طلوع آفتاب سے قبل استولا۔ کاپی رائیٹس: نسرین غوری |
یومِ ثانی:
دوسری صبح غالباً روشنی کے باعث ہماری آنکھ جلد ہی کھل گئی، گو کہ سورج ابھی تک نمودار نہیں ہوا تھا۔ لیکن کافی روشنی تھی۔ شہزاد اور علیم نے ناشتے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ آٹا گوندھا جا چکا تھا۔ ایک دو اور لوگ جاگ چکے تھے ۔ لیڈر آگ لگانے مطلب آگ جلانے میں مصروف تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کے بچے بچیاں خیموں اور سلیپنگ بیگز سے باہر تھے سوائے شیراز اور معیز اور صائم کے جو نہ جانے کیا بیچ کر سوئے تھے کہ جاگتے ہی نہ تھے۔
اب صورت حال کچھ یو ں تھی کہ علیم اینڈعلیزے کمپنی ایک جانب پتھروں سے بنے نیم دائرہ نما کچن میں گیس سلنڈر پرآلو انڈے فرائی کرنے کی تیاریوں میں تھی۔ علیزے نے بہت ہی محنت اور محبت کے ساتھ آلووں کو اسکیل سے ناپ کر با لکل چوکور کیوبز کی شکل میں کاٹا اور بہت سارا کاٹا ۔ جس پر انکو کافی داد ملی۔ دوسری جانب خضر اور شہزاد ڈائیٹ پراٹھے پکانے میں مصروف تھے، شہزاد پراٹھے بیلتے ، اور خضر انہیں کوئلوں پر تاپتے، جبکہ مزمل شعلوں کو ہوا دینے پر مامور تھے۔
ڈائیٹ پراٹھوں کی تیاری، پس منظر میں آلو انڈے فرائی۔ کاپی رائیٹس: نسرین غوری |
ابتدائی چند پراٹھوں پر تیل کا مساج کیا گیا لیکن پھر بقول خضر کے تیل کا نقطہ تبخیر بہت ہی کم درجہ حرارت پر اتر آیا اور تیل تیزی سےہوا میں تحلیل ہونے لگا تو تیل مالش کو سہولت پراٹھوں سے واپس لےلی گئی۔ اور بغیر تیل کے ہی پراٹھے تیار ہونے لگے جسے ہم نے ڈائیٹ پراٹھوں کا نام دیا۔ تیل کا نقطہء تبخیر اتنے کم درجہ حرارت پر لانے پر ڈاکٹر محسن نے خضر کی تعلیمی قابلیت اور سائنسی معلومات پر شک کا اظہار کیا، جسے بغیر تیل کے پراٹھے نوش کرنے والی عوام نے بھرپور پذیرائی دی۔ اس کے بعد خضر کی شامت آگئی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ خضر کے نام کا اثر انکی طبع پر ہوا ہے، جبکہ دوسری پارٹی کا خیال تھا کہ بچپن میں خضر اسکول سے واپسی پر ادِھر ادُھر ہوجاتے تھے اور گھر نہیں پہنچ پاتے تھے تو انکا نام تبدیل کر کے خضر کردیا گیا تاکہ وہ راستہ نہ بھولیں۔ کچھ لوگوں نے اس امر پر حیر ت کا اظہار کیا کہ خضر اپنے مقبرے کے باہر کیا کررہے ہیں۔ اسی طرح چھیڑ چھاڑ اور خوش گپیوں کے دوران ناشتہ نوش کیا گیا۔
دورانِ ناشتہ کسی کو رات کے بچے ہوئے بہاری کباب کی کھر چن یاد آگئی جو ایک عدد بڑے سے پتیلے میں آرام وقیام پذیر تھی۔ یہ وہ بہاری کباب تھے جو ہمیشہ سارے کباب سیخوں پر لگانے کے بعد بچ جاتے ہیں اور کسی کڑھائی یا پتیلے میں ہی دم لگائے جاتے ہیں۔ رات بہاری کباب پارٹی کے بعد جو بچ رہے وہ اسی پتیلے میں قیام پذیر ہوگئے۔ کوئی بندہ دوڑ کر پتیلہ اٹھا لایا۔ اب آنڈے آلو ، اور کباب مکس کر کے کھائے جانے لگے، کسی تخلیقی ذہن کو خیال آیا کہ کباب پلیٹ میں انڈیلنے کے بجائے، آنڈے آلو فرائی کو ہی پتیلے کی سیر کروادی جائے ۔۔ پھر تو رن مچ گیا، پہلے آنڈے آلو فرائی، پھر چٹنی، دہی ، جس کے ہاتھ جو لگا وہ پتیلے میں اور ڈائیٹ پراٹھوں کے ساتھ یہ مکس پلیٹ بلکہ مکس پتیلہ بطور ناشتہ نوش کیا گیا۔ ساتھ میں چائے کا تڑکہ مار کے۔
