Tuesday, March 5, 2019

پاور فیلئیر: سیدہ عابدہ حسین کا سیاسی سفر

سیدہ عابدہ حسین جھنگ کے ایک سابق اعزازی کرنل، تحریک پاکستان کے ایک رہنما، سابق پارلیمنٹرین اورایک "شریف والے فیوڈل" کی اکلوتی اولاد ہیں۔ جنہوں نے اپنا سیاسی کیرئیر بھٹو کے دور میں پنجاب اسمبلی کی خصوصی خواتین کی نشست سے شروع کیا، پھر جھنگ کی ضلع کونسل چئیرمین شپ سے گزر کر قومی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئیں اور نواز شریف کے دور میں امریکہ میں سفیر تعینات کی گئیں۔ درمیان میں نگران اور نواز ادوار حکومت میں مختلف وزراتوں پر بھی براجمان رہیں۔

اپنے سیاسی سفر کے دوران بذریعہ خصوصی نشست  پنجاب اسمبلی میں شمولیت سے رکن اسمبلی  منتخب  ہونے کے درمیان پیپلز پارٹی، آزاد امیدوار، مسلم لیگ نون، اور پھر پیپلز پارٹی میں شامل رہیں۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سیاست دان اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے ہمیشہ پاکستان اور جمہوریت کا وسیع تر مفاد بطور جوازپیش کرتے ہیں۔ 

اس کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں سیدہ عابدہ حسین تو بے نظیر اور نواز شریف سے بھی کہیں اونچی سیاستدان تھیں۔ گو کہ وہ کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکیں کیونکہ ان کے مطابق ان کا فقہ جعفریہ سے ہونا ان کے وزیر اعظم بننے میں حائل ہوا اور اس طرح جنرل ضیاء نے ان کی جگہ نگاہ انتخاب نواز شریف پر منطبق کرلی۔ 

لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا،  شی واز دی کنگ میکر۔ چاروں صوبوں کے سیاست دان ان کے گھر کے 24/7 ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہوتے تھے۔  صرف سیاستدان ہی نہیں سفیر، سفارتی اہلکار، غیر ملکی میڈیا کے بااثر نمائیندگان بھی۔ کوئی حکومت، کوئی صدر ان کے مشورے کے بغیر نا بن سکتا تھا نہ ہٹایا جاسکتا تھا۔ اور تو اور "اصطبلشمنٹ" بھی ان سے اپنے مستقبل قریب کے پلان شئیر کر لیا کرتی تھی۔ بھٹو صاحب سے لے کر مشرف تک ان سے ملکی معاملات میں مشاورت کیا کرتے تھے۔

کتاب میں ایک پرسنل ٹچ بھی ہے۔ بطور ایک خاتون سیاستدان جس نے 70 کی دہائی میں اپنا سیاسی کیرئیر شروع کیا تھا کس کس قسم کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پارلیمنٹ کے باہر اور اندر کس قسم کے رویوں کا سامنا کیا۔ مثلاً ایک مولانا اسمبلی میں ان کے برابر والی نشست پر بیٹھنے کو تیار نہیں تھے۔ حتیٰ کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں نائب صدر الگور تین بار انہیں نائب سفیر گمان کر کے ان کے نائب کو سفیر کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔ 

اس کتاب میں دو تین ایسے پوائنٹس بھی ہیں جن پر خاصا فساد برپا ہوسکتا ہے۔ جیسے کہ انہوں نے اس کتاب میں قبول کیا ہے کہ پاکستان میں شعیہ تنظیموں کو ایران سے فنڈنگ ہوتی ہے۔ اسی طرح بے نظیر کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بے نظیر نے ان کے سامنے قبول کیا کہ انہوں نے اپنے پہلے دور وزارت میں کھلی کرپشن اس لیے کی کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد جو ان کی فیملی پر معاشی کرائسس آیا تھا وہ کبھی ان کے بچوں پر آئے اس لیے وہ اتنا پیسہ جمع کرلینا چاہتی تھیں کہ ان کے بچوں کا مستقبل محفوظ رہے۔ اسی طرح بینظیر آصف زرداری کی دوسری خواتین میں عملی دلچسپیوں پر پریشان رہتی تھیں۔ لگتا ہے کسی پیپلز پارٹی والے کی نظروں سے یہ کتاب نہیں گزری۔ 

اس کتاب کو ستر اور اسی کی دہائی میں پیدا ہونے والوں کے لیے پاکستانی سیاست کے اتار چڑھاو کا ایک مختصر ری مائنڈر کہہ لیں۔ 

پی ایس: کتاب پڑھ کر لگتاہے کہ محترمہ اور ان کے شریک حیات جتنا محب الوطن اور شریف سیاستدان کبھی پیدا ہوا ہے نہ ہوگا۔ لیکن سیاستدانوں کے ڈسے ہوئے ہیں۔ اس بات پر یقین آتا نہیں ہے۔