عید کی چھٹیوں میں انتہائی بور ہوکر خود کشی کے مختلف طریقوں پر غور فرمانے کے دوران ایک روح افزاء قسم کا ایس ایم ایس موصول ہوا کہ ہم ویک اینڈ پر کیماڑی سے چرنا آئی لینڈ جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں، سوچا آپ سے بھی پوچھ لیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ تھوڑے غورو فکر کے بعد ہم نے ہاں کر دی۔ جب ایک شریف آدمی آپکو صبح کے پانچ بجے تقریباً گھر سے پک اینڈ ڈراپ کی آفر کر رہا ہے تو آپ کے پاس انکار کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ مزمل اینڈ کمپنی سے ہماری ملاقات قاہرہ میں ہوئی تھی۔ یہ ایک الگ داستان ہے، جو ہم پھر کسی وقت سنائیں گے۔
خیر جناب ہم نے ساتھ میں اپنی ایک گرل فرینڈ کو پٹایا، کچھ ہم نے اسے پل کیا کچھ اسکے بچوں نے اسے پش کیا اور وہ پٹ گئی۔ ویک اینڈ کی صبح اذان سے بھی پہلے ہم دو اکیلی لڑکیاں "قائد تحریک" کی گاڑی کے پیچھے چل پڑے۔ پھر "لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا" جب ہم کیماڑی پہنچے تو ایک چھوٹا سا قافلہ بن چکے تھے۔
بائی دی وے، سویرے منہ اندھیرے کراچی کی سڑکوں پر آوارہ گردی کا اپنا ایک مزہ ہے۔ اس بارے میں بھی کچھ سوچنا پڑے گا۔ کشتی بان کو یہ امید نہیں تھی کہ کراچی کے بگڑے شہزادے اور نازک مزاج شہزادیاں اتنی سویرے موقع واردات پر وارد ہو سکتے ہیں۔ لہذہ وہ اپنے ٹائم سے آیا اور اپنی مرضی کے مطابق چلا۔ اگر ہم پانی پر چلنے کا منتر جانتے تو اس سے ایک آدھ گھنٹہ پہلے ہی منزل مقصود پر پہنچ چکے ہوتے۔
خیر اللہ اللہ کرکے ہم چل پڑے، مطلب کشتی چل پڑی۔ ڈاکیارڈ پر جینڈر ڈسکریمینیشن عروج پر تھا، اتنا زیادہ کہ شوہر حضرات نے بیگمات سے بھی نگاہیں پھیر لی تھیں۔ ایک دو بیگمات نے شوہروں کی طوطا چشمی پر افسوس کا اظہار کیا جبکہ اکا دکا نے گھر واپس جا کر "دیکھنے" کے ارادے ظاہر کیے۔
یہ صنفی تقسیم کشتی میں بیٹھنے کے بعد بھی کچھ دیر جاری رہی۔ مرد حضرات ہر اوّل دستے میں جبکہ خواتین ٹیل اینڈرز میں شامل رہیں۔ گو کہ سارے مرد انجن سے بھی آگے والے ڈبے میں سوار تھے، جہاں دیگر خواتین کا کوئی گزر نہیں تھا پھر بھی ایک دو بیگمات نے اپنے اپنے حضرات پر کڑی نظر رکھی ہوئی تھی۔ غالباً اس ارادے سے کہ کب وہ نظرملائیں اور یہ بچوں کو انکے حوالے کر کے پکنک سے لطف اندوز ہوں۔ دھیرے دھیرے اجنبیت کے پردے چاک ہوئے اور شادی شدہ حضرات نے لیڈیز کمپارٹمنٹ میں داخلے کی ہمت پکڑی۔
کیماڑی سے براہِ مبارک ولیج بذریع کشتی چرنا آئی لینڈ چار گھنٹے کا راستہ ہے یا تھا۔ اس سے قبل ہمارا سمندری تجربہ برسوں پہلے کیماڑی سے منوڑہ والے سفر تک محدود تھا۔ دل میں ایک خوف بھی تھا کہ کھلے سمندر میں کیا ہوگا، چکر آئیں گے، دوسروں کے تجربے سن سن کر دل ڈر رہا تھا کہ متلی ہوگی، کھایا پیا باہر آجائے گا۔ لیکن ہمیشہ کی طرح درود شریف ہر پریشانی کا حل، ہر درد دی دوا اور ہر خوف میں سکون قلب رہا۔ کچھ کچھ کرامات پرسکون سمندر اور کچھوے کی رفتار سے چلنے والی کشتی کی بھی تھی کہ ہم بخیر و عافیت چرنا آئی لینڈ سے ہو کر آگئے۔
کشتی کے مسافروں میں ایک اصلی تے وڈا گورا مہمان بھی تھا جو ایک عدد پاکستانی کرتا پہن کر ایک کان سے دوسرے کان تک مسکراتا پھرتا تھا۔ اگر اسے مکمل کرتا شلوار پہنا دیا جاتا تو وہ یقیناً خوشی میں خٹک ڈانس شروع کردیتا۔
کپتان صاحب نے ہمیں دوران سفر پرتکلف ناشتہ اور سی فوڈ پر مشتمل لنچ اور ڈنر پیش کیا جس میں جھینگوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا تھا یعنی بغیر دھاگہ نکالے [ گھر میں جھینگے صاف کرنے کی زمہ داری ہماری ہے اور دھاگہ نکالنے میں ہم گھنٹوں صرف کرتے ہیں۔ لہذہ جب بیرا لوگ جھینگا صاف کر رہے تھے ہماری نگاہیں ان کو مستقل حصار میں لیے ہوئے تھیں۔ ہم قسم کھا سکتے ہیں کہ انھوں نے ایک بھی دھاگہ نکالنے کی زحمت نہیں کی] لیکن کھانا تھا بہت مزیدار۔ کیوں نہ ہوتا آخر "بارہ مسالے" والا جو تھا۔ گورا بے چارا کھانا کھا کر با لکل سرخ ہو گیا، یقیناً گھر جا کر اسکے پیٹ میں گڑ گڑ بھی ہوئی ہوگی۔
کھانے سے پہلے مچھلی کے شکار کا دور چلا جس میں فاطمہ اول، دوئم اور سوئم آئیں۔ باقی لوگوں کے شکار کی تعداد اور سائز ان سے کم تھا۔ اور سارے گروپ نے انھیں استاد تسلیم کر لیا۔
پورے پروگرام میں سب سے کمال کا لمحہ تھا جب ایک جانب سے سورج سمندر میں ڈوب گیا اور دوسری جانب سے تقریباً اسی سائز کا چاند طلوع ہوا۔ ایسا محسوس ہوا کہ سورج آج جلدی اپنا چکر پورا کر کے پھر سے طلوع ہوگیا ہو۔