Sunday, November 15, 2015

Museum of Lust

اورحان پاموک کا ناول Museum of Innocence ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنی سابق محبوبہ سے متعلق معمولی اشیاء جمع کرتا ہے، جیسے ایک جھمکا، کوئی رومال، پرفیوم کی خالی بوتل وغیرہ ۔  یاد رہے کہ موجودہ محبوبہ ہمیشہ بوجھ لگتی ہے خاص کر اگر اس سے شادی بھی ہوچکی ہو، سب سے محفوظ سابق محبوبہ ہوتی ہے، جس کی محبت میں یوسفی صاحب کے مطابق یک طرفہ محبت کی طرح آپ جب تک چاہیں گرفتار رہ سکتے ہیں اور اس میں ناکامی کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا۔

اب محبوبہ اور وہ بھی سابق، ایسی سہولت ہمیں تو ملنے سے رہی۔ ویسے بھی ہم اس قسم کی فضولیات میں بار بار پڑنے کے قائل نہیں ۔۔ چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ لیکن آوارہ گردی جو تین نسلوں سے ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ فی الوقت وہی ہماری موجودہ وسابق محبوبہ ہے، اور مستقبل میں بھی ہمارے ارادے محبوبہ تبدیل کرنے کے نہیں ہیں۔ 

شاعر نے تو کہا تھا کہ 
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

بطور ایک خاتون ہم ہر جگہ، ہر وقت اور ہر کسی کے ساتھ نہیں جاسکتے، سو جہاں گردی کے جو بھی مواقع ہمیں ملے ہیں ان کی کوئی نہ کوئی نشانی بطور یادگار  اپنے ساتھ لے آئے۔جہاں گردی کے معاملے میں "ہذہٰ من فضل ربی"کے باوجود  ہماری "ہل من مزید" کی ہوس پوری نہیں ہوتی ۔۔ [سرکاری افسر جو ہوئے] سو ہم نے اپنی یادگاروں کے مجموعے کو Museum of Lust کا نام دیا ہے۔

ہم اچھے خاصے شریف آدمی تھے۔ ابا جہاں لے جاتے ہم چلے جاتے، پر اللہ بھلا کرے ہمارے ایک سابق باس کا جنہوں نے ہمیں بیٹھے بٹھائے تین سال کے لیے مصر بھیج دیا۔ بس جب سے جو لت لگی ہے، تو چٹھتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ سب سے پہلے پیش خدمت ہیں کوہ طور یا طور سینا کی یادگاریں۔

 طورِ سینا سے لایا ہوا ایک پتھر ، جس میں کوئی بیکٹیریا ہے جو ایک پودے کی طرح لگتا ہے
 اوپر جو پتھر ہے وہ کوہ طور یا طور سینا ، سچا یا جھوٹا جو بھی ہے مصر میں ، وہاں ٹریکنگ کرنے والے غیر ملکیوں کو بطور یادگار فروخت کیا جاتا ہے، اس میں کسی بیکٹیریا کے نشانات اس طرح ہیں کہ ایک پودا یا درخت نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پتھر کو توڑ دو تو نئی سطح پر یہ پودا بڑھنا شروع ہوجاتا ہے، ہم نےاس بات پر آنکھیں بند کر کے یقین کرلیا ہے اور  اپنے ننھے منے سے پتھر کو مزید توڑنے کی زحمت نہیں کی۔

طور سینا، مصر سے ہی انڈے کی شکل کا پتھر جسے توڑیں تو اندر عجیب و غریب رنگز نظر آتے ہیں
یہ انڈے نما پتھر بھی طور سینا پر ملتا ہے باہر سے انڈے نما ہوتا ہے لیکن اندر اس کے مختلف قسم کی سطحوں کے رنگز نظر آتے ہیں اور درمیان میں کچھ نمکیات نما سخت ابھار ہیں۔ یہ بھی "کچھ " ہے۔ اور اس لیے زیادہ ہی "کچھ" ہے کہ یہ سب کے پاس نہیں ہوتا :P

