ونس اپون اے لائف ٹائم ایک پی ٹی وی ہوتا تھا۔ جس پر ایک دن میں ایک ہی ڈرامہ آتا تھا اور وہ ڈرامہ پورےگھر والے مل کر ایک ساتھ دیکھتے تھے۔ہم ڈرامےسے ایسے کنیکٹ ہوجاتےتھے کہ ڈرامے کے ہر موڑ سے ہماری خوشی اور اداسی جڑی ہوتی تھی۔ ڈرامے کے خوشگوار موڑ پر مل کر خوش ہوتے تھے تو کسی غلط موڑ پر سب ایک ساتھ غم زدہ بھی ہوجاتے تھے۔
یاد کریں ان کہی میں جب فراز ثنا کو تیمور کے گھرچھوڑ کر واپس آجاتا ہے تو ایک لمحے کے لیے ہم سب کے دل رک گئے تھے کہ اب ثنا کیا فیصلہ کرے گی۔ اور جب ثنا فراز کی طرف واپس لوٹ آتی ہے تو ہم ظاہر کریں نہ کریں تیمور کے لیے افسردہ ہونے کے باوجود ہم سب خوش ہوئے تھے کہ فراز جیسے ہنس مکھ لڑکے کا دل ٹوٹنے سے بچ گیا۔ ❤️
تنہائیاں میں جب ہمیں زین کی منگیتر کا علم ہوا اور جب زارا نے اس منحوس مارے سعد سلمان سے منگنی کر لی تھی ہم سب کا دل کتنا خراب ہوا تھا اور جب وہ منگنی ختم ہوگئی تو ہم ایسے خوش ہوگئے تھے جیسے ہمارے من کی مراد پوری ہوگئی ہو۔❤️
دھوپ کنارے میں ڈاکٹر احمر اور اور ڈاکٹر زویا کے درمیان ناچاقی نے ہمیں کتنا دکھی کیا تھا اور جب ڈاکٹر احمر کی ملک سے باہر جاتے جاتے اپنے پرانے گھر پہ زویا سے ملاقات ہوجاتی ہے ، ہائے وہ لمحہ ،، کیسےدل میں سکون اترا تھا۔ ❤️
سیم وہی فیلنگ وہی کنیکشن ہمیں پچھلے ہفتے فیل ہوا جب شرجینہ اور مصطفیٰ کے درمیان ایک جھڑپ کے بعد شرجینہ گھر چھوڑ گئی، ہائے دل ہی ٹوٹ گیا جیسے 💔 اتنے پیارے لوگ اور ایک دوسرےسے ایسے خفا۔ ایک ہفتہ بے کلی میں گزرا کہ آگے کیا ہوگا ، ان کی صلح ہوگی یا نہیں ہوگی ۔ اور جب مصفیٰ اور شرجینہ کے درمیان غلط فہمیوں کی دھند چھٹ گئی تو جیسے ہمارے دل سے بھی ایک بوجھ ہٹ گیا ہو
❤️❤️🩹
پھر ہم نے غور کیا کہ آخر اتنے سارے چینلوں کی بھیڑ میں، اتنے بھانت بھانت کے ڈراموں کے درمیان ہمیں یہ ہی ڈرامہ کیوں اتنا پسند ہے [اس کے علاوہ ایک اور ڈرامہ ہم فالو کررہے ہیں لیکن اس پر ہمیں کچھ اعتراض ہیں، وہ کہانی پھر سہی] اور کیوں اتنے رش میں یہ ڈرامہ اتنی ریٹنگ لے رہا ہے اے آر وائی کے پاس تو کوئی جنگ یا ایکسپریس اخبار بھی نہیں جہاں وہ روز نئی قسط کے بارے میں مشہوریاں کرسکیں ۔۔ پھر بھی ، آخر کیوں
ہمارے مطابق اس ڈرامے کی مقبولیت کی دو وجوہات ہیں ایک یہ مڈل کلاس فیملی کی گراونڈ ریلیٹیز پر بیسڈ ہے دوسرے ڈیسینسی
