زیرو پوائنٹ |
ویسے یہ حالات 5/6 سال پہلے تک کےہیں۔ اب تو آن لائن ٹوور آپریٹر اور کنڈ ملیر میں ڈے ٹرپس کے آغاز کے بعد حالات کافی بہتر ہیں اور حسن ہوٹل ہنگول پر کافی سہولیات مل جاتی ہیں ۔ لیکن پھر بھی ہم جیسے پرانے پاپی اپنا ناشتہ ، کھانا اور چائے شائے خود پکانے اور کھانے کے حق میں ہیں۔ سو جب ہمارا قافلہ چلتا ہے تو خواہ وہ ایک ہی گاڑی پر مشتمل ہو، اس میں پورا "خانہ" دانی کا سامان ساتھ ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ سوئی دھاگہ تک ۔۔ دو دن کا پروگرام تھا جس میں دو ناشتے، دو لنچ، ایک ڈنر کے علاوہ ڈنر کے بعد اور راستے میں چرنے چگنے کے لوازمات تھے۔
بھائی نے سامان جمع کرنا شروع کیا، جیسے جیسے سامان کا ڈھیر اونچا ہوتا جاتا تھا ۔ ویسے ویسے ہمارا بلڈ پریشربڑھتا جاتا تھا کہ اتنا سامان کہاں فٹ ہوگا ہماری ہائی روف میں ۔۔ مزمل سے کچھ سامان اپنی گاڑی میں فٹ کرنے کی درخواست کی،، جو کچھ رد و قدح کے بعد قبول کر لی گئی، لیکن سامان پھر بھی زیادہ تھا۔۔ مزمل سے پوچھا کہ اور سامان کی گنجائش ہے، جواب نفی، پوچھا کہ روف ٹاپ ریک ہے، جواب نفی، ان کو شرم دلانے کی ناکام کوشش کی کہ کیسے کیمپر ہو کہ گاڑی پر ریک نہیں ہے، لیکن جس نے کی شرم اسکے پھوٹےکرم ،سو کوشش ناکام ہوگئی۔ ہول صرف ہمیں ہی نہیں آرہا تھا، بلکہ بھائی کو بھی آرہا تھا۔ پھر جتنے دن باقی تھے اتنی ہی چیزیں یاد آئے جارہی تھیں کہ یہ تو لسٹ میں ہے ہی نہیں ۔ یہ شامل کرنا بھول گئے، ہائے اس کے بغیر کیسے گزارہ ہوگا۔
سامان کی عبوری فہرست |
جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات ہمیں کراچی سے نکلنا تھا۔ رات یا صبح چار 5 بجے مزمل اینڈ کمپنی سے حبیب بنک سائیٹ پر ملاقات طے کی۔ بھائی نے رات کو ہی سامان گاڑی کے اوپر اور اندر فٹ کرنا شروع کیا۔ بہر حال تقریباً سارا سامان کسی نہ کسی طرح فٹ ہوا، کچھ چھت پر، کچھ سیٹوں کے نیچے اور کچھ سیٹوں پر۔ پھر بھی کچھ نہ کچھ رہ ہی گیا۔ بچوں کو رات کو ہی تیار کر کے سلا دیا گیا کہ سویرے سوتے سے اٹھا کر لے جائیں گے۔ ہم تو خود بھی اسی ارادے سے تھے کہ تیار ہوکر سو جائیں بس صبح اٹھ کر بند آنکھوں سے ہی گاڑی میں بیٹھ جائیں گے۔ پر ارادے پر عمل سے باز رہے۔
