ہم جس کتاب کو پڑھتے ہیں اسکی محبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ کتاب کے اندر جو کچھ ہے اس سے محبت تو سمجھ میں آتی ہے، صاحب کتاب سے محبت بھی سمجھ میں آتی ہے، لیکن خود اس کتاب سے، کتاب کے اوراق سے، محبت ہونا ایک الگ بات ہے۔ ہم جس کتاب کو پڑھ لیں اور وہ کتاب ہمیں لڑ جائے، بس وہ کتاب اگر ہم سے جدا ہوجائے تو "کی حال سناواں دل دا، کوئی محرم راز نہ مل دا " والا معاملہ ہوجاتا ہے۔
بھلا بتاو ، یہ بھی کوئی تک ہے، پر اس معاملے میں ہم واقعی بے بس ہیں۔ اپنی پڑھی ہوئی کتاب ہی دوبارہ پڑھنی ہوتی ہے، اسی کتاب کی دوسری کاپی ناقابل قبول ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر ہماری کوئی کتاب کسی اور دوست کے پاس ہو تو جب تک وہ کتاب بسلامت واپس بک شیلف میں نہ پہنچ جائے ہمیں چین نہیں پڑتا۔
کتاب پڑھتے ہوئے ہم اپنی پسند کے پیراگرافس کو آخری صفحے پر پیرا گراف کے نام کے ساتھ صفحہ نمبر نوٹ کرتے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں کوٹیشن مارکس لگاتے جاتے ہیں، کہیں انڈر لائین کرتے جاتے ہیں ۔ اس طرح ہر کتاب ہماری پرسنل کتاب بن جاتی ہے۔ ہماری محبوب کتاب۔
ہماری بعض کتب تو نایاب ہیں یعنی وہ چھان بور والے سے خریدی ہوئی ہیں یا راستے میں گری پڑی ملی تھیں لیکن ہیں کلاس کی کتب، ان سے دوری ہمیں بالکل منظور نہیں۔ اور وہ کتب ہم کسی کو دینے کی روادار نہیں ہیں۔ صاف کورا جواب۔
ایک بار اپنی مطالعہ شدہ کتاب ایک دوست کو گفٹ کردی، اس کے بعد اسی کتاب کی ایک اور کاپی خرید لائے، لیکن وہ "ہماری" کتاب نہیں ہے۔ وہ کوئی اجنبی کتاب ہے، خرید کر بطور فارمیلیٹی تو شیلف پر رکھ دی ہے، لیکن ایک بار بھی کھول کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی ہے۔ پڑھنا تو دور کی بات ہے۔
ابھی تازہ تازہ عشق جس کتاب سے ہوا ہے، وہ ایک دوست سے ایک ٹرپ کے دوران ادھار مانگ کر لےگئے تھے کہ بور ہوئے تو پڑھ لیں گے، پر کتاب تو ہمیں "لڑ" گئی ہے، ابھی تھوڑی سی ہی پڑھی ہے، لیکن "اب لگن لگی کی کرئیے، جی سکیے ، نہ مریئے" ، سو اب سوچ رہے ہیں کہ کی کرئیے، اسکی کتاب پڑھ کر غائب کرئیے یا جتنا پڑھ لیا کافی ہے مزید اپنی کتاب خرید کر پڑھئیے ۔