Monday, June 26, 2017

روڈ ٹو مکہ : علامہ محمد اسد

ایک یوروپین بدوکی کہانی

لیوپولڈ آف عربیہ
علامہ محمد اسد پیدائشی یہودی تھے جو آسٹریا کے ایک اچھے خاصے مذہبی یہودی خاندان میں بطور Leopold Weiss پیدا ہوئے، تعلیم پائی ، پھر روزگار کے سلسلوں میں یروشلم جاپہنچے۔ جہاں ان کا پہلی مرتبہ عربوں، مسلمانوں اور صیہونیوں سے واسطہ پڑا۔ بعد ازاں وہ مسلمان ہوگئے ۔ اور ان کی بقیہ زندگی مسلمان ممالک اور مسلمانوں کے درمیان اور اسلام کے لیے گزری ۔ 

انکی بیسٹ سیلر کتاب "روڈ ٹو مکہ " انکی اپنی سوانح کے علاوہ بھی کئی سوانح ہائے حیات پر مشتمل ہے، ابن سعود کے عروج اور "سعودی" عرب کے عہد طفولیت کی کچھ جھلکیاں، جنوبی اور شمالی سعودی عرب کی خانہ جنگی کی آنکھوں دیکھی تاریخ،  عرب کے بدوی معاشرے اور صحرائی زندگی کی خصوصیات، پہلی جنگ عظیم کے بعد کے یورپ کی معاشی، معاشرتی اور روحانی بدحالی کی داستان، بیسویں صدی کے اوائل میں فلسطین کا معاشرہ اور فلسطین میں زبردستی ایک یہودی ریاست کے نقش و نگار ابھارنے کی کوششیں۔ کس طرح مغربی سامراجی ممالک نے مختلف عرب ممالک کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی کی اور ان کے نتائج کیا نکلے ۔ لیبیا میں عمر مختار کی  جدوجہد کی کہانی، ایران کے شیعہ بنیاد پرست ملک بننے کی داستان۔


صحرائی بدوی زندگی اور یورپی شہری زندگی کا تقابل ، دونوں کے پس منظر میں کارفرما فلاسفی، دونوں کس طرح ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور انہیں کیوں ایک ہی [یورپی] معیار پر نہیں پرکھا جاسکتا۔ زندگی اور اس سے سلوک کے بارے میں عرب اور یورپی معاشرہ کس طرح مختلف روئیے رکھتے ہیں ۔

روڈ ٹو مکہ دراصل ان کے یہودیت سے قبول اسلام کا سفر ہے جسے انہوں نے اپنے عراق عرب بارڈر سے صحرا پار مکہ تک کے اپنے سفر کے مختلف مراحل سے ہم آہنگ کر کے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ان کے بقول ایک یوروپی یہودی خاندان میں پیدا ہونے کے باوجود وہ شروع ہی سے اسلام کی تلاش میں تھے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا۔ یہی بات انہیں باقاعدہ اسلام قبول کرنے سے چند برس قبل افغانستان کے ایک دور دراز گاوں میں ایک افغانی نے کہی تھی کہ "تم مسلمان ہو لیکن تمہیں یہ نہیں معلوم کہ تم مسلمان ہو"۔ ایک عرب کو اپنے اسلام قبول کرنے کے بارے میں تجسس کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں:


ان کا انداز تحریر انتہائی تفصیلی اور گہرائی لیے ہوئے ہے شاید اس لیے کہ وہ اپنی تعلیم کے دوران سائکو انالسِز Psychoanalysis کے طالب علم تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے مغربی معاشرے کی مادی ترقی اور روحانی تنزلی کو بہت گہرائی سے بیان کیا ہے، اسی طرح شاہ عبدالعزیز ابن سعود کے بارے میں جو ان کے قریبی دوست تھے نہ صرف ان کی خوبیاں بیا ن کی ہیں بلکہ ان کی ذات کی خامیاں بھی اتنی ہی گہرائی اور objectivity سے بیان کی ہیں جو ایک غیر جانبدارتجزیہ کرنے والا ذہن بیان کرسکتا ہے۔ دوسری جانب انہوں نے بدووں، صحرا اور قدرتی مناظر کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ان کا طرز اظہار introspective ہے۔ 