جب کہیں نہ جانا ہو تو نیند بھی غائب ہوجاتی ہے، پر کہیں جانا ہو تو ایسی نیند آتی ہے کہ الارم کیا چیز ہے اس نیند کےسامنے۔ پر ہمارا بھائی اس معاملے میں بہت پکا ہے، عام دنوں میں کوئی دس بجے سے پہلے اٹھا کر دکھا دے۔ اور کسی پروگرام پر جانا ہو تو ایک منٹ ادھر نہ ادھر کھٹ سے وقت پر کھڑا ہوجائے گا اور دوسروں کو بھی کھڑا کردے گا۔ وہ بھی کیا کرے کہ پانچ سال کی عمر سے کمپنگ کر رہا ہے، پکا کیمپر بن چکا ہے ۔ سو سب چار بجے بستروں سے باہر تھے۔ فریش اپ ہوکے سارے گاڑی میں فٹ ہوئے اور مزید باقی سامان فٹ کیا، بچوں کو سوتے میں ہی اٹھالیا جو کہ گاڑی میں بیٹھتے ہی ایسے اٹھ بیٹھے جیسے سوئے ہی نہ تھے ۔ اور چل پڑے، چلتے ہی مزمل کو فون کیا کہ ہم نے کک مار دی ہے گاڑی کو ۔۔
مزمل سے طے کیا تھا کہ حبیب بنک فلائی اوور کے بعد بائیں جانب جو پہلا پٹرول پمپ آئے گا وہاں ہم انکا انتظار کریں گے۔ سوپچھلے پروگرامز میں مزمل کی پنکچوئیلیٹی دیکھتے ہوئے ہم انتظار کرتے رہے اور وہ ہماری "گذشتہ پنکچوئیلیٹی" کے پیشِ نظر اطمینان سے آئے۔ دعا سلام کے بعد کچھ سامان انکی گاڑی میں فٹ کیا۔ اور دوبارہ کک ماری ۔۔
ہیں ،،، یہ کیا ،، ہماری گاڑی نے اسٹارٹ ہونے سے انکار کر دیا ۔۔ یہ کام وہ اکثر و بیشتر شہر میں بھی کرتی رہتی تھی۔ اور ہر بار کوئی نہ کوئی اس کے نیچے لیٹ کر کرنٹ کا تار اسکی جگہ پر فٹ کردیتا تھا ۔۔ ہم اپنے اور پرائےہر مستری کو اس تار کومستقل بنیادوں پر فٹ کرنے کا کہہ کہہ تنگ آچکے ہیں پر کوئی فٹ نہیں کرتا ، خیر ہم نے سوچا پریشانی کی کیا بات ہے، ابھی بھائی تار فٹ کیے دیتا ہے، پر سب کچھ کر کے دیکھ لیا گاڑی صاحبہ اسٹارٹ ہونے سے منکر رہیں۔ اب ہمارا حال پتلا کہ اتنے شوق سے پروگرام بنایا، اتنی تیاری کی، اوراگر گاڑی نہ چل سکی تو اپنی ہی نہیں مزمل والوں کی پکنک بھی کرکری ہونے کا اندیشہ تھاجو دو سال سے ٹلتی چلی آرہی تھی۔
گاڑی کو دھکا اسٹارٹ کیا گیا کہ وندر پر شاید کوئی مکینک دستیاب ہو۔ اورہماری ہائی روف اور مزمل کی کورے بالترتیب کچھوے اور خرگوش کی چال سے چل پڑے۔ یہ ایک کچھوے اور خرگوش کی ریس تھی جس میں خرگوش کو کچھوے کو اپنی نظر میں رکھتے ہوئے چلنا تھا۔ وندر سے پہلے ایک ٹرک ہوٹل ہے جہاں ناشتہ کا پروگرام تھا کہ وہاں کے پراٹھے اور چائے بہت مزےدار ہوتے ہیں۔ مزمل کو اگلا میٹنگ پوائنٹ بتا کر کچھوا اپنی چال چلا اور خرگوش کو وقتی طور پر آزاد چھوڑ دیا گیا۔
سورج ہمارے پیچھے پیچھے جھانکنے کو آیا کہ یہ کون پاگل ہیں۔جب ہمارا کچھوا ہوٹل پہنچا، مزمل اینڈ کمپنی ناشتہ سے تقریباً فارغ ہوا چاہتی تھی ۔ بالترتیب باتھ روم، ناشتہ، مستری کی تلاش کے سیشن ہوئے، اتنی صبح مستری کہاں سے ملتا، بہر حال بھائی نے وہیں ہوٹل کے ساتھ ہارڈ وئیر شاپ سے کچھ اضافی بجلی کا تار حاصل کر لیا اور گاڑی ڈائیریکٹ کر کے اسٹارٹ کی ۔۔ پھر سارے ٹرپ میں گاڑی کی ترکیبِ استعمال یہی رہی کہ ہر جگہ ڈرائیور سیٹ اتار کے گاڑی ڈائریکٹ کرکے اسٹارٹ کی جاتی پھر سیِٹ سیٹ کر کے ڈرائیور صاحب گاڑی چلاتے۔
