ریپ انسانی رویوں میں بدترین رویہ ہے۔ ریپ قتل سے بھی زیادہ گھناونا جرم ہے۔ مقتول تو ایک بار ہی مر کر مکت ہوجاتا ہے چاہے اس کے چاہنے والے کتنی ہی تکلیف سے گزریں۔ لیکن ریپ کا شکار انسان نہ زندوں میں رہتا ہے نہ مردوں میں۔ وہ ساری عمر کے لیے ایک نارمل ہنستی بستی زندگی گزارنے سے محروم ہوجاتا ہے۔نہ خود نارمل زندگی گزار سکتا ہے نہ اس سے جڑے ہوئے، اس سے محبت کرنے والے یا اس کی محبت کے منتظر لوگ ساری عمر نارمل ہوپاتے ہیں۔
دنیا بھر میں اس وقت 35 فیصد خواتین ایسی ہیں جو کسی نہ کسی نوعیت کی جنسی ہراست کا شکار ہوئی ہیں۔ جنسی ہراسانی کی شکار 40 فیصد خواتین مدد کی طالب ہوتی ہیں اور صرف دس فیصد قانون کی مدد لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ ریپ سے متاثرہ ٹاپ ٹین ممالک میں افریقہ، وسطی امریکہ اور یورپ کے ممالک بھی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ جنوبی افریقہ میں خواتین ریپ کا شکار ہوتی ہیں جن کی شرح 132 فی ایک لاکھ خواتین ہیں ۔ صرف خواتین ہی نہیں بلکہ بچے ، مرد اور ٹرانس جینڈرز بھی ریپ کا شکار ہوتے ہیں۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہر ملک میں ریپ کے رپورٹ شدہ کیسز کی تعداد اصل ریپ کیسز سے بہت کم ہے۔ جس کی مرکزی وجہ وکٹم شیمنگ اور وکٹم بلیمنگ ہے۔ ایک ریپ شدہ خاتون پر ساری عمر کے لیے ٹیگ لگ جاتا ہے اور نہ صرف اسکی بلکہ اس کی فیملی کی بھی زندگی عموماً معاشرے سے منہ چھپاتے ہی گزرتی ہے۔
لیکن اکتوبر 2017 میں ہالی ووڈ کے ایک پروڈیوسر پر جنسی ہراسمنٹ کے الزامات سامنے آنے کے بعد #MeToo تحریک کا آغاز ہوا ۔ ابتدا میں ہالی ووڈ کی مشہور اداکاراوں نے می ٹو ٹرینڈ کو سپورٹ کیا پھر دھیرے دھیرے دنیا بھر سے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نمایاں خواتین اور [حضرات نے بھی] اپنے تجربات شئیر کیے اور آگے بڑھ کر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم سے پردہ اٹھایا جس سے نہ صرف جنسی ہراسانی پر بحث زبان زد عام ہوئی بلکہ عام خواتین کی ہمت بھی بڑھی کہ اگر ان کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو وہ شرم کے پردے میں چھپنے کے بجائے سامنے آئیں۔
بالی ووڈ عرصہ دراز سے مختلف متنازعہ اور ممنوعہ/ٹیبو موضوعات پر موویز بنارہا ہے، جیسے پی کے، پیڈ مین، ٹوائلٹ ایک پریم کتھا، آرٹیکل 15 وغیرہ۔ می ٹو تحریک کا بالی ووڈ پر بھی قابل ذکر اثر پڑا ، کئی اداکاراوں نے مختلف مرد ساتھی اداکاروں، ہدایت کاروں اور پروڈیوسرز پر الزامات عائد کیے اور مختلف اداکار بھی غیر فلمی خواتین کے الزامات کا نشانہ بنے۔ سیکشن 375 می ٹو تحریک کے زیر اثر بنائی گئی فلم ہے۔ جس میں ہندوستان میں ریپ سے متعلق قانون کو کورٹ روم میں ڈسکس کیا گیا ہے۔
ہندوستان پینل کوڈ کی دفعہ 375 ریپ سے متعلق ہے۔ جس کے مطابق اگر کوئی شخص کسی ادارے میں ایسی پوزیشن میں ہے کہ اس کی بات نہ ماننے کی صورت میں اس کے ساتھ/ اس کی عملداری میں ملازمت/ کام کرنے والی خاتون کو کسی قسم نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے اور وہ اس سے جنسی عمل / زیادتی کا نشانہ بناتا ہے تو یہ عمل ریپ شمار ہوگا خواہ ایسا خاتون کی مرضی اور اجازت سے ہوا ہو۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے پینلز کوڈ میں بھی ریپ کی لگ بھگ یہی تعریف ہے۔
سیکشن 375 میں اس قانون کے سماجی اور قانونی پہلووں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ سماجی پہلو ان حالات کا احاطہ کرتا ہے جن سے ایک خاتون کو ریپ کی شکایت درج کروانے اور قانون کی مدد حاصل کرنے کے دوران گزرنا پڑتا ہے۔ اسے کتنی بار وہی تکلیف دہ صورت حال بیان کرنی پڑتی ہے۔ پہلےپولیس کے سامنے، پھر ڈاکٹر کے سامنے، پھر وکیل کے سامنے اور پھر بھری عدالت میں۔ اور کس کس قسم کے سوالوں کے جواب دینے پڑتے ہیں۔ بر صغیر کی روایتی پولیس اور بیوروکریسی کس بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اور ذرا سی دیر کس طرح ثبوت ضایع یا خراب کردیتی ہے۔ مجموعی طور پر پولیس اور بیوروکریسی کا رویہ ریپ وکٹم کے لیے مددگار ہونے کے بجائے مخالفانہ بے حسی پر مبنی ہوتا ہے۔
دوسری جانب ریپ کے قانونی پہلو ہیں۔ کہ وہی قانون جو دراصل ریپ وکٹمز خصوصاً خواتین کو تحفظ دینے کے لیے بنا ہے۔ اسے کس طرح توڑا مڑوڑا جاسکتا ہے اور خواتین اس سے فائدہ اٹھانےکے بجائے ناجائز فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور اٹھا رہی ہیں۔ اور سب سے زیادہ افسوس ناک بات کہ عدالتیں بھی انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ
" they (lawyers) are in the business of law and not justice. "
💔💔💔💔💔💔