Saturday, August 6, 2016

مولہ چٹوک : سفر نامہ (حصہ اول)

 جو'جانا 'چاہو ہزار رستے ۔ ۔ ۔


مولہ چٹوک آبشارایک جنت مقام۔
 فوٹو گرافی: جام اقبال بذریعہ ابو ذر نقوی

دماغ بولا: "اتنا مہنگا ٹرپ اور وہ بھی اتنی جلدی"

دل بولا: 
"ایک ہی تو شوق ہے تمہارا"
"نہ تمہیں ڈیزائنرز لان کا شوق"
نہ میک اپ کا خرچہ ،نہ زیور کا شوق"
"بس ایک سیرو تفریح کا ہی تو شوق ہے"
"کیا ہوا جو ایک مہنگا ٹوور کر لیا "
"جگہ بھی تو ایسی ہے کہ اپنے طور پر جانا مشکل ہے۔" 

اور بس اسی آخری پوائنٹ پر آکر ہم مار کھا گئے ۔ وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں نا کہ" من حرامی تے حجتاں ہزار" اسی مثال کے مترادف جب سے ہمیں پتا لگا تھا کہ موُلہ چٹوک کا پروگرام بن رہا ہے،ہم دل ہی دل میں پروگرام میں شمولیت کے لیے بہانے اکٹھے کر رہے تھے۔ ابھی پچھلے مہینے بھی سکھر /خیر پور کا ٹور لگایا تھا اور اب اتنی جلدی دوبارہ جاتے ہوئے کچھ ہینکی پینکی ہورہی تھی ۔

جس نے خود اپنی فیملی یا دوستوں کے ساتھ ٹرپ مارے ہوئے ہوں اسے ٹوور آپریٹر کے ٹوورز ہمیشہ مہنگے لگتے ہیں اور ویسے بھی غربت کا تعلق پیسوں سے کم اور ذہنیت سے زیادہ ہوتا ہے، غریب لوگ کشادہ دامن بھی ہوجائیں توذہنی طور پر جوڑ توڑ میں ہی لگے رہتے ہیں اور انکا بس چلے تو سچ مچ پیسے دانتوں سے پکڑ پکڑ کر خرچ کریں۔

اسی ذہنی غربت کے باعث ہم ٹوور آپریٹرز کے ساتھ ٹوورز پر جانے کے حق میں نہیں ہیں۔ کیونکہ ٹوور آپریٹر کے ساتھ جتنے پیسوں میں بندہ اکیلا سیر کر کے آتا ہے ، اس میں دو ایک ہزار مزید شامل کر کے پوری فیملی اپنی گاڑی میں کہیں نہ کہیں کا ایک ٹرپ مار کر آسکتی ہے۔ سو ایسے ٹرپس کے بعد بندہ شرمندہ شرمندہ رہتا ہے کہ یارانہی پیسوں میں ساری فیملی انجوائے کر سکتی تھی ۔ 

پہلے ابا کو آفر کی کہ آپ چلے جاو ، ویسے بھی وہاں پانی ہے جس میں حضرات ہی ڈبکیاں لگا سکتے ہیں ، تو آپکا جانا زیادہ مناسب ہے، ابا صاف انکار کرگئے ، کہ میں تو اتنے پیسوں میں چار پروگرام کرآؤں گا ۔ لو جی وہ بھی ہمارے ہی ابا نکلے۔ ان کے انکار کے بعد ہم دوبارہ سوچ بچار میں غرق ، جائیں کہ نہ جائیں ، پر آخری بہانہ اتنا تکڑا تھا کہ سوچا دوبارہ پتا نہیں چانس بنے نہ بنے، شہر روغاںوالا چانس بھی مس کر کے ابھی تک راہ تک رہے ہیں ۔ 

ایک "گرل" فرینڈ کو پٹانے کی کوشش کی کہ کم از کم ٹرپ پر ایک خاتون تو ہمارے ساتھ ہو ، جس نے ہمیشہ کی طرح اتنے نخرے دکھائے کہ اللہ کی پناہ ، پر وہ گرل فرینڈ ہی کیا جو نخرے نہ دکھائے۔ ایک اور جاننے والے صاحب نے دریافت کیا 

"آر یو اِن فار مولہ چٹوک؟"، 
"ہاں جی بالکل اِن "
"میں بھی اِن"

اگلا سوال: "فیس جمع کروادی؟"
"نہ جی، ہم تو اندر کے لوگ ہیں ابھی تک کسی نے مانگی ہی نہیں ہم سے :D"

"ہم تو باہر کے لوگ ہیں، اس لیے جمع کروادی"
"ہی ہی ہی ہی ہی ہی :P "

