Tuesday, October 29, 2019

من چلے کا سودا :ایک ٹائم لیس پیس آف آرٹ

اب آپ کہیں گے کہ یہ یہ کونسا وقت ہے اس قدیم ڈرامے پر تبصرہ لکھنے کا۔ تو بھائی بندہ جب دیکھے گا ڈرامہ تب ہی تو اس پر تبصرہ لکھے گا۔ اب جس وقت یہ ڈرامہ نشر ہوا تھا اس وقت تو ہمارے دودھ کے دانت ہی ٹوٹے تھے آلموسٹ۔ کچی عمر میں اتنے بڑے بڑے فلسفے سمجھ کس کو آتے ہیں۔ اور اس وقت ٹی وی بھی کہیں کہیں کسی کے گھر ہوتا تھا۔ یاد ہے کہ ٹی وی پورے محلے میں بس ہمارے پڑوس میں تھا اور جس دن یہ ڈرامہ آتا تھا ساری خواتین اپنے فالتو کام نمٹانے چل دیتی تھیں ایک صرف ہمارے پڑوسی تھے جو اسے بہت غور سے دیکھتے تھے اور گاہے بگاہے سر ہلاتے جاتے اور خود کلامی کیے جاتے تھے۔ ہماری تو اس وقت یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اس میں کیا سمجھ آیا ہے۔

خیر آج کل ہم دفتر سے ایک قسم کی جبری چھٹی پر ہیں یعنی او ایس ڈی ٹائپ کچھ ہیں لہذہ فرصت ہی فرصت ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ہم بالکل ہی فارغ ہوں۔  کیونکہ جب آپ گھر پر ہوں تو آپ چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ لیکن ان چوبیس گھنٹوں میں سے ہم دوتین گھنٹے بچا ہی لیتے ہیں جس میں ہم پرانے پی ٹی وی ڈرامے اور بلیک اینڈ وائٹ دور کی محمد علی زیبا، صبیحہ سنتوش کی فلمیں دیکھتے رہتے ہیں۔اور پی ٹی وی کے سنہری دور کے لانگ پلے بھی یعنی ڈرامہ بیاسی تراسی سے لے کر چھیاسی ستاسی تک۔ تھینکس ٹو یو ٹیوب اینڈ وزارت اطلاعات جنہو ں نے بالترتیب ان ڈراموں کی میزبانی اور ان تک رسائی کی اجازت دی ہوئی ہے۔

 خیر،، پی ٹی وی کے دیگر ڈرامہ سیریلز عموماً زندگی کے کسی ایک مسئلے، معاملے یا موضوع پر ہوتے تھے۔ یا کسی ایک شخص سے متعلق۔ وہ مسئلہ یا معاملہ تیرا قسطوں میں نمٹ جاتا تھا اور ناظرین اس کے منطقی یا رومینٹک انجام پر بالترتیب رنجیدہ یا خوش ہو کر اگلے ڈرامے کی پہلی قسط کا انتظار کرنے لگتے تھے۔ 

ان روایتی ڈراموں کے برعکس "من چلے کا سودا" ایک ایسا ڈرامہ ہے جو ایک کہانی کی بنت میں کئی کہانیوں کے ذریعے انسان کی پوری زندگی اور زندگی کے مختلف مراحل میں اس کی ضروریات و خواہشات خصوصاً اس کی نفسیات کا احاطہ کرتا ہے۔

ایک لڑکی کی کہانی جو اپنے گھر کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک گئی ہے  اور ایک شادی شدہ شخص پر اپنا بوجھ ڈالنا چاہتی ہے لیکن ناکام ہوکر خودکشی کرلیتی ہے۔ جو اپنی خواہش کو قربان نہ کرسکی۔
ایک کاریگر کی کہانی جو 33 سال ایک ہی ظروف کو بنانا رہا بالآخر اس کا اخلاص اور محنت بار آور ہوئی۔
ایک لاوارث آدمی کی کہانی جسے ایک لڑکی بطور تایا ایڈاپٹ کرلیتی ہے اور پھر اسے بوجھ سمجھ کر اسے گھر سے نکال دیتی ہے۔
ایک لڑکی کی کہانی جو دنیا کے طور طریقوں سے جدا ہے۔ جسے اس کی اپنی ماں اور شوہر دونوں نے اس کی سادگی کی بناء پر ڈس اون کردیا۔
ایک نوجوان کی کہانی جو ایک لڑکی کو پسند کرتا ہے لیکن وہ لڑکی اس سے شادی کرنے کو تیار نہیں۔
ایک مجرم کی کہانی، نیک سلوک جس کا دل بدل دیتا ہے۔
ایک بوڑھے کی کہانی جسے پیرو مرشد سے دنیا کی طلب ہے۔
ایک بوڑھے کی کہانی جسے پوری کوشش کے باوجود آیات یاد نہیں ہوپاتیں۔ جسے خود اپنا مقام معرفت نہیں معلوم۔
ایک  نوجوان امیر بیوہ عورت کی کہانی جو معاشرے میں عورت کے مقام سے مطمعین نہیں
 اور ایک ادھیڑ عمر بزنس مین کی کہانی جو عشق حقیقی کی تلاش میں ہے جس کی اپنی گتھی نہیں سلجھتی اور وہ دوسروں کی گتھیاں سلجھاتا رہتا ہے۔

