Tuesday, October 15, 2013

Born in A Wrong Gender ;)

میں غلط جینڈر میں پیدا ہوگئی ہوں۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں لیکن اس کی سزا مجھے ہی ملتی ہے۔ میں اکثر یہ بات بھول بھی جاتی ہوں کہ میں ایک ختون ہوں، اور مجھے شرمانا لجانا، بل کھانا چاہئے۔ میری پسند نہ پسند اور حرکتیں سب مردوں والی ہیں۔ رف این ٹف کپڑے، مردانہ لک والی سینڈلز، میک اپ سے بے نیازی، جیولری سے الرجی، اور لہجہ تو اللہ کی پناہ اتنا کھردرا کہ اگلے کی دوبارہ بات کرنے کی ہمت نہ ہو۔ جب میں عید کی شاپنگ کے لیے بازار جاتی ہوں تومردانہ کرتے شلوار کی ورائیٹی پر میری ایسی رال ٹپکتی ہے کہ نہ پوچھو۔ بھلا بتاواتنا ڈیسینٹ کرتا شلوار خواتین کیوں نہیں پہن سکتیں؟
حد تو یہ ہے کہ "خبصورت" لڑکیوں کودیکھ کر میرا دل بھی بے ایمان ہو جاتا ہے۔ بھلا مدھو بالا، نور جہاں، اور مینا کماری پر کون کافر ہوگا جو فدا نہ ہوگا۔جس پر میرا ایک دوست کہتا ہے، کوئی توہمارے لئے بھی چھوڑ دیں.

کیوں کہ میں تو یہ بات بھول ہی جاتی ہوں کہ میں ایک "ختون" ہوں۔ تو میں اپنے ملنے جلنے والوں سے جینڈر ڈسکریمینشن نہیں کرتی، لیکن اگلے نہیں بھولتے اور ایک یا دو ہی ملاقاتوں میں مجھے یاد دلا دیتے ہیں کہ میں ایک خاتون ہوں۔

کبھی کبھی میں اپنے دوست حضرات سے سخت جیلس ہو جاتی ہوں کہ وہ بڑے آرام سے جب دل چاہے منہ اٹھا کر کہیں بھی چل پڑتے ہیں۔ کوئی ٹور ڈی پاکستان چلا جا رہا ہے، تو کوئی اپنی پریگننٹ بیگم اور شیر خوار بچی کے ساتھ دنیا دیکھنے چلا جا رہا ہے۔ کوئی صبح سویرے فوٹو واک پہ نکلا ہوا ہے اور ڈھیروں ڈھیر تصویریں اپ لوڈ کیے جا رہا ہے، ظاہر ہے میں ایک زنانہ جسم میں قید ہونے کے باعث یہ سب نہیں کر سکتی تو میں ان سب سے جی بھر کے حسد تو کر سکتی ہوں نا، تو میں وہی کرتی ہوں۔

ہاں ایک کام میں ایسا کر سکتی ہوں کہ جس سے یہ افراد بھی جیلس ہو سکیں، میں جی بھر کر گرل فرینڈز بنا سکتی ہوں،اور انھیں ایک دوسرے سے متعارف بھی کروا سکتی ہوں۔ اور کسی کو کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوگا، بلکہ سب کی سب بہت خوش ہونگی۔ یہ کام حضرات نہیں کر سکتے، وہ تو دو گرل فرینڈز کو بھی ایک دوسرے سے متعارف کروانے کا رسک نہیں لے سکتے۔

حال ہی میں میں لاہور کو چھو کر آئی ہوں، وہاں کم از کم دو افراد ایسے تھے کہ جن کے پاس پیر ٹکاکر میں دو چار دن لاہور کی سیر کرسکتی تھی۔ لیکن درمیان میں جینڈر ڈسکریمینیشن آجاتی ہے۔ 

میں اور سمیرا مل کر کتنے ہی پلان بناتے ہیں، جو کبھی ہمارے ان باکس سے باہر نہیں آتے۔ کیوں کہ ایک لڑکا تو شہر شہر آوارہ گردی کرے، رات کسی فٹ پاتھ یا پارک میں خیمہ لگالے، کسی ریلوے پلیٹ فارم پر گزار لے، کہیں بھی بیٹھ کر کھالے، کہیں بھی نہا لے تو نارمل ہے، لیکن دو لڑکیاں اس قسم کا خیال بھی ان باکس سے باہر شئیرکر لیں تو لوگ کہیں گے تم لوگ پاگل ہو۔ لیکن پاگلوں کو ان سب کاموں کی رعایت پھر بھی نہیں دیں گے۔ 

لو دسو۔