پھر ہم نے بھی جمع کروادی کہ دل کہیں تو ٹھکانہ کرےاور دماغ بھی ٹھنڈ پروگرام کرے۔کہیں دل ، دماغ کے آگے دل ہی نہ مار جائے۔ پتا لگا کہ گرل فرینڈ نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہے۔ لیکن ہم پہلے ہی کنفرم کر چکے تھے کہ ہم اندھوں میں کانا راجہ ، سوری رانی تو نہیں ہونگے۔ پتا لگا ہمارے ایسے نصیب کہاں ۔ ویسے ہمارا تجربہ و مشاہدہ ہے کہ حضرات خواتین سے بہتر شریک کار ہوتے ہیں ۔پر تھوڑی دل کی اور زیادہ زمانے کی تسلی کے لیے ایک آدھ خاتون بطور تبرک پروگرام میں شامل ہوں تو کوئی حرج بھی نہیں ۔ حفظ ماتقدم کے طور پر ہم نے "ٹو آئی سی" سے یہ بھی دریافت کر لیا تھا کہ ٹرپ پر منحوس میوزک والی کلاس کے کتنے لوگ ہونگے۔ اورکسی غیر متوقع صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنا ٹیبلٹ تیار کر کے رکھ لیا۔

پچھلے ٹرپ پر منحوس میوزک کلاس نے ہمیں صحیح سے دم پخت کر دیا تھا۔ اب ہم رسک لینے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ منحوس میوزک وہ ہوتا ہے جو بقول شخصے اگر دو ٹرک آپس میں ٹکرا جائیں جن میں سے ایک پر دودھ کےخالی ڈرم اور دوسرے پر مویشی لدے ہوں تو اس ٹکر کے بعد جو شور سا اٹھتا ہے اس سے کچھ کچھ ملتا جلتا ہوتا ہے ، اور اس پر مزید طرہ یہ کہ اس کلاس میں کوئی بھی گانا، خواہ وہ کیسا بھی ہو، پورا سننا حرام ہوتا ہے۔ ہر تیس سیکنڈز کے بعد گانا تبدیل کرنا عین عبادت سمجھا جاتا ہے۔ گانا بھلے "چٹیاں کلائیاں" یا "بے بی ڈول میں سونے دی" ہی ہو، پر اللہ کے بندو پورا تو سننے دو ، پر نہ ناں ، نہ ناں :P

گرل فرینڈ سے طے ہوا کہ ہم انکے میز بان ہونگے اور ہمارے غریب خانے سے ہم دونوں کو کوئی نہ کوئی مقام روانگی پر ڈراپ کردے گا۔ وقت رخصت از کراچی حسب معمول بروز جمعہ آدھی رات طے تھا، عین وقت پر پتا لگا کہ مقام رخصت تبدیل کر کے شمال سے جنوب کی سمت منتقل کردیا گیا ہے۔ ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، کراچی کے جنوب سے ہماری کوئی خاص جان پہچان نہیں ہے اور وہ بھی آدھی رات کو جب ہمیں اپنے دیکھے بھالے راستے بھی پہچاننے مشکل ہوتے ہیں۔ 

ایمرجنسی میں دوبارہ طے ہوا کہ اب ہم گرل فرینڈ کے میزبان نہیں بلکہ مہمان بنیں گے اور انہیں چُک کے مقام روانگی پہنچیں گے، جہاں سے ہماری شہزادی المعروف ہماری پیاری ہائی روف دی لیڈر کے گھر پر دو دن آرام کرنے جائے گی۔ لشتم پشتم کراچی کے ایک سرے سے کراچی کے دوسرے سرے پر ان کے گھر پہنچے، سر سے پیر تک شرابور ، کیونکہ ہماری ہائی روف خیر سے شاہی سواری ہے۔ یاد رہے شاہی سواری میں اے سی نہیں ہوتا تھا۔ گرل فرینڈ نے ہمیں چائے پانی وغیرہ پینے کی زحمت دیے بغیر بس ایک جھپی سے نوازا اور بولیں" چلو "۔ اور ہم چل پڑے ، اور دونوں مل کر کراچی میں کھو گئے۔ادھر ادھر ٹکریں مارتے ہوئے بمشکل تمام اس ڈیٹ پوائنٹ تک پہنچے جہاں آج کم از کم 50 بندے اجتماعی لیکن امریکی ڈیٹ پر تھے۔ 

وقت کی پابندی ہماری گھٹی میں پڑی ہے نتیجہ ہر شادی میں وقت پر پہنچ کر بارات کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں یا پھر ہر ٹریننگ سیشن میں وقت پر پہنچ کر لیٹ آنے والوں کے حصے کی ڈانٹ سن رہے ہوتے ہیں ، یہاں بھی مقررہ وقت پر پہنچ گئے اوربالترتیب دعا سلام خیریت نیک مطلوب کرنے کے بعد حسب عادت و معمول زور و شور سے بور ہونے لگے، باقی پبلک نے اپنے اپنے موبائل میں منہ دے لیا اور ہم سب کا منہ دیکھنے لگے کہ ہمارا ٹیبلٹ نیا نیا فوت ہوا تھا اور اب صرف گانے سنانے کے لائق ہی رہ گیا تھا۔ اور ہم ابھی سے اس کی بیٹری خرچ کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔

