آگے پیچھے، دائیں بائیں ،اوپر نیچے عجیب و غریب بمپرز، کیریئراور جانے کیا کیا الا بلا انسٹالڈ ہوں اور فل والیوم میں سی ڈی پلئیر چل رہا ہو ، ایک سنگل پسلی کی نقاب پوش خاتون کو ڈاون لوڈ ہوتے دیکھیں تو آپ بھی بالاترتیب یہی کچھ کریں گے ۔

داخل ہوتے ہی ایجنٹ حضرات شرماتے ہوئے قریب آنے کی کوشش کرنے لگے، یہ مظلوم قوم خواتین ڈرائیوروں کے ساتھ آئے ہوئے بھائی، ابو، شوہر اور انکل قسم کی مخلوق سے ڈیلنگ کرنے کی عادی ہوتی ہے، تو اکیلی خاتون سے بات کیونکر کی جائے۔ چند گھبرائی، شرمائی ، حواس باختہ خواتین کرسیوں پر براجمان تھیں، جن کے ساتھ آئے ہوئے حضرات یکے بعد دیگرے آکر انھیں اب تک کی کاروائی سے اپ ڈیٹ کرتے اور کاغذات پر انکے دستخط لے کرمزید کاروائیوں کے لئے ایجنٹوں کے ساتھ پھر سے روپوش ہوجاتے۔ 

چند پٹھان لڑکے جنھوں نے زندگی میں کبھی گدھا گاڑی بھی نہیں چلائی ہوگی، بس چلانے کے لائسنس کے خواہش مند تھے، کچھ 'ممی ڈیڈی' ٹائپ بےبی بوائز اپنے اپنے ابو، بھائی یا انکل وغیرہ کے پلو سے بندھےشرقاً غرباً اور شمالً جنوباً رواں دواں تھے۔ ایک آدھ ڈرائیونگ اسکول کے انسٹرکٹر حضرات اپنے زیر تربیت چوزوں کو اپنے پروں میں سمیٹے ایجنٹوں سے مذاکرات میں مشغول تھے۔

ایسے" پرفسوں" ماحول میں اس بے یارو مددگار، امیدوار ،طلبگار ِ لائسنس نے انفارمیشن کاونٹر سے اسٹارٹ لیا، فارم، فیس، میڈیکل سے گزرتے ہوئے ممتحن کے پاس پہنچے اور تحریری ٹیسٹ میں باعزت نمبروں سے فیل ہوگئے۔ ممتحن کے نیلام گھر میں تین غلطیوں کی گنجائش تھی اور ہم نے تالا لگے ہوئے دروازے کے سامنے گاڑی پارک کرنے کی اجازت دے دی ، جو کہ اتفاق سے ہماری چوتھی غلطی تھی، ہمارا خیال تھا کہ دروازہ عرصہ دراز سے بند ہے کیونکہ اب تو آٹومیٹک لاک کا زمانہ ہے، پر یہ والے طارق عزیز ہم سے متفق نہ تھے۔ خیر" گرتےہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں"۔ اس دوران ایک بے یارو مددگار ' لیڈیز' امیدوار کی خاصی مشہوری ہو چکی تھی۔سو متعدد ٹریفک اہلکار گاہے بہ گاہے زیارت کو آتے رہے۔

چند دن گزار کر پھر قصد کیا، اس بار تحریری امتحان میں با عزت بری ہو کر ڈرائیونگ ٹیسٹ کے مرحلے میں پہنچے، انسپکٹر نے ایک ٹرک کے ڈھانچے اور ٹریکٹر کے پہئے کے درمیان اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ان دونوں 'گاڑیوں' کے درمیان گاڑی پارک کیجیے۔ اب ہم نے ان کو مذاکرات کے ذریعے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ ہمیں گاڑی" چلانے" کا لائسنس درکار ہے، گاڑی کھڑی کرنا ہمارے اسسٹنٹس کا کام ہے۔ لیکن وہ بضد رہے۔ بمشکل تمام گاڑی پارک کی، جس پر انسپکٹر صاحب مطمعین نہیں تھے، پھر گاڑی نکالنے کا حکم ہوا۔ ساتھ میں ایک اورنج رنگ کی کون پچھلی گاڑی کے ساتھ کھڑی کر دی اور کہا کہ یہ بندہ ہے، بندہ بچاتے ہوئے گاڑی نکالئے۔ حکمِ حاکم مرگ مفاجات، اب ایک تو وہ' بندہ' انتہائی غلط جگہ کھڑا تھا، اوپر سے اندھا اوربہرہ بھی تھا لہذہ اس نے ہارن پر بالکل توجہ نہ دی، نتیجہ: اسکا گاڑی سے ایکسیڈنٹ ہو گیا اور انسٹرکٹر نے ہمیں ڈرائیونگ ٹیسٹ میں فیل کر دیا ۔مقدمے کی تاریخ ایک ہفتے بعد کی پڑی۔