ناشتے کے بعد زیادہ تر لوگ خود کشی مہم پر یعنی اسنارکلنگ ، ڈائیونگ ، فشنگ اور آب دوز فوٹو گرافی کے لیے تیار ہونے لگے، ہمیں سمندر میں ڈوب کر مرنے کا کوئی خاص شوق نہیں ۔ اور ہماری سمندر سے گذشتہ روز جتنی جان پہچان ہوئی تھی وہ کافی تھی، ابھی اگلے دن بھی ہمیں مزید آٹھ گھنٹے پانی میں گزارنے تھے۔ویسے بھی سمندر میں چلتی کشتی اتنی خطرناک نہیں ہوتی جتنی ٹھہری ہوئی ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو چکر اور الٹیاں رکی ہوئی کشتی میں زیادہ ڈولنے کی وجہ سے آتے ہیں۔ اور ہمیں اندازہ تھا کہ انہوں نے کہیں نا کہیں تو کشتی کو لنگر انداز کرنا تھا۔ چلتی کشتی پر تو اسنارکلنگ نہیں ہوسکتی۔ سو ہم نے آج کا دن زمین پر گزارنے کا فیصلہ کیا۔
اسنارکلنگ عرف خودکشی مہم روانگی سے پہلے۔ کاپی رائیٹس: نسرین غوری |
ہمارا زیادہ انٹرسٹ موجودہ کیمپنگ سائیٹ سے مزید نیچے جانے کے بجائے، مزید اوپر ، مطلب بالکل ہی اوپر نہیں بلکہ محض چند سو فیٹ اوپر جانے میں تھا۔ جزیرہ پر ٹریکنگ کے لیے پہلے دن زیادہ تر لوگ تیار تو تھے لیکن انکا یہ کہنا تھا کہ اوپر جانے کے لیے کوئی باقاعدہ ٹریک نہیں ہے، اور پہاڑی پر چٹانیں مٹی کی اور ڈھیلی ڈھالی ہیں پیر رکھنے پر کھسک جانے کا اندیشہ ہے۔ جبکہ ہمارا خیال تھا کہ جب اوپر مندر ہے تو اسکا مطلب ہے کہ اوپر جانے کا کوئی نہ کوئی راستہ تو ہوگا۔ ۔ جس کے لیے پہلے تو کامران خان اور مزمل تیار تھے ، لیکن پھر شہزاد اور کشتی بان وغیرہ کے ورغلانے پر کامران خان باغی ہوگئے جبکہ مزمل کا زیادہ انٹرسٹ کشتی پر جانے میں تھا ۔ سو وہ ہمیں تسلی دے کر چلے گئے کہ واپس آکر اوپر چلیں گے۔
اسی دوران دو مزید کشتیاں استولا پر تشریف لائیں۔ ان میں سے ایک تو کوئی تفریحی پارٹی تھی جو اپنے ساتھ بکرا وغیرہ لائی تھی ۔ انہوں نے بکرا ذبح کیا، پکایا کھایا اور آدھے دن میں ہی وہاں سے رخصت ہوگئے۔ جبکہ دوسری پارٹی کچھ مشکوک تھی، انہوں نے ہم پر رعب جمانے کی کوشش کی لیکن جواب میں ہماری پارٹی نے جو بھاو دیا تو بھاگ نکلے۔کیوں کہ چور کے دل میں چور ہوتا ہے۔ لیکن جاتے جاتے دو چار ہوائی فائر کر کے اپنی کھوئی عزت بحال کرنے کی ناکام کوشش کی۔
خود کش پارٹی کے جانے کے بعد بچے کھچے لوگوں نے کچہری شروع کردی، جیم کو پتا تھا کہ ہمیں جزیرے پر ٹریکنگ کرنی ہے، سو وہ وہاں موجود دوسری پارٹی کی طرف ٹریک کی معلومات کرنے چلے گئے۔ جبکہ کشتی بان، ہم اور شیراز ، مزمل کے متروکہ پلاٹ پر جھاڑی نما درخت کے نیچے آئس باکسز پر تشریفے کچہری کرتے رہے، جیم جب تک معلومات لے کر آئے، سورج کافی اوپر آچکا تھا ۔ اور اگر اس وقت ہم ٹریک کا آغاز کرتے تو بہت آسانی سے ہم دونوں کی سجی یا دم پخت تیار ہوسکتا تھا، سو ٹریکنگ سہ پہر تک ملتوی کردی گئی۔ اور جیم کچھ دیر ہم لوگوں سے کچہری کرنے کے بعد دوبارہ پانی میں تاری لگانے چل دئیے۔