گھر سے چلتے ہوئے بہن نے کہا بھی کہ کچھ کھا لو بھوکی جارہی ہو، ہم نے سوچا کہ درمیان میں گرل فرینڈ کے گھر اسٹاپ اوور بھی ہے ، اس نے ہمیں سوکھے منہ تھوڑی ناں لوٹا دینا ہے، لیکن گھر حلوہ تو باہر حلوہ ، اب پیٹ میں چوہے گلی ڈنڈا کھیلنے لگے تھے۔ سو کچھ پیٹ پوجا کا انتظام کیا، خالی پیٹ تو گرل فرینڈ بھی اچھی نہیں لگتی۔ آئندہ کے لیےاسکارف کے پلو میں گرہ باندھ لی ہے کہ چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہورہی ہو، زلزلہ، آندھی، طوفان آرہا ہو، گروپ ہمیں چھوڑ کر روانہ ہوجائے لیکن گھر سے پیٹ بھر کے نکلنا ہے۔ اسی دوران ہمارے تیسرے ساتھی بھی آچکے تھے۔ 

تقریباً نصف شب کے بعدباراتیوں کی آمد شروع ہوئی ، ہمارا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ ایک کوسٹر کے لوگ ہونگے، پر پتا لگا کہ دائیں بائیں جتنے بھی چہرے تھے وہ ہمارے ہی چہرے تھے یعنی ہمارے پروگرام میں شامل چہرے۔ یعنی واقعی پوری بارات کا "سامان" تیار تھا۔ دو چار جانے پہچانے چہرے ، زیادہ تر انجان چہرے۔ جو شاید جانے پہچانے ہوجانے تھے، لیکن یہ خیال ابھی قبل از وقت تھا۔ 

ویسے تجربہ یہ بتاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ 8 سے 10 افراد کا گروپ ہو تو سارے آپس میں تقریباً دوست بن ہی جاتے ہیں، اس سے زیادہ ہوں تو انجان ہی جاتے ہیں اور جیسے جاتے ہیں تقریباً ویسے ہی واپس بھی آجاتے ہیں ، جتنے زیادہ گروپ ممبر ہوں اتنی زیادہ اجنبیت برقرار رہتی ہے۔ اور جتنی زیادہ خواتین ہوں اتنی ہی شدید اجنبیت ہوگی ۔ شاید یہ بندے بندے پر منحصر ہو ، لیکن ہم پر ہرگز منحصر نہیں۔ ہم خاصے روکھے ہیں اس معاملے میں اور اسی طرح خوش ہیں۔

اللہ اللہ کر کے سب جمع ہوئے ، کوچ کا نقارہ نہیں بج سکا کیوں کہ آج کل نقارے آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے۔ قبل از کوچ ہم ایک بندے کے حوالے کئے گئے کہ ان کے پیچھے پیچھے جائیں اور اپنی گاڑی پارک کر آئیں، اور ہم، ہم مسوم ، ایک بار پھر کھو گئے۔ اب اس میں ہمارا کیا قصور کہ جس سفید گاڑی کے پیچھے ہم چلے تھے ، موصوف اس گاڑی میں تھے ہی نہیں ، گاڑی کیسے تبدیل ہوئی جبکہ ہم نے ایک لمحے بھی گاڑی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دی، ہم آج تک حیران پریشان، جنگل بیابان ہیں۔ 

شکر خدا کا کہ بندے نے خود ہی ہمیں تلاش کرلیا، لیکن وہ چند منٹ بہت ہی بھاری تھے، نانی یاد آگئی قسم سے۔ ذرا تصور کریں کہ رات کے تقریباً ڈیڑھ بجے کلفٹن دو یا تین تلوار کے پاس ہائی روف میں تنہا خاتون اور وہ بھی عجیب و غریب قسم کے رنگ برنگے تفریحی حلیے میں ۔ سنسان سڑک پر کسی رکشے یا ٹیکسی والے نے یا کسی پولیس والے نے ہی مزاج دریافت کر لیے ہوتے تو ہوگئی تھی عزت ، بلکہ عزت کا فالودہ ہوجانا تھا ۔

مولہ آبشار سے آتے ہوئے نیلگوں پانی
فوٹوگرافی: Almost Photography - Majid Hussain

حصہ دوئم  یہاں دستیاب ہے۔

یہ بلاگ 3 اگست 2016 کو دلیل ڈاٹ پی کے پر شایع ہوچکا ہے۔ 

--------------------------------------------

 خصوصی شکریہ برائے تصویر: جناب ابو ذر نقوی، جناب جام اقبال صاحب اور جناب ماجد حسین صاحب

پاکستان میں سیاحت کے حالات کا ایک جائزہ پڑھئیے۔

سیاحت کے شعبے میں سرکاری اور نجی سیکٹر کا احوال جانئیے۔

بلوچستان کے بارے میں مزید جانئیے ۔ ۔ ۔