بیال کیمپ ، فیری میڈوز کا چاندی پتھر
چاچا جی نے ہمیں جی بھر کر بہکایا ہے اور ہماری آوارہ گردیوں کے گناہوں میں وہ برابر کے نہیں تو 33 فیصد شریک جرم ضرور  ہیں۔ سو ان کی پڑھائی سکھائی راہوں پر ان کے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم فیری میڈوز جا پہنچے۔  پورا فیری میڈوز تو ہم اٹھا کر نہیں لاسکتے تھے، پر اسکے کچھ samples اٹھا لائے، شماریات کی زبان میں سیمپل بولے تو سب پارٹ آف دی ٹوٹل یعنی فیری میڈوز کے کچھ ٹکڑے ہماری بک شیلف میں آرام کرتے ہیں۔ ایک تو بیال کیمپ سے اٹھایا ہوا چاندی رنگ پتھر ہے جو اٹھائے تو دو تھے،ایک اپنے لیے اور ایک سمیرہ کے لیے ، پر کہیں گم شدہ ہوگئے تھے، اور اب ان میں سے ایک بیک پیک کے کسی کونے سے نکل آیا ہے۔ کیونکہ ایک ہی برآمد ہوا ہے تو کون سمیرہ :P
Juniper's/Conifer's or What-so-ever's Knots from Fairy Meadows
 فیری میڈوز پر پائے جانے والے درختوں کی دو عدد کونز یا ناٹس، ایک میری ، ایک سمیرہ کی، پتا نہیں یہ ابھی تک سمیرہ تک کیوں نہیں پہنچی، جب میں انہیں اپنے بیک پیک کی پاکٹ میں ٹھونس رہی تھی تو میری ساتھی خواتین کا کہنا تھا کہ یہ دب جائیں گی، ٹوٹ جائیں گی پر یہ ابھی تک سلامت ہیں اور ہمیں فیری میڈوز کے سفر کی یاد دلاتی ہیں۔ 
Dried Conifer's branch/leaves

یہ جھاڑو نما خشک پتیاں بقول احسن جب زمین پر گری ہوتی ہیں تو سوّیاں نظر آتی ہیں۔ یہ ہم نے چلتے چلتے ایسے ہی زمین سے ایک پھُندنا اٹھا کر جیب میں ٹھونس لیا تھا اور اسی طرح یہ ہمارے ساتھ کراچی چلا آیا ۔ اور ہم نے اٹھا کر اپنی بک شیلف میں ڈال دیا ۔ ایک دن خیال آیا کہ دونوں کونز اور اس جھاڑو کو ڈس انفیکٹ کردیں، سو مچھر مار اسپرے اٹھا کر کونز پر اسپرے مارا، اس جھاڑو پر اسپرے مارنے سے پہلے خیال آیا کہ اسے سونگھ کر دیکھا جائے، آنکھیں بند کر کے جو ایک سوٹا لگایا تو قسم سے واپس فیری میڈوز پہنچ گئے۔ فوری طور پر ڈس انفیکٹ کرنے کا ارادہ منسوخ کیا۔ اب جب بھی ہمارا فیری میڈوز محسوس کرنے کو دل کرتا ہے اس جھاڑو کو اٹھا کرا یک سوٹا لگا لیتے ہیں ۔

ہڑپہ کی نشانی ایک مٹکے کا ٹکڑا
سمیرہ سے پہلی ملاقات کی نشانی ہڑپہ سے اٹھایا ہوا ایک مٹکے کا ٹوٹا ہوا ٹکڑا۔ بظاہر چاچا جی کی ویب سائیٹ لانچنگ میں شرکت کے لیے لیکن اصل میں سمیرہ سے ملاقات کے شوق میں پہلی بار اکیلے کراچی سے لاہور کا سفر براستہ ساہیوال۔ اور سمیرہ کے ساتھ ہڑپہ کی آوارہ گردی کے دوران بطور یادگار ایک ٹکڑا اٹھا کر پرس میں ڈال لیا، نہ ہو ہزار سال پرانا ، پر ہے تو ہڑپہ کا ہی ناں ، پرانے ہڑپہ کا نا سہی، نئے ہڑپہ کا سہی، نسبت تو وہیں سے ہے ناں،ہمارے لیے کافی است۔

رنی کوٹ کی فوسلائزڈ جڑیں
رنی کوٹ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ، رنی کوٹ میں چشمے پر جانے کے لیے گاڑی سے اترے تو زمین پر موجود پتھروں پر نگاہ پڑی، تاحد نگاہ جو بھی پتھر تھے وہ بہت باریک جڑوں کی شیپ کے گچھوں کی صورت فوسلائزڈ پتھرتھے۔ کسی زمانے میں شاید یہاں دریائے سندھ یا کوئی اور لوکل دریا بہتا ہوگا اور ارد گرد سبزہ اور پھلواری ہوگی، لیکن اب صرف ایک چشمہ ہے۔ اب اس سبزے اور پھلواری کی جڑیں ہزاروں سال گزرنے پر جڑیں فوسل میں تبدیل ہوکر پتھر ہوگئی ہیں۔ پر ابھی نرم ہیں کہ ہاتھ سے زور لگانے پر پتھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ پر ہشیار ،، کہ ایک ایسی ہی جڑ کے اندر سے ایک بےبی بچھو برآمد ہوا تھا۔