وندر سے چلے تو زیرو پوائنٹ پر معمول کی پوچھ گچھ اور فوٹوگرافی کے لیے رکے پھر طے ہوا کہ الحسن ہوٹل ہنگول پر ملاقات ہوگی، دوسری پارٹی سیدھے ہنگول روانہ ہوگئی جبکہ ہم کچھ دیر راستے میں ابا کے جاننے والے مقامی دوستوں سے ملاقات کے لیے رکتے ہوئے دوپہر سے پہلے الحسن ہوٹل ہنگول پہنچے۔
الحسن ہوٹل دریائے ہنگول پر پل پار کرنے کے بعد دائیں جانب ایک پڑاو ہے جسے ہم نے ایک چھپرے سے ایک بڑے ہوٹل میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے، شروع میں جب ہم یعنی خواتین پہلی بار آئے تھے تو الحسن ہوٹل ایک کریانے کی دکان زیادہ اور ہوٹل کم تھا۔ رفتہ رفتہ ترقی کر کے یہ اب ہوٹل زیادہ بلکہ بہت ہی زیادہ ہوٹل اور دکان کم ہوگیا ہے۔ ابھی دن شروع ہوا تھا لیکن گرمی نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا تھا۔ سو کولڈ ڈرنک کا ایک ایک سوٹا لگایا گیا ۔
تھوڑی دیر ٹھہر کر نانی ہنگلاج یا ہنگلاج ماتا مندر کو چلے۔ عموماً نانی ہنگلاج مندر سونا پڑا ہوتا ہے لیکن اس دن کافی رونق تھی۔ کافی ہندو زائرین سندھ اور پاکستان کے طول و عرض سے زیارت و عبادت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ زیادہ تر لوگ خصوصاً خواتین کافی سجی بنی ہوئی تھیں ، زیادہ عقیدت رکھنے والے چپل یا جوتوں سے بے نیاز تھے۔ راستے میں مقامی اور مذہبی سوغاتوں کی عارضی دکانیں بھی سجی ہوئی تھیں۔ ایک میلے کا سا سماں تھا۔
ہنگلاج ماتا یا نانی ہنگلاج کا مندر ہندو ازم کا ایک اہم مندر ہے۔ دیوتاوں کی لڑائی کے دوران ایک دیوی"ستی" کی لاش کے ٹکڑے پورے برصغیر میں55 مختلف جگہوں پر بکھر گئے تھے۔ کہیں پر ایک ٹانگ، کہیں پر دوسری کہیں پر پیر اور کہیں پر ہاتھ۔ نانی ہنگلاج کے مقام پر دیوی کا سر گرا تھا۔ سو ہر ہندو کے لیے اس مقام پر زندگی میں ایک بار حاضری ضروری ہے۔ ہنگلاج مندر کی اسی اہمیت کے پیش نظر ہنگول ڈیم کا منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ کیونکہ ہنگول ڈیم بننے کی صورت میں نانی مندر کے دریا برد ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اسی خطرے کے پیش نظرمندر کی انتظامیہ دن بہ دن مندر کو وسعت دیتی جارہی ہے۔ ہر وزٹ پر ایک نئی چٹان کو سندور لگا کر دیوی دیوتا میں تبدیل کیا ہوتا ہے۔ یعنی قبضہ سچا، دعویٰ جھوٹا۔
نانی ہنگلاج مندر |
