الف لیلہٰ و لیلہٰ یا ہزار داستان نامی کتاب کا دنیا بھر میں شہرہ ہے، وکی پیڈیا کے مطابق یہ مجموعہ قصائص دراصل عرب، عجم، فارس اور اطراف کے ممالک کی فوک ٹیلز یا لوک داستانوں کا مجموعہ ہے جن کا تانا بانا شہزادہ شہریار اور شہرزاد کی مرکزی کہانی سے منسلک ہے جسے فارسی کی داستان "ہزار افسان" سے مستعار لیا گیا ہے ۔ ان داستانوں کا کوئی ایک مصنف نہیں۔ مختلف ممالک میں اس کے مختلف ورژنز پائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ علی بابا چالیس چور، الہ دین کا چراغ اور سند باد جہازی کے سفر اوریجنل الف لیلیٰ کا حصہ نہیں تھے، انہیں بعد میں کتاب کے مغربی ایڈیٹرز نے شامل داستان کیا۔ اس طرح عربین نائیٹس کے نام سے اسکا انگریزی ترجمہ اسے شہرت کی مزید بلندیوں پر پہنچا گیا۔ اس کتاب یا داستان کو دنیا بھر میں ایک کلاسک کا درجہ حاصل ہے
لیکن ہماری ذاتی رائے میں یہ کتاب نہ بچوں کے لیے ہے نہ بڑوں کے لیے۔ بچوں کے لیے اس لیے نہیں کہ اس میں زیادہ تر قصے لو ایٹ فرسٹ سائیٹ اور ایکسٹرا میریٹل افئیرز کے ہیں۔ ادھر کسی تاجر، شہزادے، سوداگر، فقیر نے کسی خوبصورت عورت، شہزادی یا پری کو دیکھا اور ادھر یہ اس پر اور وہ اس پر عاشق ہوگئی۔ بچوں کو خراب کرنا ہو تو یہ کتاب پڑھنے کو دے دیں۔ کیونکہ اس سے آگے کے معاملات Adult contents کے ذیل میں آتے ہیں۔
بڑوں کے لیے یہ کتاب اس لیے نہیں کہ یہ عاشقانہ قصے انتہائی بچکانہ و پیچیدہ طریقوں سے بیان کیے گئے ہیں۔ ہر کوئی اگلے کی صورت دیکھتے ہی ہزار جان سے عاشق ہوجاتا ہے۔ کچھ تو صرف تذکرہ سن کر ہی کسی نہ کسی شہزادی یا شہزادے پر عاشق ہوجاتے ہیں اور فراق میں آہیں بھرنے لگتے ہیں۔ بازار میں نظر پڑتے ہی ایک دوسرے کے پیچھے ہولیتے ہیں ، ساتھ ڈنر کرتے ہیں اور پھر شراب، کباب اور شبِ شباب و زفاف کے ادوار چل پڑتے ہیں۔ شراب تو اس طرح پی جاتی ہے کہ فرنگیوں کی محفلیں بھی شرمائیں۔ جبکہ 90 فیصد کردار مسلمان ہیں۔ لیکن اس سے شراب نوشی پر کوئی فرق نہیں پڑتا، گویا چوری میرا پیشہ ہے نماز میرا فرض۔
ساری شادی شدہ خواتین شوہروں یا عاشقوں سے چھپ کر کسی نہ کسی شہزادے یا سوداگر سے محبت کی پینگیں بڑھا رہی ہیں۔ جادو یا دیومالائی قصے تو اکا دکا ہی ہیں۔ زیادہ تر تو عشق و مشک کے قصے ہیں۔ 15 پندرہ سال کے بچوں کی شادیاں ہورہی ہیں۔ نہ ہوا مصنف آج کے دور میں زندہ ، کم عمری کی شادی کے قانون کے خلاف لکھنے کے جرم میں اندر ہوتا۔
ہر کردار کے پاس ایک کہانی ہے جس میں مزید کئی کئی کہانیاں پیچ در پیچ شامل ہیں۔ جہاں چار آدمی جمع ہوجائیں ان کے پاس سنانے کو کہانیاں نکل آتی ہیں جیسے انہیں دنیا میں کوئی کام نہیں۔ بادشاہوں کو اپنی دل پسند کہانیاں سونے کے پانی سے لکھوا کر خزانے میں جمع کرانے کا بہت شوق تھا۔ سوال یہ ہے کہ وہ محفوظ مخطوطے شہرزاد کو کیسے ملے۔
نیز اس زمانے میں پانی کے جہاز غالباً میزائل کی رفتار سے چلتے تھے۔ ایک سطر سے دوسری سطر تک ہزاروں میلوں کا فاصلہ طے کر کے ایک سلطنت سے دوسری سلطنت جاپہنچتے تھے۔
ساری شادی شدہ خواتین شوہروں یا عاشقوں سے چھپ کر کسی نہ کسی شہزادے یا سوداگر سے محبت کی پینگیں بڑھا رہی ہیں۔ جادو یا دیومالائی قصے تو اکا دکا ہی ہیں۔ زیادہ تر تو عشق و مشک کے قصے ہیں۔ 15 پندرہ سال کے بچوں کی شادیاں ہورہی ہیں۔ نہ ہوا مصنف آج کے دور میں زندہ ، کم عمری کی شادی کے قانون کے خلاف لکھنے کے جرم میں اندر ہوتا۔
ہر کردار کے پاس ایک کہانی ہے جس میں مزید کئی کئی کہانیاں پیچ در پیچ شامل ہیں۔ جہاں چار آدمی جمع ہوجائیں ان کے پاس سنانے کو کہانیاں نکل آتی ہیں جیسے انہیں دنیا میں کوئی کام نہیں۔ بادشاہوں کو اپنی دل پسند کہانیاں سونے کے پانی سے لکھوا کر خزانے میں جمع کرانے کا بہت شوق تھا۔ سوال یہ ہے کہ وہ محفوظ مخطوطے شہرزاد کو کیسے ملے۔
نیز اس زمانے میں پانی کے جہاز غالباً میزائل کی رفتار سے چلتے تھے۔ ایک سطر سے دوسری سطر تک ہزاروں میلوں کا فاصلہ طے کر کے ایک سلطنت سے دوسری سلطنت جاپہنچتے تھے۔
جس بندے نے ان عاشقانہ بلکہ کافی حد تک ولگر کہانیوں میں سے پی ٹی وی پر بچوں کے لیے کہانیاں کشید کیں اور الف لیلہٰ سیریز تیار کی اسے سیلیوٹ۔ یہ اور بات کہ اس وقت ہمیں جن بھوتوں کے ٹیلی وائزڈ ورژن سے اتنا ڈر لگتا تھا کہ جمعرات کی شام پانچ بجے جب سب بچے الف لیلہٰ دیکھنے ٹی وی کے گرد جمع ہوتےتھے ہم اس آدھے گھنٹے محلے بھر میں "گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے" کی عملی تصویر بنے شتر بے مہار پھرتے رہتے تھے۔
👻👻👻😈😈😈
یہ بلاگ دلیل ڈاٹ کام پر 19 جولائی 2017 کو شایع ہوچکا ہے۔
اگر عشق کی پرانی داستانوں سے بور ہوجائیں تو جدید الف لیلہٰ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اگر عشق کی پرانی داستانوں سے بور ہوجائیں تو جدید الف لیلہٰ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