اس دوران ٹائیڈ اتر چکی تھی۔ اور استولا اور اس کے نزدیک انڈے نما چٹان کے درمیان سے پانی تقریباً غائیب ہوچکا تھا۔ شیراز نے تجویز دی کہ جزیرہ کی سائیڈ بی ڈسِکوَر کی جائے۔ کیمپنگ سائیٹ کے دائیں جانب خواجہ خضر کی خانقاہ کے پیچھے صبح پانی ہی پانی تھا۔ اور اب پانی تقریباً آدھ کلومیٹر پیچھے جاچکا تھا اور اونچی نیچی اور مختلف اشکال کی چٹانیں اور غار پانی سے باہر تھے، ایک دو غار نما گڑھے اس طرح عمودی چٹان میں نمودار ہوئے تھے کہ ان میں سے ایک میں بعد میں ہماری تقریباً پوری عوام آسانی سے سما گئی۔
سائیڈ بی پر ایک ٹوئن ہارٹ لیک ۔ کاپی رائیٹ: نسرین غوری |
مختلف رنگوں کی کائی اور فنگس چٹانوں پر سجی تھی۔ مختلف قسم کی سمندری حیات چٹانوں سے پیوست تھی یا چھوٹے موٹے گڑھوں میں تیرتی تھی۔ سب سے زیادہ تعداد میں مختلف رنگوں کے کیکڑے تھے، سیپیاں، شیلز، ڈگیاں –ایک خاص قسم کی مچھلی جو پانی کے اندر رہنے کے بجائے کیچڑ یا پانی کی قربت میں رہنا پسند کرتی ہے- ایک گیند نما مچھلی جس پر سہ کی طرح کانٹے اگے ہوئے تھے ایک چھوٹے سے تالاب میں آرام کر رہی تھی۔ مہمان پرندوں کی دعوت چل رہی تھی۔ سب سے بڑی بات کہ اس جانب سایہ تھا اور ہوا کا رخ تھا۔
ایک جگہ چٹانی دیوار میں اتنا بڑا سوراخ تھا کہ بندہ تھوڑی کوشش سے پار چلا جائے، لیکن اس عمل میں پھسل جانے یا کپڑوں پر کائی لگنے کےامکانات تھے، سو ہم نے تو جانے سےانکار کردیا لیکن شیراز نے جزیرے کی سائیڈ سی بھی دریافت کرلی ۔ اور ہم نہ سہی ہمارہ کیمرہ جزیرہ کی سائیڈ سی کی سیر کر آیا۔ ہم نے ایک بہت ہی ہوادار قسم کا نیم غار تلاش کیا اور کانوں میں ٹونٹیاں فٹ کر کے سفری نوٹس ٹائپ کر نے میں مصروف ہوگئے، شیراز پانی لینے کیمپ سائیٹ کی طرف گئے، واپسی میں ان کے ہمراہ یاسر، معیز اور علی تھے جس سے ہمیں علم ہو اکہ خود کش خواتین و حضرات واپس آچکے ہیں۔
سائیڈ سی آف استولا۔ کاپی رائیٹس: نسرین غوری، فوٹو کریڈٹ شیراز انیس |
واپس آتے ہی شہزاد، علیم اور خضر خان لنچ کی تیاریوں میں مشغول ہوگئے جبکہ باقی پارٹی استولا سائیڈ بی کی طرف چلے آئے اور کوئی نہ کوئی غار تلاش کر کے اس میں فٹ ہوگئے۔ یہ جگہ اپنی کشادگی، ٹھنڈک اور ہوادار ہونے کی وجہ سےسب کو پسند آئی، سو کُک پارٹی کو ہوم ڈلیوری کی فرمائش کی گئی۔ کک پارٹی نے انتہائی مزے دار دال چاول اور مچھلی فرائی تیار کی تھی اور ساتھ میں اچار ۔ ٹیم لیڈر کو سیلیوٹ کہ سارے ہی تھک کر آئے تھے۔ لیکن ساروں کا حال یہ تھا کہ کوئی یہاں گرا ، کوئی وہاں گرا۔ اور ٹیم لیڈر نے کک پارٹی کے ساتھ مل کر لنچ تیار کیا ۔
اس دوران شدید تیز ہوا چل پڑی اتنی کہ ہر شے میں ریت ہی ریت اور سب کے خیمے الٹ پلٹ ۔ جہاں غار نما میں سب بیٹھے تھے وہاں بھی اوپر سے مٹی کے ذرے ہوا کے ساتھ نیچے برسنے لگے۔ سو فیصلہ کیا گیا کہ بالکل پانی کے ساتھ دری بچھا کر لنچ کیا جا ئے ، کیوں کہ ہوا پانی کی طرف سے آرہی تھی اور صرف پانی کے نزدیک ہی ریت گیلی ہونے کی وجہ سے ریت سے بچت تھی۔ سو سب کو واپس بلایا گیا۔ اور سمندر کنارے دال چاول ، مچھلی اور اچار کے چٹخارے لیے گئے ۔ ایک تو سارےتھک کر آئے تھے، پھر پیٹ میں جب کھانا پڑ جائے تو دسترخوان سے اٹھیں کیسے، سو کھاتے گئے اور لیٹتے گئے۔ وہیں دری پر قیلولہ لاونج سج گیا۔ جبکہ ہم سارا دن آرام سے گانے سننے اور انجوائے کرنے کے بعد تازہ دم تھے۔
