Sunday, December 29, 2019

یوسف خان عرف دلیپ کمار


اداکار دلیپ کمار کی عظمت کا اعتراف ایک دنیا کرتی ہے لیکن دلیپ کمار کیوں دلیپ کمار ہے اس کا اندازہ ان کی سوانح حیات کو پڑھ کر ہوتا ہے۔ پشاور میں پیدا ہونے والا ایک غیور، شریف اور وفادار پٹھان  کتنی محنت، مشقت اور کمٹمنٹ کے سہارے اس مقام کو پہنچا ہے کہ آج پاک وہند کا ہر چھوٹا بڑا اداکار اور فلم بین اس کا نام عزت سے لیتا ہے، بڑے بڑے اداکار اس کی فلموں کے ری میک میں کام کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں اور پھر اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان سے غلطی ہوئی جو ان کے کردار کو ری پلے کیا، ان کا کوئی مقابل نہیں کوئی ثانی نہیں۔

کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کی فلموں اور آج کی موویز میں جو کلاس کا فرق ہے وہ کیوں ہے۔ اس وقت اپنی اپنی فیلڈ کے ماہرین فلم لائن سے وابستہ تھے۔ کیمرہ مین، لائٹ ڈائریکٹر اور ساونڈ انجینئرز جب فزکس میں پی ایچ ڈی ہونگے، فلم کی کہانی کو اسکرپٹ میں ڈھالنے کے لیے جب رائٹرز کا پورا بورڈ بیٹھے گا، اداکار اپنے رول میں ڈھلنے کے لیے اسکرپٹ نہیں اوریجنل کہانی، افسانہ یا ناول پڑھے گا اور کردار کی نفسیات میں اترنے کے لیے رات رات بھر بیٹھ کر سوچے گا کہ اس شخص پر اس سچویشن میں کیا بیت رہی ہوگی، اداکار کردار میں اس طرح اتر جائے کہ اسے باہر آنے کے لیے سائکائٹرسٹ سے رجوع کرنا پڑ جائے، فلم کی لوکیشن کے لیےصرف ہدایت کار ہی نہیں، اداکار، رائٹڑ اور پروڈیوسر تک مارا مارا پھرے، پھرفلم کہیں جاکر کیمرے کا منہ دیکھے، تو اس فلم کی کلاس کیوں الگ  نہ ہوگی۔

یہ کتاب ان دنوں کی یاد دلاتی ہے جب فلمیں  ٹاکیز/ کمپنیوں کے تحت بنتی تھیں ، اداکار ان کمپنیوں کے معاہدوں کے تحت ملازم ہوتے تھے، کمپنی کا دفتر اور شوٹنگ صبح نو بجے شروع ہوتے تھے اور شام پانچ بجے چھٹی ہوجاتی تھی۔ جسٹ لائک ایک نارمل دفتر۔ اداکاروں کو راتیں اسٹوڈیوز میں نہیں گزارنی پڑتی تھیں اور ان کے پاس اپنی فیملی اور دوستوں کو دینے کے لیے وقت ہوتا تھا۔

لیکن یہ کتاب آپ کو عظیم اداکر دلیپ کمار سے کہیں عظیم تر انسان یوسف خان سے ملواتی ہے۔ ایک محبت کرنے والا فرماں بردار بیٹا، بہن بھائیوں کے لیے ایک باپ کی طرح شفیق سرپرست۔ ایک سپورٹنگ کولیگ، دوستوں سے دوستی نبھانے والا دوست، ایک محبت کرنے والا شوہر۔ ایک ڈیسنٹ انسان

کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یوسف خان کا اسٹینڈرڈ کھانے پینےسے لے کر لباس اور دوستی، رشتے داری اور تعلق داری میں کیا تھا۔ عموماً مدھو بالا کے ساتھ ان کے شدید قسم کے عشق کا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ ان سے عشق میں ناکامی کے بعد یوسف خان نے ایک لمبے عرصے تک شادی نہیں کی لیکن وہ اس کی وجوہات کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ یوسف خان کے لیے ان کا خاندان سب سے اہم تھا۔ زندگی کا محور تھا نہ کہ  مدھو بالا سے سے تعلق۔ ایک ایسا بھائی جو اتنا بڑا اداکار بننے کے بعد بھی بمبئی کے بازاروں میں اپنی بہنوں کے ملبوسات کے لیے لیس اور بیلیں تلاش کرتا پھرتا تھا۔

عام تاثر کے برعکس یوسف خان کی اپنے تمام ہم عصر اداکاروں سے دوستی تھی، نہ صرف اداکار بلکہ ہدایت کار، کیمرہ مین، لائٹ ڈائریکٹرز، کہانی کار، ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد، جو ایک بار یوسف خان سے مل لیا، دوست ہوگیا۔ خاص کر راج کپور ان کے بچپن کے دوست تھے، ان کےمحلے، شہر، کالج، کرکٹ، فٹ بال، بیڈ منٹن کے ساتھی اور باراتی  بھی


لیکن کچھ باتوں پر حیرت بھی ہوئی جیسے کہ دلیپ کمار اپنے کیرئیر میں دیویکا رانی کا بہت بڑا احسان مانتے ہیں  جنہوں نے انہیں اپنی فلم کمپنی بمبئی ٹاکیز میں پہلی ملازمت بطور اداکار آفر کی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر  جگنو 1947 کا ذکر کرتے ہوئے نور جہاں کا تذکرہ بھی ان کی نوک قلم پر نہیں آتا۔ جو اداکارہ 1930 سے انڈسٹری میں تھی۔ جس کے کریڈٹ پر جگنو سے پہلے خاندان 1942، زینت 1945، انمول گھڑی 1946 جیسی کامیاب فلمیں تھیں۔ اور وہ ایک نو آموز فلم اداکار کے ساتھ بطور ہیروئن کام کرنے پر تیار ہوگئی اس کا  اپنی پہلی ہٹ مووی جگنو 1947 کی کامیابی میں کوئی ذکر ہی نہیں۔

 کتاب پڑھنے کے بعد  می مسنگ دا ڈیز جب فلم کی اسٹوری بھی پتا نہیں ہوتی تھی اور فلم کے ساتھ اتنا جذباتی اٹیچمنٹ ہوجاتی تھی کہ ولن اور ہیرو کی ریس میں ہیرو کے ساتھ ہمارا دل بھی دھڑکتا تھا۔  یہ کتاب پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ عام افواہوں کے برعکس ہم عصر اداکاروں کے درمیان کس قدر دوستی اور یگانگت تھی۔ مجھے تو ساری دیکھی ہوئی موویز دوبارہ دیکھنی پڑیں گی ان سینز کو باریکی سے دیکھنے کےلیے جن پر دلیپ صاحب نے اتنی محنت کی تھی، جن کی ان کے ڈائریکٹرز اور کو اسٹارز نے کتاب میں اتنی تعریف کی ہے۔
ہائی لی ریکمنڈیڈ
 🎦 🎥 🎦 🎥 🎦 🎥 🎦