نانی مندر کے اندر جانے والے سیاحوں کی ٹھیک ٹھاک چیکنگ ہورہی تھی، کسی کو روک لیا جاتا ، کسی کو جانے دیا جاتا، خاص کر اگر وین لڑکوں سے بھری ہوتی تو انہیں جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی، جس کی وجہ بعد میں مندر کے پروہت نے بتائی کہ کیون کہ ان کا "نوراتری" تہوار چل رہا ہے جس میں نو دن روزہ رکھنا ہوتا ہے اور عبادت کرنی ہوتی ہے، تو اکثر سیاح انکی خواتین کی مووی اور تصاویر وغیرہ بلا اجازت اتار لیتے ہیں اور پھر انٹرنیٹ [فیس بک] پر ڈال دیتے ہیں ۔۔ اور عبادت کے دوران لڑکے چڈَے پہن کر آجاتے ہیں جو مناسب نہیں ۔ انکا یہ اعتراض بجا تھا۔
مندر کی "سڑک" پر بچوں نے خوب خوب ٹریکنگ کی۔ خاص کر حسن نے گود میں آنے سے صاف انکار کردیا۔ اچھی طرح "زیارات" سے فیضیاب ہوکر واپسی کا قصد کیا، ایک دو دکانوں پر سووینئرز دیکھے، بہت کچھ پسند آرہا تھا پر قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں، سو ایک عدد "ایلیفنٹ گاڈ" خریدنے پر اکتفاکیا اب وہ ایلیفنٹ گاڈ ، طوطخامون اور نفرتیتی کے ساتھ ہمارے بک شیلف میں رہائش پذیر ہے۔
نانی مندر سے واپسی کے بعد الحسن ہوٹل پر لنچ کیا۔ لنچ کے لیے گھر سے قورمہ پکا کر لے گئے تھے جو اب قورمہ کے بجائے جھٹکے کھا کھا کر قورمہ قیمہ کڑھائی ہوچکا تھا۔ ہوٹل سے تازہ روٹی اور سلاد کے ساتھ یہی قورمہ بھجیا تناول کی اور اس پر پیپسی کا تڑکہ لگایا گیا ، بقول بھائی کے بغیر پیپسی کے اچھا کھانا اشبھ ہوتا ہے۔ الحسن ہوٹل اب خاصے رقبے پر مشتمل ہے ، آگے بڑے بڑے چبوترے جن پر میٹ اور گاو تکیے پڑے ہوتے ہیں ، سائیڈز میں چارپائیاں اور اسٹولز بھی نظر آجاتے ہیں ، پیچھے ایک بڑا ہال نما کمرہ حال ہی میں تعمیر کیا گیا ہے جس میں چہار جانب بڑی بڑی کھڑکیاں، دروازے اور باہر جیسے ہی بڑے بڑے چبوترے دیواروں کے ساتھ اور درمیان میں بنائے گئے ہیں جن کا مقصد سیاحوں اور جہاں گردوں کو بہکانے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ کھانا کھانے کے بعد سیاح سستانے کے لیے وہیں لیٹ جائے اور پھر ڈنر کے وقت ہی اٹھے۔ مزید پیچھے واش روم کی سہولت ہے۔
ہوم میڈ قورمے کی بھجیا |
کھانا کھانے کے بعد احساس ہوا کہ ابھی تک خاصی گرمی ہے، اور اگر ہم ابھی کیمپ سائیٹ پہنچ جاتے ہیں تو ہمارا دم پخت یا روسٹ بن جانے کے امکانات کافی زیادہ ہیں ۔ فیصلہ کیا گیا کہ کم از کم 3 بجے کے بعد آگے چلا جائے ۔ ویسے بھی ہماری منزل زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹے کے فاصلے پر تھی۔ سو ہم بھی بہکائے میں آگئے اور ہال کی سائید میں بنے ہوئے چبوتروں پر پڑی چٹائیوں پر دراز ہوگئے، کیونکہ وہاں ہال سے زیادہ ہوا تھی۔ بچوں کا ڈاک خانہ اب تک مل چکا تھا اور چاروں ایک دوسرے کے ساتھ باہم شیر و شکر ادھر سے ادھر دوڑتے پھر رہے تھے۔ اسی دوڑ بھاگ میں میکائل کا پاوں چٹائی میں پھنسا اور میکائل صاحب دھڑام، ان کے چشمے کا کنارہ ان کی آئی برو میں کٹ لگا گیا اور خون نکل پڑا ۔۔ اب وہ کم روئیں، اور میشا زیادہ روئیں ، ان کو سنبھالا ، کسی نہ کسی طرح میکائیل کا خون بند کیا ۔ بچے تھوڑی دیر نچلے بیٹھے پھر وہی بھاگ دوڑ۔
ہم چائے سے اپنے قیام کو بہلا رہے تھے کہ ہمیں ایک شناسا چہرہ نظر آیا۔ ہمارے لنچ کے دوران ہی دو تین بڑی کوسٹرز بھر کر الحسن ہوٹل پر لنچ انداز ہوچکی تھیں۔ جن سے ہم نے اور جنہوں نے ہم سے ویسے ہی تغافل برتا جیسے پاکستانی پاکستانیوں سے خان الخلیلی بازار قاہرہ میں برتتے تھے۔ اصل میں یہ کوئی ٹوور آپریٹر کے ساتھ آئے ڈے ٹرپرز تھے۔ اب جو شناسا چہرہ ہمیں نظر آیا تو ہمیں لگا کہ ہم جنوری میں فریال و بخاری کے ہمراہ جس ٹوور آپریٹر کے ساتھ آئے تھے یہ ان میں سے ہی ایک صاحب ہیں۔ ہم ان کی طرف لپکے اور ان کا نام و پتہ دریافت کیا پتہ لگا کہ ہمارا شک درست تھا، یہ وہی آر این بی یعنی ریحان اینڈ بلال ٹوورز کے ریحان تھے۔
سورج ڈھلنے پر آگے چلے، اور کیمپ سائیٹ سے گزر کر سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے بوزی پاس کا قصد کیا۔ بوزی پاس کے راستے میں قدرت کے ہاتھوں تراشیدہ ابولہول اور پرنسس آف ہوپ آتے ہیں، وہاں کچھ فوٹو گرافی کی۔ ابولہول پر پارٹی نمبر دو نے مزید آگے جانے سے انکار کردیا۔ پر ہم کہاں رکنے والے تھے انہیں کہا ہم ذرا پرنسس آف ہوپ سے ہوکر آتے ہیں۔ اور پہنچ گئے بوزی ٹاپ۔ بھلا بندہ 6 سال کے بعد مکران کوسٹل ہائی وے جائے اور بوزی پاس سے محروم رہے۔ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ہوگا۔ مستقبل کے ہم سفران نوٹ فرما لیں۔ کیونکہ وہاں "منظر" ہے
بوزی ٹاپ سے منظر |
جتنی مکران کوسٹل ہائی وے ہم نے دیکھی ہے اتنی شاہراہ میں بوزی پاس سے زیادہ خوبصورت اور کوئی قطعہ نہیں۔ یہاں سے آسمان، سمندر، کوسٹل ریجن کے منفرد پہاڑ اور پہاڑوں کے درمیاں بل کھاتی ہوئی کوسٹل ہائی وے بیک وقت دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک بار پھر خوب خوب تصاویر بنا کر واپس ہوئے، راسے سے دوسری پارٹی کو کلیکٹ کیا اور اپنی پسندیدہ کیمپ سائیٹ "میانی" یا "میلان " پہنچے۔ اس وقت سورج ڈوبنے کی تیاری کر رہا تھا جب ایک عارضی خیمہ بستی میانی کی ریت پر آباد ہوئی۔
عارضی خیمہ بستی |
ہل من مزید ۔ ۔ ۔