پانچ بجے کے قریب علی ، یاسر، مزمل ، جیم اور ہم نے سطح مرتفع استولا کی طرف ٹریکنگ کا آغاز کیا۔ لڑکا لوگ تو جلدی جلدی بڑے بڑے قدم اٹھا کر یہ جا اور وہ جا۔ جبکہ ہم ایک لکڑی اور ایک بچے کی گائیڈانہ صلاحیتوں کے ساتھ ان کے پیچھے پیچھے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم کالی کے مندر کی طرف سے چڑھائی کریں گے۔ لیکن ٹریک دوسری جانب ایک نیم دائرہ نما کچن کے ساتھ ساتھ اوپر اٹھتا تھا اور چاچا جی کے بقول کتُی چڑھائی پر مشتمل تھا۔ تقریباً 85 ڈگری کے زاویے سے ایک زگ زیگ ٹریک ایک دم زمین سے اٹھتا تھا ۔ گو کہ ہم اس سے پہلے ماونٹ سینا ، فیری میڈوز اور رما لیک ٹریک کر چکے تھے لیکن ان میں کوئی بھی اس قدر عمودی چڑھائی پر مشتمل نہیں تھا۔
گو کہ جب سے ہم نے استولا پر قدم رنجہ فرمایا تھا ہماری خواہش تھی کہ ہم ٹریک کریں ، اوپر جائیں لیکن جب لڑکا لوگ ہم سے کافی آگے نکل چکے تھے اور ہم ٹریک پر پہلا قدم رکھ رہے تھے تو اک واری دل میں خیال آیا کہ ہیں ۔۔ یعنی واقعی اوپر چڑھنا ہے ، یعنی کہ واقعی ۔۔ اور ساتھ دل میں یہ دھڑکا بھی تھا کہ اگر نہ چڑھ سکے تو بزتی خراب ہونے کے بھی امکانات ہیں ۔۔"یوں نہ تھا ،ہم نے فقط چاہا تھا یوں ہوجائے" لیکن ہم کسی نہ کسی طور چڑھ ہی گئے۔ اور بہت اچھا ہوا کہ چڑھ گئے۔ کیوں کہ خدا تو رفعتوں میں تلاش کرنے والوں کو ہی ملتا ہے۔ جیسے موسیٰ کو طور پر اور محمد کو جبل نور پر ملا تھا۔ پرہم کون سے پیغمبر تھے کہ ہمیں خدا ملتا ۔ لیکن ہماری اوقات بھر اللہ نے ہمیں جو منظر اوپر سے دکھائے ، ہم ٹریک نہ کرتے تو ان سے محروم ہی رہ جاتے۔
ہمارے پیچھے ایک اور دو رکنی ٹیم ٹریکنگ کے ارادے سے آئی تھی لیکن جانے کیوں آدھے ٹریک تک آکر ہی وہ ٹیم واپس ہوگئی۔ اوپر سے استولا کے ارد گرد کے منظر ہی مختلف تھے۔جو صرف ہم پانچ افراد کے لیے خاص طور پر تخلیق کیے گئے تھے، یا پھر ان اسمگلرز کے لیے جو یہاں عقاب پکڑنے آتے تھے۔ جو استولا ہمارے خیالوں میں تھایعنی چھلانگیں لگانے کے لیے اک وسیع میدان ، وہ دراصل اوپر تھا ۔ نیچے تو کچھ اور تھا استولا نہیں تھا۔ کم از کم تین سے چار کلومیٹر لمبا اور آدھ کلومیٹر چوڑا سپاٹ میدان جس سے ایک ہیلی پیڈ یا چھوٹے طیاروں کے لیے لانچنگ پیڈ کا کام لیا جاسکتا تھا۔ یا پھر مارننگ واک کے لیے ایک انتہائی مناسب ٹریک بنایا جاسکتا تھا۔
گو کہ جزیرہ کا بیشتر نچلا حصہ ریتیلی چٹان پر مشتمل ہے لیکن اس میدان یا پلیٹ فارم کی اوپری سطح ایک سخت اور نسبتاً گہرے رنگ کی پتھریلی تہہ پر مشتمل ہے۔ یہ تہہ دور سے ایسی لگتی ہے جیسے کسی نے مٹیالی چنری پر تانبے کے رنگ کی کناری لگا دی ہو ۔یہ تہہ تقریباً آٹھ فیٹ موٹی سخت اور شاید لاوہ چٹان یا تہہ پر مشتمل ہے۔ اور اس پر جو پتھر پڑے تھے وہ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ کسی سنگ تراش نے اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد پتھر کی فالتو کرچیاں یہاں اوپری سطح پر پھینک دی ہوں۔ ان کرچیوں میں ساکن سمندری حیات کی نشانیاں ہیں جو بتاتی ہیں کہ کبھی استولا سمندر کے اندر یا سمندر استولا کے اوپر ہوتا تھا۔ لیکن یہ تہہ نچلی سطحوں کے مقابلے میں سخت ہے ، یہی وجہ ہے کہ بارش اور ہواوں نے استولا کو اوپر سے کم نقصان پہنچایا ہے، اور اس کا بیشتر حصہ نیچے سے سمندر کی طرف سے کورا لگنے سے سمندر برد ہوتا جارہا ہے۔