پنجند ہیڈ ورکس کی سیپیاں
2003 میں پنجند ہیڈ ورکس پر زندگی میں پہلی مرتبہ دریا اور اتنا سارا دریا دیکھا  بلکہ دیکھے کہ اس مقام پر پاکستان میں بہنے اور نا بہنے والے تقریباً سارے دریا دریائے سندھ میں مدغم ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے جو دریائے سندھ ہم نے حیدرآباد سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا  وہ ایک وسیع ریتیلا میدان تھا جس میں کہیں کہیں پانی کے نشانات تھے، تو اتنا سارا پانی دیکھ کر ہمارا حیران ہونا جائز بلکہ واجب تھا۔  یہ پانچ سیپیاں اسی پانچ دریاوں کےمجموعہ کےلب ساحل سے جمع شدہ ہیں۔ سب سے چھوٹی والی کو ستلج کا استعارہ سمجھیں کہ اس میں سب سے کم پانی تھا، بلکہ تھا ہی نہیں کیونکہ اسی کے بیڈ میں سے ریت پھانکتے ہوئے گزر کر ہم خانیوال گئے تھے۔

کلری جھیل کے مونگے
وادئ مہران کی اصلی تے وڈی جھیلوں میں سے ایک کلری جھیل ، جس کے ایک کنارے سے دیکھیں تو دوسرا کنارہ نظر نہیں آتا۔ تین جھیلوں کو اکھٹا کر کے بنائی گئی ہے۔ کلری، کینجھر اور سونڈہ جھیلیں۔ اسی لیے اسے کینجھر جھیل بھی کہتے ہیں۔ اس کے درمیان  میں نوری جام تماچی کا مزار ہے۔ یہ مونگے کلری جھیل کے پانیوں سے اکھٹے کیے گئے ہیں۔ کبھی کبھی ہم انہیں حب ڈیم کے پانیوں سے غسل دے دیتے ہیں۔ اور یہ بک شیلف میں حب ڈیم کے مونگوں کے ہی پڑوسی ہیں۔

حب ڈیم کے مونگے
گڈانی سے جمع شدہ خزانہ
کراچی کا سمندر اس قدر غلیظ ہے کہ ہم تو اس میں پاوں ڈالنے کے روادار نہیں ہیں۔ اسی لیے رسیاں تڑا تڑا کر گڈانی کی طرف بھاگتے ہیں۔ لیکن اب تو گڈانی کا بھی برا حال ہے، سو اب ہم "پرے سے پرے سے پراں" کی طرف بڑھ گئے ہیں لیکن گڈانی سے اچھے وقتوں کے جمع شدہ سیپیاں، گھونگے، مونگے اور پتھر ابھی بھی ہمارے میوزیم میں ہیں۔

سینڈز پٹ/ ہاکس بے کی نشانیاں

استولا سے لائی ہوئی سیپیاں، کوڑیاں اور سیاہ مونگا

استولا کے ساحل کا ایک حصہ میرے قبضے میں
استولا آئی لینڈ ہم شاید زندگی میں پہلی اور آخری بار گئے تھے، اب ان ساحلوں کو ہماری آنکھیں دوبارہ نہیں دیکھ سکیں گی لیکن استولا کے ساحل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہم اپنے ساتھ لے آئے تھے جو صرف اور صرف ہمارا ہے، کیونکہ قبضہ سچا، دعویٰ جھوٹا۔ اور یہ حصہ ہمارے قبضے میں ہے۔

پیر پٹھو/ سخی داتار چوکنڈی کا منقش پتھر
یہ سخی داتار کے شہر خموشاں کا وہ پتھر ہے جسے چراتے ہوئے ہمیں چور کی داڑھی میں تنکا اور جیا کرے دھک دھک بلکہ دھڑک دھڑک فیل ہوا تھا صحیح سے ۔ زندگی میں پہلی باقاعدہ چوری ۔۔ پر ہم چوری نہ کرتے تو کسی اور نے اس کا کرش بنا کر اپنا مکان بنانے میں استعمال کرلینا تھا۔ اب یہ سرکاری میوزیم میں نہ سہی ایک پرسنل میوزیم میں محفوظ تو ہوگیا ہے۔

آپ کو حیرت نہیں ہوئی کہ ہمارے میوزیم میں ہمارے فیورٹ کنڈ ملیر اور مکران کوسٹل ہائی وے کا کوئی نمونہ کوئی یادگار موجود نہیں۔ جی نہیں کیونکہ کنڈ ملیر پر ہم بطور یادگار اپنا ایک جھمکا گرا آئے ہیں۔ اگر کوئی کنڈ ملیر سے ذرا آگے جا کر کیمپ کرے تو وہ برائے مہر بانی ہمارے جھمکے پر نظر مار لے اور اگر مل جائے تو ہم تک پہنچادے،اسکا جوڑی دار اسکے بغیر اداس ہے۔  جھمکے کے جوڑی دار کی تصویر پہچان کے لیےساتھ منسلک ہے۔

گمشدہ جھمکے کا جوڑی دار


مستقبل قریب و بعید میں مزیداضافے  کی امید ہے ۔ ۔ ۔