یہ ڈرامہ ہم جیسے مڈل کلاس لوگوں کے متعلق ہے۔ نہ بڑی بڑی گاڑیاں، نہ محل جیسا گھر، نہ عظیم الشان قسم کی شادی، نہ ہی اوور دا مون قسم کا رومانس ۔۔ جس میں سمندر کے کنارے پھولوں اور لائٹوں سے آرچز بنا کر وہاں ہیرو ہیروئن کو بٹھا کر اقرار محبت کروایا جائے یا ان کے جھگڑے نمٹائے جائیں ۔۔ نہ ہی پرنس چارمنگ قسم کا ہیرو
مصطفیٰ کا کردار ایک عام شکل و صورت کا سانولا سا جنریشن زی کا ٹپیکل لڑکا جسے موبائل اور کمپیوٹر کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ نہیں۔ اس کی کریکٹرائزیشن پر رائٹر، ڈائرکٹر اور آرٹ ڈائرکٹر نے بہت محنت کی ہے اس کی وارڈ روب، ہئیر اسٹائل، ڈائلاگ، باڈی لینگویج، اس کا روم اور روم میں جمع کاٹھ کباڑ ، بائک، سب کچھ اسے کومپلیمنٹ کرتے ہیں۔ چھوٹا، نظر انداز کیا ہوا، نکما بیٹا۔ ہم سب اپنے آس پاس ایسے نوجوان دیکھتے ہیں۔
بہت عرصے بعد شرجینہ کے کردار میں ایک متوسط طبقے کی نمائندہ پاکستانی لڑکی کا مضبوط کردار تخلیق کیا گیا ہے ۔ جو تعلیم یافتہ ہے، آگے بڑھنے کی لگن رکھتی ہے، والدین کی فرمان بردار اور سہارا ہے، چھوٹے بہن بھائیوں کےلیے مثال ہے اور بیک وقت ان کی دوست اور بزرگ بھی۔ جو نہ بہت زیادہ ماڈرن ہے اور نہ ہی بہت زیادہ قدامت پرست ۔ نہ تو وہ ہر وقت سر پہ دوپٹا تانےرکھتی ہے نہ ہی بغیر دوپٹے نظر آتی ہے۔ جس کی بہت زیادہ خواہشات نہیں ہیں، جو اپنے موجودہ وسائل میں سر اٹھا کر زندگی گزارتی ہے، جو اپنے حق سے دست بردار نہیں ہوتی ، جو کسی کی زیادتی برداشت نہیں کرتی۔ اس سے پہلے یہ کردار ہمیں حسینہ معین کی ہیروئنز میں نظر آتے تھے۔ تھینکیو فرحت اشتیاق
ایک مکمل فیملی ڈرامہ جسے آپ بڑوں بچوں ہر ایک کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ نہ کسی خاتون کردار کے کپڑے سی تھرو ہیں نہ کسی کا گلا بہت ڈیپ ہے۔ رباب کو بہت امیر دکھانے کے باوجود اس کی دریسنگ ڈیسنٹ ہے۔ نہ سستا رومانس ہے نہ بیڈروم بلکہ بیڈ سینز، نہ غیر ضروری فزیکل رومانس ، سیدھے سادے عام سے انسان، عام سے مسائل، عام سی بات چیت، وہی زبان جو ہم گھر میں بات چیت میں استعمال کرتے ہیں۔ نہ ہیروئن کا دوپٹہ ہیرو کی گھڑی میں اٹکتا ہے، نہ اس کی سینڈل پھسل کر وہ ہیرو کی بانہوں میں گرجاتی ہے۔
وہی سڑکیں جن پر ہم چلتے ہیں، وہی پارک جہاں ہم جاتے ہیں۔ عام آدمی ڈرامے میں دکھائی جگہوں سے ریلیٹ کرتا ہے، عام آدمی ڈیفینس کے بنگلوں اور پرائیوٹ بیچز کے بجائے شہر کی گلیوں میں عام سے مکانات میں رہتا ہے اور شہر کے عام پارکوں میں جاتا ہے اسے اچھا لگتا ہے اگر اس کی دیکھی ہوئی جگہیں ڈرامے میں نظر آئیں۔
ڈرامہ: کبھی میں کبھی تم
پیشکش: اے آر وائی+ بگ بینگ اینٹرٹینمنٹ
تبصرہ نگار: نسرین غوری