بہر حال محمد احسن کے کہنے کے مطابق ہر جزیرہ دراصل ایک زیر آب پہاڑ کی چوٹی ہوتا ہے، تو ہم اس پہاڑ کی چوٹی پر تھے۔ ارد گر نیلا سمندر تھا ، ہماری خیمہ بستی اتنی دور تھی کہ نظر آنا بند ہوچکی تھی کیوں کہ ایک تو ہم بہت دور تھے، دوسرے سورج ہمارے سامنے تھا اور ان پر سے پہاڑ کا سایہ ہونے کی وجہ سے سورج غروب ہوچکا تھا۔ اور ہمارا سورج ابھی غروب ہونا باقی تھا۔ مغرب ہونے والی تھی، سو جلدی جلدی تصاویر کھینچی گئیں اور جو لوگ لنچ کے بعد لم لیٹ ہوگئے تھے ان کو تصاویر نہ دینے کا عہد کیا گیا۔ اوپر ایک مرحوم سولر واچ ٹاور کی باقیات تھیں، ایک عقاب پکڑنے کا پھندا لگا تھا، ٹریک بنانے کی غرض دراصل عقاب پکڑنا ہی تھی۔ ہم نے تو اسکی بائی پراڈکٹ کے طور پر ٹریک کر لیا۔ ایک نیم دائرے میں غالباً قبلہ رخ ایک فرشی بلکہ پتھری مسجد کے سے آثار تھے جہاں مزمل نے شاید عصر کی یا شکرانے کی نماز ادا کی۔
جزیرے پر چہل قدمی کے دوران احساس ہوا کہ اس جزیرے کو ایک ٹورزم اسپاٹ بنا کر پاکستان کا امیج بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ کچھ زر مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔ جزیرہ کا قطر چند کلومیٹر سے زیادہ نہیں جسے با آسانی اوپر فینسنگ لگا کر ٹورسٹوں کو پانی میں گرنے سے بچایا جاسکتاہے۔ نیچے جزیرے کے ارد گرد سمندر میں کنکریٹ بلاک ڈال کر سمندر کا زور توڑا جاسکتا ہے جس سے جزیرہ کا کورا لگنا اور سمندر برد ہونا روکا نہیں تو سست رو کیا جاسکتا ہے۔ جزیرے کے سائز کے مطابق گنتی کے چند حفاظتی گارڈز اور ایک جیٹ بوٹ پورے جزیرے کی حفاظت کے لیے کافی ہونگے۔ بیچ سمندر میں اور نزدیک ترین زمین سے فاصلے پہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے مسئلے پر بھی قابو پانا آسان ہوگا۔ ایک کینٹین اور چند واٹر اسپورٹس کی سہولیات اسے ایک ٹورسٹ ہیون میں تبدیل کر سکتی ہیں۔ ایک نائیٹ کیمپنگ اینڈ واٹر اسپورٹس ریزارٹ ایٹ استولا آئی لینڈ اور اسکی رائلٹی پسنی ڈسٹرکٹ کو ملنے لگے ، اس کے بھی دن بدلیں۔ اس پورے منصوبے پر بہت زیادہ بجٹ کی بھی ضرورت نہیں ۔۔ لیکن ساری بات نیت کی ہے یا پھر مفادات کی۔
اگر ہمارے پاس تھوڑا مزید وقت ہوتا تو ہم پورے سطح مرتفع پر چہل قدمی کرتے اور آخری سرے تک ہوکر آتے۔ لیکن جذبات میں ٹریکنگ ٹیم سے دو غلطیاں ہوگئیں ۔ ایک ہم پانی ساتھ لے جانا بھول گئے ، یہ تو شکر ہوا کہ ٹریک مشکل سے پندرہ سے بیس منٹ کا ہے۔ اور دوسرے ہم پانچ افراد کے پاس ایک ٹارچ تھی۔ لہذہ سو رج غروب ہوتے ہی ہم نے واپسی کے لیے شوٹ لگا دی ، یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ شوٹ لگانی پڑ گئی تاکہ افق پر شفق ڈوبنے سے پہلے پہلے ہاتھ پیر تڑوائے بغیر سب سنگل پیس میں زمین پر اتر آئیں ۔ گو کہ چاند تقریباً تکمیل ہوا چاہتا تھا اور اسکی روشنی بھی کافی تھی لیکن اتنے عمودی ٹریک سے بخیریت واپسی کے لیے ناکافی تھی۔ اور ابھی چاند اسی پہاڑی کی اوٹ میں تھا۔