اگلے ہفتے ایک اہلکار نے کہا کہ کیونکہ آپ دو بار فیل ہو چکی ہیں اس لئے 1000 روپے جرمانہ بھرئیے، ساتھ ہی مشورہ بھی دیا کہ کسی ایجنٹ کو پکڑ لیں ورنہ یہ لوگ آپ کو بار بار فیل کرتے رہیں گے۔ جرمانہ بھر کر دوبارہ ڈرائیونگ ٹیسٹ میں داخل ہوئے، دربان نے ہمیں غور سے دیکھا اور بڑ بڑایا، کہ پچھلے ہفتے تو انکا ٹیسٹ ہوا تھا۔ "بات تو سچ تھی مگر بات تھی رسوائی کی" اس بار دائیں یا بائیں مڑتے ہوئے اشارہ دینا بھول گئے۔ اور ایک بار پھر فیل۔اگر وہ ہمیں کہتے کہ 10منٹ میں ناظم آباد سے شاہراہ فیصل پہنچ کر دکھایئے تو ہم مصطفی کمال کے کمالات کی بدولت 8 منٹ میں ہی پہنچ جاتے، لیکن ۔۔۔ 

اب افسرِ اعلیٰ کے سامنے پیش کیے گئے۔افسر اعلیٰ {ہمیں پولیس کے رینک درجہ بہ درجہ کبھی یاد نہیں ہوئے} پہلے سے کسی ' dealing' میں مصروف تھے، اس اثناٰ میں ہم نے ان کے کمرے کا جائزہ لے لیا، پلستر بمع پینٹ کے کئی جگہ سے اکھڑا ہوا تھا، کرسیوں کی حالت خاصی مخدوش تھی، جالے وغیرہ بھی لٹکے ہوئے تھے۔ ان کے فارغ ہونے پر ہمیں اور ہمارے اعمال نامے کو ان کے سامنے پیش کیا گیا جس پر ہماری داستان ناکامی جلی حروف میں درج تھی، اب وہ ہمیں دیکھتے [ایک نقاب پوش تن تنہا خاتون] اور ہمارے کاغذات کو، کافی دیر تذبذب میں رہے کہ کہاں سے شروع کریں اور کیسے شروع کریں۔ کیونکہ انھیں شروع کرنے میں ہچکچاہٹ تھی تو موقع غنیمت جان کر ہم شروع ہوگئے۔ 

اپنا چشمہ، چابی اور بیگ انکی میز پر ٹکایا، ٹانگ پر ٹانگ رکھی ، کرسی کی پشت سے لگ کر اپنی گردن میں اسٹیل کا پائپ فٹ کیا، قدرے ترچھے ہوتے ہوئےکرسی کی پشت کو ایک بازو میں اس طرح دبوچا، جیسے پولیس ملزم کو دبوچتی ہے۔ اور اپنی افسرانہ گفتگو کا آغاز کیا " آپ کے کمرے کی حالت خاصی نا گفتہ بہ ہے [ اس لفظ کے معنی ٰ آج تک ہمیں سمجھ نہیں آئے پر استعمال آتا ہے] کیا آپکے ہاں ریپئر اور مینٹی ننس کے ہیڈز نہیں ہوتے" افسر اعلیٰ تھوڑے سے چوکنے ہوئے، "یا پھر آپکے فنڈز اب تک ریلیز نہیں ہوئے" اب وہ با قاعدہ ہوشیار ہوگئے، "میڈم آپ کو سرکاری اصطلاحات سے اچھی واقفیت ہے"۔ "جی ہاں" ہم نے اپنی پوسٹنگ کا بتایا۔ آناً فاناً انھوں نے ہمارے فارم پر "Passed" لکھا، چڑیا بٹھائی، اور فرمایا "فلاں تاریخ کو اپنا لائسنس لے جائیے گا۔" مقررہ دن جب ہم کارڈ/ لائسنس لے کر باہر نکل رہے تھے تو پیچھے سے آواز آئی " ایسا کرو گے تو کون آئے گا"