علامہ محمد اسد عرب اور عربوں کی محبت میں گوڈے گوڈے ڈوبے ہوئے تھے۔ جس کا اظہار اس کتاب میں جا بجا نظر آتا ہے اور انہوں نے کئی مقامات پر اسکا اعتراف بھی کیا ہے۔ عرب لینڈ اسکیپ، عرب کے صحرا، عرب بدو، ان کے صحرائی گیت، اور عرب کے اونٹ، وہ مختلف لہجوں کی عربی بھی باآسانی بول سکتے تھے۔ انہیں عرب خاص کر سعودی عرب میں مغربی نفوذ پر بھی تحفظات تھے انہیں مغربی ممالک کے خطے میں نفوذ پر جو اندیشے تھے آج وہ اندیشے حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ عرب کو انہوں نے بہت رومانس کے ساتھ بیان کیا ہے لیکن ساتھ ہی قاری کو آگاہ بھی کردیا ہے کہ جو عرب اس کتاب میں ہے اب اسکا وجود عرب سرزمین پر نہیں ملے گا۔ تیل اور سونا اس عرب کو اپنے ساتھ بہا لے گیا ہے۔

عربوں ہی کی طرح مصنف نے اپنی پرسنل فیملی لائف کے بارے میں مکمل راز داری برتی ہے اور کتاب میں اکا دکا شادی اور طلاق کے ذکر کے علاوہ پرسنل فیملی لائف کے بارے میں مکمل خاموشی ہے۔ صرف شاہ عبدالعزیز اور دیگر شیوخ سے اپنے تعلقات، اپنے ایڈوینچرز، سفر ، صحرائی زندگی، صحافیانہ کیرئیر کے بارے میں تفصیلات ہیں۔

بظاہر وہ ایک مشہور صحافی ، ایک مذہبی اسکالر اور ایک سفارتکار تھے لیکن اصل میں وہ ایک سیاح اور ایک ایڈوینچرر تھے۔ جس نے سعودی خانہ جنگی کے دوران شاہ سعود کے لیے  جاسوسی مشن پر کویت اور ایران بارڈر پر اپنی جان جوکھوں میں ڈالی، لیبیا کی جنگ آزادی کے دوران عمر مختار کو اہم پیغام پہنچانے کے لیے غیر قانونی طور پر مصر سے لیبیا میں داخل ہوئے اوراطالوی طیاروں کی بمباری میں شہید ہونے سے بال بال بچے، ان ایڈونچرز کی وجہ سے انہیں لارنس آف عربیہ کے طرز پر لیوپولڈ آف عربیہ بھی کہا جاتا ہے۔

 انہوں نے فلسطین، اردن، شام، عراق، کویت، ایران، یمن، افغانستان ، ہندوستان، لیبیاء، ترکی، ازبکستان، ہندو کش، کشمیر میں ان گنت سفر، ٹریکس اور ایڈونچرز کیے۔ ان کے ایڈوینچرز اور اسفار پر ایک زبردست مووی بن سکتی ہے ۔ جیمز بانڈ موویز سے بھی زیادہ سسپنس اور ایکشن سے بھرپور مووی ۔ اور ظاہر ہے کہ وہ یہودی سے مسلمان ہوئے تھے تو ان پر ہالی ووڈ تو مووی بنانے سے رہا اور ہم تو وحشی گجروں پر فلمیں بناتے ہیں۔

روڈ ٹو مکہ پڑھنے کے بعد ناممکن ہے کہ آپ مصنف کے بجائے زید کی محبت میں مبتلا نہ ہو جائیں۔

🐪 🐪 🐪 🐪 🐪 🐪 🐪 🐪 🐪 🐪 🐪 🐪 🐪 🐪

پی ایس: [غالباً] غیر منقسم ہندوستان میں ان کی ملاقات علامہ محمد اقبال سے ہوئی، جنہوں نےانہیں برصغیر میں مسلم کاز کےلیے کام کرنے پر آمادہ کیا۔  قیام پاکستان کے بعد انہیں پہلے پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اقوام متحدہ میں انکی بطور سفیر پاکستان تعیناتی کے لیے شناختی کاغذات کی ضرورت تھی ۔ لہذہ انکے لیے خاص طور پر شناختی کاغذات/ پاسپورٹ تیار کروائے گئے جو اس سے پہلے کسی اور پاکستانی کو جاری نہیں کیے گئے تھے، اس طرح تکنیکی طور پر وہ پہلے باقاعدہ پاکستانی قرار پاتے ہیں۔


2007 میں پاکستان پوسٹ نے ان کے نام کا یاد گاری ٹکٹ جاری کیا

🐪 🐪 🐪 🐪 🐪 🐪 🐪





پی پی ایس: روڈ ٹو مکہ علامہ محمد اسد کی مکمل سوانح حیات نہیں ہے، بلکہ ان کے  بچپن سے لے کر قبول اسلام اور عرب ایڈوینچرز تک ہی محدود ہے۔ جس میں انکے بیرون عرب یعنی افغانستان، ہندو کش اور ایران کے سابقہ ایڈونچرز کا بھی ضمنی تذکرہ ہے۔ بعد میں ان کی ہندوستان آمد، تحریک پاکستان کے لیے ان کی خدمات اور بطور پاکستانی سفیر ان کے تجربات اور واقعات اس کتاب کا حصہ نہیں ہیں۔