کاپی رائیٹس: نسرین غوری |
اور جیسا کہ چاچا جی کے ہی مطابق چڑھائی فٹے منہ، اترائی در فٹے منہ، تو سب سے آگے آگے ہم تھے اور ہمیں ہدایت تھی کہ راستہ بلاک نہیں کرنا ، جلدی جلدی اترنا ہے، سو ہمارا حال ہم جانیں یا اللہ جانے، ساتھ میں فرمائشیں کہ رکیں آپ کی ٹریک کے بیچ میں فوٹو بھی لینی ہے۔ اور اللہ مزمل کو ہدایت دے کہ اسے کس نے غلط اطلاعات فراہم کیں کہ ہم شعر و شاعری سے شغف رکھتے ہیں ۔ اور اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ یہ مس انفارمیشن آگے بڑھا دی۔ راستے میں جیم کی ہدایت آئی کہ آپ نیچے اتر کر رکیے گا آپ سے کام ہے۔ لو دسو بھلا اسے ہم سے کیا کام پڑنا تھا، ہمیں اس سے کام پڑسکتا تھا۔
خیر جیسے جیسے نیچے پہنچ رہے تھے نیچے پتھریلے کچن سے آتی چائے کی "خشبو " ہمیں ہوش و حواس سے بے گانہ کیے دے رہی تھی۔ نیچے آتے ہی ہمارا سب سے پہلا مطالبہ پانی کا تھا، ناکوا اور اس کے معاونین نے معذرت کی کہ انکا پانی عام پانی ہے، ہمارے پینے کا نہیں ۔۔ لیکن ٹرپس پر اور ایسے ٹریک کے بعد پانی جیسا بھی ہو پانی ہوتا ہے، اور اگر وہ پانی نہ ہو تو تھوڑی دیر بعد آپ کے ہونے کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ۔ سو ہم نے کہا بھائی جیسا بھی ہے پانی تو ہے، لاو دو ، پانی کے بعد ہوش آیا تو پوچھا کہ چائے ہے، پتہ چلا کہ ابھی ابھی چائے کا دور ختم کر کے فارغ ہوئے ہیں ، لیکن ان مہربان لوگوں کی مہربانی کہ ہمارے لیے دوبارہ چائے تیار کر کے ہمیں تازہ دم کر دیا۔ زندگی میں چائے بہت پی ہے لیکن مزے دار چائے بہت کم۔ اور سب سے مزے دار چائے وہ ہوتی ہے جو خواہش پر مل جائے، اور یہ ان بہت کم مزے دار چائے میں سے ایک چائے تھی۔
چائے کے دوران جیم نے کہا کہ مزمل کا کہنا ہے کہ آپ کو شاعری کا شوق ہے تو آپ ہمیں شاعری سنائیں۔ اس مس و ڈس انفارمیشن پر ہم نے مزمل کو ایک گھووری پلائی ، پتہ لگا کہ اصل میں مزمل سے فرمائش ہوئی تھی کہ وہ کوئی شعر یا غزل سنائیں اور انہوں نے اپنی بلا ہمارے گلے ڈال دی تھی۔ شعر و شاعری کے بارے میں ہماری رائے اور قابلیت بزم ادب کے لوگ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم اس معاملے میں بالکل کورے ہیں ۔ میٹرک اور انٹر کے زمانے کے کچھ شعر بلکہ مصرعے آدھے ادھورے ہمیں یاد ہیں یا پھر وہ مصرعے جو اب ضرب المثل بن گئے ہیں ، ہمارا سارا کاروبار انہیں چند مصرعوں سے چل جاتا ہے اور عزت رہ جاتی ہے۔
جیم کو پروین شاکر کے جگنو یاد آرہے تھے، بہت ذہن پر زور ڈالنے پر یاد آیا کہ ان کی ایک غزل غالباً "اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی" ذرا ذرا ہمیں یاد ہے، لیکن اسکے دو شعر جس طرح ہم نے بلا مبالغہ ٹوٹے ٹوٹے کر کے سنائے۔ اس کے بعد ہمیں یقین ہے کہ چاروں حضرات نے آئیندہ ہم سے شاعری سننے سے توبہ کر لی ہوگی۔ بقول مزمل اگر ان کی امی اس طرح شعر سن لیں تو میری اچھی خاصی کلاس ہوجائے۔ لو دسو ، ،،ایک تو ہم نے اپنی زندگی کا ناقابل یقین کارنامہ کیا کہ پورے پورے دو شعر سنائے اس پر ہمی کو دھمکیاں ، ہم نے فرمائش کی تھی کہ ہم سے سنو ۔
