آجکل میں مولانا مودودی کا اردو ترجمہ٫ قران بطور ایک کتاب پڑھ رہی ہوں۔ زیر نظر تبصرہ محض ایک ایسا ہی تبصرہ ہے جیسے ایک کتاب کو پڑھ کر اسکے بارے میں تبصرہ کیا جاتا ہے۔
قران مجید کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اللہ ایک ہے، وہی اس تمام جہان کا خالق ہے، وہی مقتدر ہےوہی تمام عبادتوں کا حقدار ہے۔ لہذہ صرف اور صرف اسکی بات سنی، مانی اور عمل کی جائے۔ اسکے بتائے ہوئے رستے پر چلا جائے، جو اسکے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا، کامیاب ہوگا، جو بغاوت کرے گا سزا کا مستحق ہوگا۔ ہر گناہ قابل معافی ہے، سوائے شرک کے۔
اللہ تعالیٰ کی تین بنیادی خصوصیات: وحدانیت ، اقتدار اور عبودیت کا حق، کا تقریباً ہر صفحے پر مختلف طرح سے ذکر ہے۔ باقی سارا قران اس مرکزی خیال کی تفصیل، توجیہات، وضاحت ، احکامات جن پر چل کر کامیابی ملتی ہے اور اعمال جن کی وجہ سے تباہی مل سکتی ہے، پر مشتمل ہے۔
جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف مثالوں سے اپنی ان تین صفات کو بیان کیا ہے، خاص کر وحدانیت کو۔ ان مثالوں میں زیادہ تر مثالیں کرّہ زمین اسکے ماحول، اسکے اطراف کی طبعی اشیاء سے دی گئی ہیں۔ جیسے زمین، دریا، پہاڑ، ندی نالے، فصلیں، بارش، ریگستان، سورج ، چاند، ستارے، جانور، چرند پرند۔
مختلف انبیا کے واقعات بیان کرکے بتایا ہے کہ کس طرح اس نے اپنا پیغام مختلف اقوام تک پہنچایا، کس کس طرح انکار اور نافرمانی کرنے والوں کو مختلف آفات کے ذریعے تباہ کردیا، یا دھتکار دیا، اور اپنے فرمانبرداروں پر مہربانی کی۔
سب سے زیادہ تفصیل سے بنی اسرائیل سے متعلقہ انبیا کے واقعات بیان کیے ہیں ، خصوصاً موسیٰ علیہ السلام کے واقعات۔ غالباً اسکی وجہ یہ ہوگی کہ جن لوگوں نے محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ مخالفت کی تھی وہ موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کی باقیات تھے، لہذہ انکے رسولوں کے واقعات ایک امّی نبی کی زبان سے سنواکر یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہا۔
قران کے مطابق:
نبی یا رسول صرف پیغام پہنچانے والا ہے۔ ہدایت اللہ کی طرف سے ملتی ہے، انہی کو ملتی ہے جو اس کی طلب کرتے ہیں۔ اور جو ہدایت کی طلب کرتا ہے اور پا لیتا ہے وہ اپنا ہی فائدہ کرتا ہے اللہ پر کوئی احسان نہیں کرتا۔
نوح علیہ سلام طوفان کو دیکھ کر اللہ سے دعا کرتے ہیں اے اللہ میرے بیٹے کو بچالے وہ میرے اہل بیت میں سے ہے، اللہ جواب دیتا ہے، اے نوح وہ بے ہدایتوں میں سے ہے، جس بات کا تم کو علم نہیں اس میں دخل مت دیا کرو۔
ابراہیم نے قوم لوط علیہ سلام کی سفارش کرنے کی کوشش کی، کہ وہاں کچھ نیک لوگ بھی ہیں۔ اللہ نے فرمایا تم کیا مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔ اس قوم کا فیصلہ ہو چکا۔
محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اپنے عزیز چچا ابو طالب کو عالم نزع میں کلمہ پڑھانے کی کو شش کی، وحی آئی کہ محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم یہ ہم ہیں جو ہدایت دیتے ہیں تم نہیں تمہارا کام صرف پیغام پہنچانا تھا۔