جتنی کہانیاں ہیں اتنے ہی مسائل ہیں اس لیے  دنیاوی مسائل پر لمبی لمبی ڈسکشنز ہیں، صوفی ازم کو چیلنج کیا گیا ہے۔ موجودہ مسائل کے حل میں صوفی ازم کے کردار پر، کامیابی یا ناکامی پر بحث کی گئی ہے۔ اشفاق احمد نے اپنی تمام تھیوریز اس ڈرامے کے کرداروں کے ذریعے ڈسکس کی ہیں جن کی بناء پر ڈائلاگز طویل اور جامع ہیں۔ اتنے لمبے اور مشکل ڈائلاگز کو یاد کرنا اور کردار کو خود پر طاری کرنا ایک الگ محنت طلب کام رہا ہوگا۔ ڈرامہ کے ہیرو گو کہ خیام سرحدی ہیں لیکن فردوس جمال اداکاری کے جمال پر ہیں۔ بیک وقت ڈاکیا، مالی، موچی، چرواہا کے کرداروں میں جلوہ گر۔ 

بہت سی باتوں پر اعتراض بھی کیا جاسکتا ہے:
جیسے مستقبل/غیب خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ توصوفی کیسے جان سکتا ہے۔ اور کیسے کسی اور کو کہہ سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں اس کی ضرورت ہے اور اسے بہت ذمہ داریاں اٹھانی ہیں۔
پھر  ساری دنیا کو سمجھ آجاتی ہے کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہے لیکن اس کی پڑھی لکھی سمجھدار  ماں کو سمجھ نہیں آتی کہ اسے کیا ہوا ہے۔
جیسے مرد کو معرفت کے سلسلوں میں عورت سے افضل بتایا گیا ہے کہ  مرد کو ہمیشہ معرفت کی تلاش رہتی ہے، پیاس رہتی ہے۔ عورتوں کو یہ ودیعت نہیں کیا گیا یعنی مینوفیکچرنگ فالٹ۔ رابعہ بصری نے اشفاق احمد کو پکڑ لینا ہے یوم حشر۔
پھر جو درس وہ دوسروں کو دیتا رہا کہ صوفی کو رزق حلال کماتے رہنا چاہیے، روزمرہ زمہ داریاں پوری کرتے رہنا چاہیے۔ خود اسی کو ترک کردیا نہ ماں کا خیال نہ رزق حلال کا، سب کچھ چھوڑ کر جوگ لے کر بیٹھ گیا۔

ڈرامہ میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کیسے ایک شخص کو جو خود پیری مریدی کے خلاف ہے اسے لوگ پیر بنا کے چھوڑتے ہیں اس حد تک کہ اس کے مرنے کے بعد اس کا عرس منانے لگتے ہیں اورقبر پر منتیں ماننے لگتے ہیں۔ یہ بھی کہ ہر شخص دوسرے شخص کے کردار کے آئینے میں اپنی صورت دیکھتا ہے، درویش کو وہ درویش نظر آتا ہے، بد نظر کو بد نظر، بد نیت کو بد نیت، پیر پرست کو پیر اورلالچی کولالچی

بظاہر تو اس کا تھیم یہی ہے کہ صوفی ازم میں دنیا کے تمام مسائل کا حل ہے۔ یاد رہے معاشرے میں رائج عمومی پیری مریدی نہیں بلکہ صوفی ازم لیکن اگر آپ کو بھی ہماری طرح شہاب نامہ میں ایک انگریزی تعلیم یافتہ بیوروکریٹ کو بقول شخصے ہماری دنیا کے متوازی ایک اور دنیا سے شدھ انگریزی میں لکھی ہوئی ملنے والی ہدایات سمجھ نہیں آتیں جو ان کی الماری میں سے خطوط کی صورت برآمد ہوتی تھیں، تب بھی کچھ دنیاوی الجھنیں اس ڈرامے کو دیکھنے سے حل ہوسکتی ہیں۔ مشکلات آسان ہوسکتی ہیں۔ بہت سے سوالوں کے جواب مل سکتے ہیں۔ چند ایک تھیوریز جو راقم کو کچھ کچھ سمجھ آئیں وہ درج ہیں۔

خود ساختہ مسئلے حل کرنا سب سے مشکل کام ہے

بقدر ضرورت دنیا اپنے ہاتھ میں رکھوں اور سارا بوجھ اپنے کاندھوں سے اتار دو۔

جس دعوے کی توفیق نہ ہو اس کا اعلان نہیں کرنا چاہیے۔ ورنہ آدمی مشقت میں پڑ جاتا ہے اور مشقت ہر رشتے کا زہر ہے۔

اپنے ارادے کو کسی اور کی خواہش پر قربان کردینا ہی ایثار/ محبت ہے۔

 جہاں مولا نہیں وہاں رولا۔

 اختلاف رائے زندہ ہونے کی نشانی ہے۔

سائنسدان اپنے زمانے کے صوفی اور درویش ہیں۔

جس ماضی کا حال شاہد نہ ہو وہ جھوٹا ہے۔

دنیا بہر حال من چلے کا سودا ہے، بھلائی بھی ہے، برائی بھی ہے، یہ بندے پر ہے کہ وہ کونسا راستہ اختیار کرتا ہے۔
 اپنے موضوع کے لحاظ سے یہ کسی ایک وقت یا دور کا ڈرامہ نہیں، یہ ہر دور کا ڈرامہ ہے، ہر دور کی  کہانی ہے۔ ایک ٹائم لیس پیس آف آرٹ۔