ٹریکنگ کے بعد ہم پانچو ں کی متفقہ رائے تھی کہ اس ٹریک نے اس ٹرپ کے پیسے وصول کروا دیے، اگر ہم اوپر نہ جاتے تو ٹرپ ادھورا رہ جاتا تھا۔ ہمارا ٹرپ تو ادھورا ہی رہا کیوں کہ ہم پانی کے نیچے تو نہیں جاسکے تھے۔
واپس کیمپ سائیٹ پہنچے تو تقریباً ساری عوام اسی دسترخوانی دری پر دراز پڑی تھی۔ سو ہم بھی وہیں کہیں ٹک گئے۔ چاندنی رات نقرئی آنچل کی طرح پھیلی تھی اور چاندنی میں ممی ٹرٹلزکی قطاریں شرماتی ہوئی آتیں اور اپنی پسند کے ڈلیوری روم میں غائب ہوجاتیں۔ اس رات ہم نے آٹھ ممی ٹرٹلز کو ڈلیوری روم کی تلاش میں سرگرداں دیکھا۔جنہیں کامران خان نے مسز ٹرٹلز کا نام دیا۔ حسب معمول عوام ان ممی جیز پر ٹوٹ پڑی اور فلیشز کی روشنی سے انہیں اچھی طرح بے زار کیا۔
تھوڑی دیربعد ایک بے بی ٹرٹل لیڈر کو اپنی ممی سمجھ کر ان کی جانب چلا آیا اور وہ سوتے سے اچھل کر اٹھ بیٹھے۔ غالب گمان ہے کہ کسی سفری نے شرارت میں ان کی شرٹ میں کشو کومہ ڈال دیا تھا۔ شیراز نے خضر کا کردار نبھاتے ہوئے اس کشو کومہ کو اس کی منزل پانی تک پہنچایا۔ خدمت خلق عین عبادت ہے اور ٹرٹلز بھی اللہ تعالی کی تخلیق ہیں اور بہت خوبصورت تخلیق ہیں .. کہ کسی دور دراز جزیرے پر جا کر وہاں کے باسیوں کی زندگی عذاب نہیں کرتے۔
جس کو کشو کومہ سمجھ نہیں آتا وہ مستنصر حسین تارڑ کا "ہزاروں راستے" دیکھے۔ اسی دوران شہزاد نے اپنی شکار کی ہوئی گِھسّڑ مچھلی فرائی کی اور علیم نے باقی ماندہ مچھلی کا انتہائی اشتہا انگیز خوشبو والا سالن اور خشکہ چاول تیار کر لیے۔ جس کی مہک ویسے ہی دل بے ایمان کرتی تھی ، جیسے کسی پنجابی مٹیار کا دوپٹہ ماہی دے نال گلاں سن کے بے ایمان ہوجاتا ہے۔
ڈنر کے بعد سب پر اچانک سفر سوار ہوگیا۔ کہاں تو صبح ناشتے کے بعد آٹھ بجے روانگی تھی اور کہاں صبح چار بجے روانگی طے کی گئی اور ناشتہ کشتی پر منتقل کردیا گیا ، لیکن اس فیصلے سے امیر البحر کو بے خبر رکھا گیا۔ تمام غیر ضروری سامان پیک کر کےرکھ دیا گیا اور "مسافرانِ شب" کو ہدایت دی گئی صبح صرف اپنا اپنا بیک پیک اور حسب توفیق خیمہ یا سلیپنگ بیگ خانہءِ با دوش کریں اور جہاز میں سوار ہوجائیں ۔ گو کہ ہماری کشتی چھوٹی سی تھی لیکن جس طرح وہ ہمیں بخیریت اس دور دراز جزیرے پر لے آئی تھی تو اسے پیار سے جہاز کا خطاب نہ دینا نا انصافی ہوگی۔ اسی لیے ہم ناکوا کو بھی امیر البحر کے عہدے پر پہلے ہی پروموٹ کر چکے ہیں۔ اس جہاز پر چار پانچ "جہاز" بھی سوار تھے، یہ ہمیں اپنے سفر کے تقریباً درمیان میں معلوم ہوا۔ لیکن جب "جہاز" اپنے "راستے " لگے ہوں اور آپ کو ڈسٹرب نہ کرتے ہوں تو سانوں کیہہ۔
