رمضان نشریات میں خاتون عمرے کا ٹکٹ ہاتھ میں لیے خوشی کے آنسو پوچھ رہی تھیں۔ میزبان انہیں مبارک باد دے رہا تھا اور بیک گراؤنڈ میں نعت خوانوں کا پینل لہک لہک کر
آیا ہے بلاوہ مجھے دربار نبی سے
قران مجید میں بارہا اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر فرمایا ہے کہ وہ صرف ایک پیغام رساں ہیں وہ لوگوں کے دلوں کو تبدیل نہیں کرسکتے نہ ہی وہ لوگوں کو ہدایت دے سکتے ہیں۔ ہدایت دینے کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب چچا ابو طالب کا وقت آخر آپہنچا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری عمر دل سے چاہتے تھے کہ وہ اسلام قبول کرلیں، وقت نزع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب سے فرمایا کہ آپ صرف لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ پڑھ لیں تاکہ میں اس کے سہارے اللہ تعالی سے آپ کی سفارش کرسکوں لیکن انہوں نے انکار کر دیا کہ وہ آخر وقت میں اپنے باپ دادا کے دین سے نہیں ہٹیں گے۔
تب یہ آیات نازل ہوئیں :
" آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ تعالی ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے ۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے۔" (سورۃ القصص آیت 56)
پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے ان کی مغفرت کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "کسی ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) کو اور ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ایسا کرنا سزاوار نہیں کہ جب واضح ہوگیا یہ لوگ جہنمی ہیں پھر بھی مشرکوں کی بخشش کے طلب گار ہوں اگرچہ وہ ان کے اعزہ و اقارب ہی کیوں نہ ہوں۔" (سورہ توبہ آیت 113)
جس وقت ابراہیم علیہ سلام چاہتے تھے کہ ان کے والد گمراہی چھوڑ کر صرات مستقیم پکڑ لیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں روکا۔
جب نوح علیہ سلام اپنے بیٹے کے لیے دل گرفتہ تھے اور چاہتے تھے کہ وہ ہلاک نہ ہو اور کشتی میں سوار ہوجائے تو فرمایا کہ تم وہ نہیں جانتے جو ہم جانتے ہیں اور وہ تم میں سے نہیں یعنی ہدایت پانے والوں میں سے نہیں۔
"اے نوح! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، کیونکہ اس کے عمل اچھے نہیں ہیں، سو مجھ سے مت پوچھ جس کا تجھے علم نہیں، میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کہیں جاہلوں میں نہ ہو جاؤ۔" سورۃ ہود 46
جب یونس علیہ سلام نے اللہ کے حکم کا انتظار کرنے کے بجائے فیصلے میں جلد بازی سے کام لیا تو انہیں اس کی سزا ملی۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر دل گرفتہ ہوتے تھے کہ لوگ ان کے پیغام پر لبیک کیوں نہیں کہتے اور ان کی مخالفت کیوں کرتے ہیں تو اللہ نے انہیں تسلی دی کہ تمہارا کام تو صرف پیغام پہنچانا ہے ہدایت دینا ہمارا کام ہے ۔۔ تم تسلی رکھو ان کے کیے پر تم سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ ان کے اعمال سے تم بری ہو.
"ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال"
(سورۃ شوریٰ آیت 15)
یہ سارے معاملات اور مثالیں اللہ تعالی کے مقابلے میں انبیاء کے مقام کا تعین کرتی ہیں کہ سپریم کمانڈر اللہ تعالیٰ ہے ۔ وہ جب تک نہ چاہے نبی بھی اپنی مرضی نہیں کرسکتا نہ ہی زندہ نبی کسی کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان جب تک وہ نہ چاہے ۔۔ عیسی علیہ سلام بھی اللہ کے حکم سے بیماروں کو شفا دیا اور مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے۔
نبی کا مقام صرف ایک پیغام پہنچانے والے کا ہے۔ جیسے ایک ڈاکیہ جس کا کام ایک بندے کا خط دوسرے کو پہنچانا ہوتا ہے ۔ وہ اس پیغام میں کوئی ردو بدل نہیں کرسکتا کوئی کمی بیشی نہیں کرسکتا، نہ ہی ہر دو کے مابین کسی معاملے میں تصفیہ کرا سکتا ہے، وہ کوئی مدد نہیں کرسکتا بجز اسکے کہ خط پڑھ کر سنا دے ۔۔
اسی طرح ایک نبی کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کا پیغام اپنی امت تک پہنچانا ہے انہیں یہ بشارت دینی ہے کہ ایمان لاو گے اور نیک عمل کرو گے تو یہ فائدے ہونگے ، نہیں کرو گے تو یہ نقصانات ہونگے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ بعض مقامات پر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح مخاطب کیا گیا ہے کہ اگر عام لوگ اردو میں قران پڑھ لیں تو اللہ تعالیٰ کو توہین رسالت کے جرم میں موت کی سزا دے دیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول کا مفہوم ہے کہ میری دشمنی اور میری محبت میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جہنم رسید ہوگی۔ محبت میں غلو کے باعث ۔۔ یعنی لوگ میری محبت میں میرے ساتھ وہ صفات بھی منسلک کردیں گے جو مجھ میں نہیں۔ جس طرح اندھا دھند غلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ کیا جارہا ہے خدشہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسی باعث جہنم رسید ہوگی۔
جب ہدایت ایک زندہ نبی نہیں دے سکتا تو ایک مرحوم نبی حج یا عمرے کا بلاوہ کیسے دے سکتا ہے ۔ یہاں دیگر صوفیائے کرام اور بزرگوں کی بعد از مرگ صلاحیتوں پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ پھر حج اور عمرہ مدینہ منورہ میں نہیں مکہ مکرمہ اور خانہ کعبہ میں ادا ہوتا ہے۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور دورہ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اخلاق کا تقاضہ ضرور ہے عمرہ یا حج کا رکن نہیں۔
بے شک ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسوہ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک رسول اللہ اسے دنیا کی ہر شے سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نعوذ باللہ اللہ تعالی کی ذات و صفات میں شریک کرنا شروع کردیں اور وہ تمام افعال و صفات جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے منسلک ہیں انہیں رسول اللہ کی ذات سے موسوم کرنا شروع کردیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ان کے ذریعے پہنچائی گئی ہدایت کے مطابق زندگی گزاری جائے، ان کے دئیے پیغام عظیم کو سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے نہ کہ ان کی ذات کو پوجنا شروع کردیا جائے۔
حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جس قدر بدعات ہمارے معاشرے میں رائج ہوتی جارہی ہیں وہ دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتیں۔ اگر بت اور تصویر کشی حرام نہ قرار دی گئی ہوتی تو نعوذ باللہ اب تک ہماری تمام مساجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتوں سے مزین ہوچکی ہوتیں۔ ربیع الاول پر قصویٰ کی پریڈ، اس پر بچوں کو بٹھانا، نیچے سے گزارنا، اس پر ہار پھول چڑھانا، خانہ کعبہ اور گنبد خضراء کی تصاویر اور ماڈلز کے گرد طواف اور ان کی زیارات کو باعث ثواب سمجھنا۔
یہ سب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وصلم کے نام پر ہورہا ہے اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نہ ہی وہ اس کے ذمہ دار ہیں نہ سپورٹر
"پھر اگر تیری نافرمانی کریں تو کہہ دے کے میں تمہارے اعمال سے بری ہوں"
(سورۃ شعراء آیت 216)
اس پوری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ عمرے یا حج کی توفیق اور وسائل صرف اور صرف اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ صرف وہی مسبب الاسباب ہے۔
🌙🌙🌙🌙🌙
لکم دینکم ولی یا دین