ہمارے پی ٹی وی کے لیجنڈز فلموں میں ناکام رہے۔ طلعت حسین، راحت کاظمی، عثمان پیرزادہ، آصف رضا میر، جمشید انصاری، شفیع محمد، فردوس جمال، شکیل، قوی۔ قوی جیسا پی ٹی وی کا لیجنڈ اور سینئر اداکار فلموں میں مسخرے کے کردار تک محدود رہا۔ کوئی ایک فلمی کردار ایسا نہیں جو قوی کے نام سے یا جس سے قوی فلموں میں پہچانے جاسکیں۔ حالانکہ کیریکٹر ایکٹر کے طور پر قوی فلموں میں کمال کرسکتے تھے۔ ان کے مقابلے میں رنگیلا، منور ظریف اور لہری فلم کے اداکار تھے لہذہ کئی ایسی فلمیں ہیں جن میں ان تینوں کے کردار ہی فلم کی پہچان بنے۔ صرف ایک جاوید شیخ ٹی وی سے فلموں میں گیا اور کامیاب رہا۔ طارق عزیز تو خیر اداکار تھے ہی نہیں پتا نہیں کیا کرنے گئے تھے فلموں میں۔
پی ٹی وی کا ہیرو ایک عام آدمی ہوتا تھا یا پھر کوئی انٹلیکچوئل۔ ہر دو صورتوں میں وہ ایک ڈیسنٹ انسان ہوتا تھا۔ فلم کا ہیروہونے کے لیے آپ کو تلوار چلانے والاجنگجو، درختوں کے گرد گھوم گھوم کر یا ہیروئن کے گرد ناچ ناچ کر گانا گانے والا ہونا چاہیے تھا یا پھرتلوار، ڈانگ یا گنڈاسہ ہاتھ لہرا لہرا کر ڈائلاگ بولنے والا۔ اور یہ سارے کام عام آدمی یا انٹلیکچوئل ہیرو کے کرنے کے نہیں تھے۔ ٹی وی کا ہیرو ڈیٹیلڈ اور گہری پرسنالٹی ہوتا تھا اس کی پرسنالٹی کے مخلتف شیڈز ہوتے تھے جبکہ فلم کا ہیرو بس ہیرو ہوتا تھا ایک خوش شکل دل کو لبھانے والا، ہیروئن کی بھی یہی خصوصیت تھی۔ پی ٹی وی کا ہیرو دھیمے لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر سمجھ میں آنے والی بات کرنے والا تھا اور فلم کا ہیرو اونچی آواز میں جذباتی ڈائلاگز ادا کرنے والا۔
یہی حال پی ٹی وی کی فنکاراوں کا تھا۔ روحی بانو، بندیا، عارفہ صدیقی وغیرہ سوائے عتیقہ اوڈھو فلموں میں سائیڈ رولز تک محدود رہیں کیونکہ ان کا بنیادی ٹیلنٹ اورپہچان ناچ گانا نہیں تھا۔ عتیقہ بھی ایک یا دو فلموں کے بعد کنارہ کش ہوگئیں۔ کیونکہ ٹی وی کی ہیروئن اور فلم کی ہیروئن میں وہی فرق تھا جو ٹی وی اور فلم کے ہیروز میں تھا۔ صرف ہیرو ہیروئنز ہی نہیں ٹی وی سے فلم میں جانے والے ولن بھی ناکام رہے۔ فردوس جمال ٹی وی کے نامور فنکار جنہوں نے کئی ڈراموں میں یادگار رول کیے وارث میں بگڑے ہوئے رئیس زادے کے کامیاب کردار کے بعد چند ایک فلموں میں ولن کے رول میں نظر آئے لیکن جم نہ سکے۔
فلموں کے اس سنہرے دور میں فلم اور ٹی وی کے اداکاروں کی حد بندی تھی۔ یہ حد بندی شاید اس لیے تھی کہ اس وقت فلم ٹیلی وژن سے سینئر میڈیم تھا۔ پاکستان میں ٹی وی کی پیدائش فلم سے تقریباً دو دہائیوں بعد ہوئی۔ اس وقت فلم کے اداکار پہلے سے ہی فلم اسٹار کے طور پر پورے ملک اور بیرون ملک مشہور ہوچکے تھے۔ ان کے پاس ٹی وی جیسے نوزائیدہ میڈیم کے لیے نہ تو وقت تھا اور نہ ہی سرکاری سرپرستی میں چلنے والا ٹی وی ان کے خطیر معاوضے ادا کرسکتا تھا لہذہ فلم کے اداکار فلم میں رہے اور ریڈیو کے صدا کار اپنے صدا کاری کے ٹیلنٹ کے ساتھ اپنی آوازوں کو چہروں کی پہچان دینے نوزائیدہ ٹی وی کی مدد کو آگے آئے۔ یہ حد بندی اس حد تک تھی کہ فلم کے اداکار "ادا کار" کہلاتے تھے اور ٹی وی کے اداکار "فنکار"۔