صبح تقریباً تین بجے کوچ کا نقارہ ، باقاعدہ ڈبہ پیٹ پیٹ کر بجایا گیا۔ دھڑا دھڑ خیمے الٹ دیے گئے ویسے بھی محرم کی تاریخیں تھیں تو خیمے ڈھانا تو بنتا تھا ،" رسم دنیا بھی تھی، موقعہ بھی دستور بھی" اور جلدی بھی تھی۔ سامان لپیٹا گیا اور جا کر ڈپارچر لاونج میں ڈھیر کردیا گیا۔ امیر البحر کو رات گئے ہونے والے فیصلے سے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا تھا تو وہ ساری مسز ٹرٹلز ، کشوکومے، کیکڑے اور مچھلیاں بیچ کر ساحل سے سو دوسو فٹ دور جہاز میں سویا ہوا تھا۔ اب اسے کیسے خبر ہو کہ ہم روانگی کے لیے تیار ہیں۔ پہلے پہل ساروں نے اپنی ٹارچوں کی بیم کشتی پر ڈالیں۔ پھر بلنکنگ روشنی ڈالی گئی، روشنی کے دائرے بنائے گئے۔لیکن روشنی خاموش تماشائی ہوتی ہے۔ سو اسے کچھ خبر نہ ہوئی کہ باہر ہم سب نے کیا رولا ڈالا ہوا ہے۔
پھر یہ طے ہوا کہ سب ملکر اسکا نام لے کر چلائیں تو شاید آواز اس تک پہنچے۔ یہ ترکیب کار گر ہوئی اور تقریباً 30/ 35 منٹ کی "چّلِا چّلی" کے بعد کپتان صاحب جاگ گئے اور کشتی سو دوسو فٹ سے آگے آکر پچاس فٹ پر لنگر انداز ہوگئی ، سارا سامان اور سارے بندے کشتی سور ی جہاز پر لاد دئیے گئے۔ جی ہاں لاد دئیے گئے۔ کیوں کہ کشتی پر سوار ہونے کی یہی ترکیب ہے، نہ اورمارہ پر نہ ہی استولا پر باقاعدہ تو دور کی بات بے قاعدہ سا بھی کوئی گھاٹ نہیں ہے۔ سو کشتی ساحل سےاتنی ہی دور رہتی ہے کہ وہ مزید آگے آکر ریت میں نہ پھنس جائے۔ اسطرح نیم شب تاروں کی چھاوں میں آئی لینڈ سے واپس مدر لینڈ کی طرف سدھارے۔
واپسی کے سفر میں جب ہم اورمارہ کے قصبے کے واحد بازار میں ایک گراسری اسٹور سے کولڈ ڈرنک اور جوسز وغیرہ خرید رہے تھے تو ہماری ہم سفر دو دیگر خواتین نے باآواز بلند ایک نعرہ مارہ "ارے خواتین۔۔ " تین بلوچ خواتین سڑک سے ایک گلی میں مڑ رہی تھیں۔ ساری کوسٹر ہنس پڑی ، لگی انکا مذاق بنانے۔ لیکن اس میں مذاق بنانے والی کوئی بات نہیں تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ جب سے ہم کراچی سے کوسٹر میں سوار ہوئے تھے، حسن ہوٹل ہنگول کے بعد کسی خاتون کی جھلک تک نظر نہیں آئی تھی حسن ہوٹل پر بھی کراچی کی خواتین تھیں، جو ڈے ٹرپ پر کسی ٹوور آپریٹر کے ساتھ ہنگول نیشنل پارک کی سیر کو آئی تھیں۔ تو اچانک تین دن بعد تین خواتین کو دیکھ کر انکا پرجوش ہونابنتا ہے باس ۔
استولا سے واپس اورمارہ کا روٹ ۔ فوٹو کرٹسی : خضر ایم راشد |
سفر کی چھلنی:
تارڑ صاحب کے بقول سفر ایک ایسی چھلنی ہے جس میں انسان کی تمام تر کمینگی اوپر آجاتی ہے، اس کے تمام خول اتر جاتے ہیں اور وہ قدرے اوریجنل ہوجاتا ہے۔ کسی بھی ٹرپ پر کسی ایک چڈی بڈی کاساتھ ہونا ایک نعمت سے کم نہیں ہوتا لیکن ایک بالکل نئے گروپ کے ساتھ جس سے پہلے کوئی دعا سلام بھی نہیں تھی سفر کرنا ایک اچھا تجربہ رہا۔ یہ ٹرپ جیسے اللہ میاں نے خاص طور پر دیکھ بھال کر ترتیب دیا تھا۔ محرم کی تین چھٹیاں تھیں سو کسی کو چھٹیوں کا کوئی مسئلہ نہ ہوا۔ موسم بھی اچھا ملا، ہمارے واپس آتے ہی سرد ہوائیں چل پڑیں۔ لوگ بھی اچھے ملے۔ اپنے کام سے کام رکھنے والے، ہر کام میں خوشدلی سے شریک ہونے والے، اور کسی بھی بات کا برا نہ ماننے والے۔ ایک سفر جس کا آغاز بہت سارے نئے اور اجنبی چہروں کے ساتھ ہوا اس کے اختتام پر بہت سارے اچھے دوست بلکہ بقول کسے "دوستوں کا ایک نیا سیٹ" مل گیا ۔ اس سفر کی چھلنی میں سب چھن کر اجلے نکلے۔
تو پڑھنے والوں کو ہمارا ایک ہی مشورہ ہے کہ :
سمندروں کے سفر پہ نکلو
تو اس جزیرے پہ بھی اترنا
ختم شد