آج کے تمام اخبارات شب معراج کی تفصیلات سے بھرے ہوئے ہیں۔ میں تین سال مصر میں رہی ہوں لیکن میں نے وہاں شب معراج کے موقعے پر کسی خاص اہتمام تو کیا کسی کے منہ سے بھی اس واقعے کا تذکرہ نہیں سنا۔ یاد رہے کہ مصر ایک عرصے تک اسلام اور مسلمانوں کا تہذیبی اور ثقافتی گہوارہ رہا ہے۔ الازہر یونی ورسٹی آج بھی مسلم دنیا کی مرکزی فتویٰ گاہ شمار ہوتی ہے۔ اسلامی تاریخ کےمتعدد واقعات کے بارے میں ایسا ہی سرد رویہ خلیج اور خطہ عرب کے دیگر ممالک میں نظر آتا ہے جن پر ہمارے ہاں خاصہ جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ اس خطے میں لوگ صرف شب قدر کو ہی جانتے ہیں اور اسی موقعے پر کچھ شو شا کرتے ہیں۔ یا پھر عیدین، سعودی عرب تو کٹر وہابی ہے یعنی کفر سے محض چند قدم ہی پیچھے ہے۔ نابکار کہیں کا۔
بر صغیر میں نبوت اور اسلام سے متعلق تمام واقعات و مواقع کو زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے۔ خاص کر شب معراج کے حوالے سے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کیوں کہ بر صغیر میں مسلمان اقلیت میں تھے اور اکثریت کے اوتار خاص کر ہنومان جی اور دیگر شخصیات آسمانوں پر اڑتے پھرتے تھے، سیکنڈز میں ہندوستان سے سیلون منتقل ہوسکتے تھے اور ایک طرح سے مسلمانوں کے سینوں پر مونگ دلتے تھے۔ تو بر صغیر میں مسلمانوں کو معراج کے واقعے کی زیادہ مشہوری کرنے کی ضرورت پیش آئی، ہندو اکثریت کو جواب دینے یا ان پراسلام کی فوقیت ثابت کرنے کے لیے۔ لہذہ تقسیم سے پہلے اخبارات و رسائل کا جو رویہ تھا وہی تقسیم کے بعد بھی پاکستان میں جاری رہا ، یہ سوچے سمجھے بغیر کے یہ اسلامی مملکت ہے۔ اور یہاں ہمیں کسی پر فوقیت جتانے کی ضرورت نہیں ۔اب اس دوڑ میں الیکٹرانک مڈدیا بھی شامل ہوگیا ہے۔
جبکہ دوسری طرف عرب ممالک جہاں ابتدا میں مسلمان اقلیت میں تھے، ابلاغیات عامہ کے ذرایع بھی ابتدائی Primitive قسم کے تھے، اور اسکے بعد جب سے وہاں مسلمان اکثریت میں ہوئے انہیں کسی اور پر اپنی فوقیت جتانے کی یا مقابلہ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور نہ ہی وہاں ذرائع ابلاغ میں ، سرکاری یا غیرسرکاری میدان میں شب معراج کا چرچا نظر آتا ہے۔
برصغیر کے آرٹ اور کلچر میں براق کی بے شمار شبیہات ملتی ہیں، اپنے بچپن میں آپ نے بھی براق کی تصاویر کسی نہ کسی کے گھر یا دکان میں ٹنگی دیکھی ہوگی جو دراصل ہندو مذہب کی اس دیو مالائی گائے کی تصاویر سے مماثل ہے جسے ہندو مذہب میں بہت زیادہ عزت اور احترام حاصل ہے۔
ہندو براق :پکچر کریڈٹ |
مسلم براق : پکچر کریڈٹ |