اس زمانے میں فلم کے اداکار شاذ و نادر ہی ٹی وی پر نظر آتے تھے۔ اور ٹی وی کے فنکار اپنی اوقات میں یعنی ٹی وی پر ہی رہتے تھے۔ لہذہ ٹی وی کے جس فنکار کو فلم میں موقع مل جاتا تھا وہ فلم میں اداکاری کرتےہوئے بھی اپنی اس خوشی کو چہرے سے ہٹا نہیں پاتا تھا کہ وہ فلم میں ہیرو آرہا ہے۔ یہ جملہ جلی الفاظ میں اس کے چہرے پر لکھا ہوتا تھا "سالا میں تو صاحب بن گیا"۔ فلم کی ہیروئن جسے اس نے صرف فلم میں اسکرین پر دیکھا ہوتا تھا اس کے سامنے اس سے رومانس کرتے ہوئے وہ اپنے پرستارانہ جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتا تھا نتیجے میں ہیروئن جس وقت فل رومینٹک موڈ میں ہوتی ہیرو کے چہرے پر یتیمی برس رہی ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر بابرہ شریف اور راحت کاظمی کی فلم مہمان دیکھ لیں خاص اس کا ایک عدد Adult Song جو اب دیکھیں تو کوئی حاجی صاب قسم کا گانا لگتا ہے۔
یہی پہنچ سے باہر ہونا فلم اسٹارز کی کامیابی کا راز تھا اور فلموں کی بھی۔ فلم کے اداکار آج کی طرح پچاسوں چینلز سے دن رات مختلف کرداروں میں عوام کے سامنے موجود نہیں رہتے تھے۔ عوام اپنے خوابوں کے شہزادے یا شہزادی کو پردہ اسکرین پر دیکھنے کے لیے خوشی خوشی پیسے خرچ کرتے تھے۔ صبیحہ سنتوش، نیر سلطانہ درپن، شاہد رانی، وحید مراد شمیم آرا، فردوس اعجاز، نورجہاں اسلم پرویز، ندیم شبنم، انجمن سلطان راہی سے سجی کہکشاں فلم بین کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتی تھی۔
لیکن افسوس ہم ستاروں بھری اس شاندار کہکشاں کو مزید سورج نہ دے سکے۔ اور ہماری یہ کہکشاں ایک بلیک ہول میں دفن ہو گئی۔ اس کے ستارے بے توقیر ہوکر اندھیروں میں گم ہوگئے یا اکا دکا ٹی وی پر اتر آئے۔ اب نئی کہکشاں بن رہی ہے لیکن اس میں کوئی ایک بھی ستارہ اتنا روشن نہیں کہ اپنی روشنی سے اس کہکشاں کو روشن و درخشاں کردے، سب ٹی وی سے ادھار لیے ہوئے ٹمٹماتے ہوئے ستارے ہیں۔ جوپہلے ہی رات دن چمک چمک کر اپنی چمک دمک گہنا چکے ہیں۔ آج ہماری فلم انڈسٹری میں شان کے علاوہ کوئی ایک بھی "فلم اسٹار" نہیں ہے۔ اور وہ بھی با مقصد فلموں کے ہتھے چڑھ گیا ہے جن میں مقصد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے اور فلم کم ہوتی ہے۔
یہی پہنچ سے باہر ہونا فلم اسٹارز کی کامیابی کا راز تھا اور فلموں کی بھی۔ فلم کے اداکار آج کی طرح پچاسوں چینلز سے دن رات مختلف کرداروں میں عوام کے سامنے موجود نہیں رہتے تھے۔ عوام اپنے خوابوں کے شہزادے یا شہزادی کو پردہ اسکرین پر دیکھنے کے لیے خوشی خوشی پیسے خرچ کرتے تھے۔ صبیحہ سنتوش، نیر سلطانہ درپن، شاہد رانی، وحید مراد شمیم آرا، فردوس اعجاز، نورجہاں اسلم پرویز، ندیم شبنم، انجمن سلطان راہی سے سجی کہکشاں فلم بین کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتی تھی۔
لیکن افسوس ہم ستاروں بھری اس شاندار کہکشاں کو مزید سورج نہ دے سکے۔ اور ہماری یہ کہکشاں ایک بلیک ہول میں دفن ہو گئی۔ اس کے ستارے بے توقیر ہوکر اندھیروں میں گم ہوگئے یا اکا دکا ٹی وی پر اتر آئے۔ اب نئی کہکشاں بن رہی ہے لیکن اس میں کوئی ایک بھی ستارہ اتنا روشن نہیں کہ اپنی روشنی سے اس کہکشاں کو روشن و درخشاں کردے، سب ٹی وی سے ادھار لیے ہوئے ٹمٹماتے ہوئے ستارے ہیں۔ جوپہلے ہی رات دن چمک چمک کر اپنی چمک دمک گہنا چکے ہیں۔ آج ہماری فلم انڈسٹری میں شان کے علاوہ کوئی ایک بھی "فلم اسٹار" نہیں ہے۔ اور وہ بھی با مقصد فلموں کے ہتھے چڑھ گیا ہے جن میں مقصد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے اور فلم کم ہوتی ہے۔